کون تھااسلام کے نام پردہشت پھیلانے والاگروہ’’خارجی‘‘؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-09-2021
کون تھااسلام کے نام پردہشت پھیلانے والاگروہ’’خارجی‘‘؟
کون تھااسلام کے نام پردہشت پھیلانے والاگروہ’’خارجی‘‘؟

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کو موجودہ دور کا خطرناک گروہ قراردیا جاتاہے۔آئی ایس کی سفاکی سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا نے دیکھی جب اس ظالم گروہ نے لائن میں بٹھاکر درجنوں افرادکی گردنیں کاٹ دیں اور ویڈیوبناکردنیا کو دکھایا۔ان کے ذریعے لوگوں کو غلام بنانے اورخواتین کو بے آبروکرنے کی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ مزیدستم یہ کہ یہ سب اسلام کے نام پرہواجودین رحمت ہے اور انسان توکیا جانوروں کوایذا دینے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام،دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آیا تھا مگراسلام کے ابتدائی دور میں ہی ایک طبقے نے اسلام کا نام لے کردہشت گردی شروع کردی تھی اور آج جتنے بھی آتنک وادی گروہ ہیں ،وہ اسی نظریے پر کاربند ہیں۔

خارجی کون؟

اسلام کے نام پر آتنک پھیلانے والے سب سے پہلے گروہ کو ’’خارجی‘‘ کہاجاتاتھا۔ لفظ ’’خارجی‘‘ کا مطلب ہوتاہے’’باہرنکل جانے والا‘‘۔چونکہ یہ لوگ اپنی شدت پسندی اور انتہاپسندی کے سبب اسلام سے باہرنکل گئے تھے لہٰذاانھیں خارجی کہاجانے لگا۔ انھوں نے اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کیا تھا،اس وجہ سے بھی انھیں خارجی کہاجاتاہے۔

خارجی اور اسلام

خارجیوں کا نظریہ ،اسلام سے متصادم تھاکیونکہ اسلام اعتدال کا مذہب ہے جب کہ خارجیوں کا نظریہ شدت پسندی اور انتہاپسندی والاتھا۔ وہ بات بات پر تلواریں کھینچ لیتے تھے اور قتل وغارت گری کیا کرتے تھے اور اسے اسلام کا حصّہ مانتے تھے۔یہ اس قدر ظالم تھے کہ حاملہ عورتوں کاپیٹ چیرکربچے نکال لیتے اور قتل کردیتے تھے۔

دوسری طرف یہ اسلامی عبادات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ یہ عابد و زاہد قسم کے لوگ تھے اور نماز، روزہ کے اس قدر پابند تھے کہ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانیوں پر سیاہ دھبے بن جاتے تھے۔ یہ لوگ زیادہ عبادتیں کیا کرتے تھے اور احساس برتری کا شکار ہونے کے سبب عام مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

خارجیوں کا زمانہ

خارجی تو عہدنبوی میں ہی پیدا ہوگئے تھے مگرحضرت علی کا دورآتے آتے،یہ خاصے طاقتورہوگئے تھے۔حضرت علی کا دور خلافت656–661عیسوی کے درمیان رہا۔ اس دوران خارجیوں نے بڑے پیمانے پر فتنے پرپاکئے۔یہ پہلے امیرمعاویہ کے خلاف ہوئے اور حضرت علی کو برحق خلیفہ تسلیم کیا اور پھرحضرت علی کی بھی مخالفت شروع کردی۔

خارجیوں کا علاقہ

اسے اتفاق کہا جائے گاکہ تب بھی ان کا مرکزعراق اور شام کے علاقے تھے اور آج بھی ان کے پیروکاروں کا گڑھ یہی علاقہ بنا ہواہے۔ عراق اور شام میں ہی آئی ایس آئی ایس جیسی جماعتیں ہیں جو انتہا درجے کی شدت پسند ہیں۔ خارجیوں کے گروہ میں اکثریت عراق کے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ جنگ صفین کے موقع پریہ گروہ نمودار ہوا اور حضرات علی ومعاویہ کے درمیان صلح کی مخالفت کی۔ یہ لوگ ہرحال میں جنگ چاہتے تھے۔ اس عہد میں شعث بن راسبی نامی شخص ان کا سردارتھا۔ اس گروہ کے دوسرے لیڈروں کے نام عبد اﷲ بن الکواء، عتاب بن الاعور، عبد اﷲ بن وہب راسبی، عروہ بن جریر، یزید بن عاصم محاربی، حرقوص بن زہیر بجلی المعروف بہ ذو الثدیہ تھے۔

 حضرت علی کی مخالفت

حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں بلکہ داماد بھی ہیں۔ ان کی پرورش اور تربیت بھی رسول اللہ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ ان کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔باوجوداس کے خارجی گروہ انھیں، مسلمان نہیں مانتاتھا۔ یہ گروہ امیرمعاویہ کو بھی اسلام سے خارج سمجھتاتھااور دونوں سے جنگ کرنا ضروری سمجھتا تھا۔

ایک موقع پر یہ لوگ حضرت علی سے جنگ کے لئے نکلے اور جنگ نہروان میں شکست کھائی۔ اس جنگ میں خارجیوں کی تعداددس ہزار تھی۔ جنگ میں شکست کے باوجود حضرت علی نے ان کے ساتھ اچھابرتائوکیااور ان کے چار سوسے زیادہ  زخمیوں کی مرہم پٹی کرائی اور انھیں واپس ان کے گائوں بھیجا۔

خارجیوں کی شورشیں

جنگ نہروان میں شکست کے باوجود خارجیوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔یہ لوگ باقی رہے اور وقت وقت پر شورشیں بھی برپاکرتے رہے۔ان کی قوت بنوعباس کے عہد تک بنی رہی اور بنوامیہ کے ساتھ ساتھ بنوعباس کے دور میں بھی انھوں نے گڑبڑیاں کیں۔کوفہ اور بصرہ تو دو مراکز تھے ہی،ان کا دائرہ کار شمالی افریقہ تک پھیل گیا تھا۔ کسی بھی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ انھوں نے حضرات علی وامیرمعاویہ کے قتل کی سازشیں کیں اور حضرت علی کوابن ملجم نامی ایک خارجی نے شہید بھی کیا۔ اسلامی تاریخ کی کتابیں خارجیوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہیں۔

آج بھی ہیں خارجی گروہ؟

خارجیوں کی باقیات آج بھی موجودہیں۔ ایک اباضی فرقہ ہے جوعمان،لیبیااور کچھ دوسرے ملکوں میں پایاجاتاہے،یہ خارجیوں کا بچاکھچاگروہ ہے مگر اس فرقہ کے اصل پیروکارتو وہ گروہ ہیں جو اسلام کے نام پرخون خرابہ کرتے ہیں۔وہ قتل وخونریزی میں دریغ نہیں کرتے۔ ان کی ظاہری شکل وصورت دیندارمسلمانوں جیسی ہوتی ہے مگر اسلام کو انھیں سے سب سے زیادہ نقصان پہنچتاہے۔