ملک کدھر جا رہا ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
ملک کدھر جا رہا ہے؟
ملک کدھر جا رہا ہے؟

 


awazthevoice

 پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 ملک کدھر جا رہا ہے یا ہم اسے کہاں لے جا رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں ہے۔ نفرت، حقارت کا جو بازار گرم کیا گیا، جس طرح مسلمانوں کے خلاف بیان بازیاں ہوئیں، حلف دلائے گئے اور اٹھائے گئے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس پر کوئی پردہ پڑا رہے یہ خود نفرت کے بیوپاری بھی نہیں چاہتے۔

وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے دوست اور نامور صحافی قربان علی اور ماہر قانون محترمہ رنجنا پرکاش کا،جناب کپل سبل، دشینت دوبے اور پرشانت بھوشن کا جنہوں نے اس دیش کی سب سے بڑی عدالت میں حقائق کو واضح طور پر پیش کرکے عدالت کو اس کا سخت نوٹس لینے پر آمادہ کیا اور پھر عدالت نے بُراری ہو یا ہری دوار یا ہماچل، ہر واقعے کا سخت نوٹس لیا اور حکومتوں اور نظم و نسق کے ذمہ داروں کی جواب دہی کو یقینی بنایا۔

مولانا سید محمود اسعد مدنی اور مولانا سید ارشد مدنی کی سربراہی والے جمعیۃ علماء کے دونوں دھڑوں نے جس طرح جرأت وہمت کے ساتھ مظلوموں کی داد رسی اور ان کے لئے انصاف کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے کوششیں کیں ہیں وہ انتہائی قابل ستائش ہیں۔ جواں سال مولانا سید محمود اسعد مدنی جس طرح فکری و عملی سطح پر موجودہ حالات کے تحت سب کو جمع کرکے موجودہ حالات میں ایک ایسی بہتر اور ممکن العمل حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جس سے کہ ملک اور ملت دونوں پریشانیوں میں پڑنے سے بچ جائیں وہ بھی انتہائی قابل قدر ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ جماعت اسلامی ہند کے بھی جواں سال امیر جماعت جناب سعادت اللہ حسینی بھی حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں، حق اور انصاف کی عملداری کو ممکن بنانے کے ساتھ ہی اس بات کو سب کو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں کہ ابھی بھی اس ملک کے ہندوؤں کی غالب ترین اکثریت یرقان زدہ ذہنیت کا شکار نہیں ہوئی ہے اور ہمیں ان سے ایک سرگرم رابطہ بنانا چاہیے اور مکالمہ کرنا چاہیے۔

اسی طرح کل ہند جمعیت اہل حدیث کے امیر حضرت مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلی کے نبیرہ مولانا توقیر رضا خاں بھی اپنی جیسی کوششیں کر رہے ہیں اور یہ تو چند سامنے کے نام ہیں ورنہ ملک کے گوشے گوشے میں مسلمان رہنما اور سماجی بنیاد گزار ملک اور مسلمان دونوں کی فکر میں سرگرداں ہیں کہ حالات قابو سے باہر نہ ہو جائیں۔ یہ کیسی بوالعجبی یا ستم ظریفی ہے کہ کرناٹکا میں جہاں حجاب کے نام پر اٹھا ہوا طوفان ابھی تھما بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اب عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ لوگ جو سرکاری اسکولوں میں گیتا پڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں وہ ایک پرائیویٹ عیسائی مشنری اسکول میں بائیبل کی تعلیم دیے جانے پر ہنگامہ کر رہے ہیں۔

ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مذہب مخصوص کی الہامی کتابوں کی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن یہ صرف کسی ایک مخصوص مذہب تک نہیں ہونا چاہیے اور اگر کسی ایک مخصوص مذہب کی کتاب یا اس کے کچھ حصوں کو شامل نصاب کرنا ہے تو پھر اس کے لئے ایک ایسا جامع نصاب تیار کرنا چاہیے جس میں ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں کی تعلیمات شامل ہوں۔

ایک طرف تو آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی پر زور زبردستی کے ساتھ کسی مخصوص مذہب کی کتاب یا تعلیمات کو پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور دوسری طرف آپ سرکاری اسکولوں میں اکیلے گیتا کی تعلیم کو لازمی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ کرناٹکا میں ہی آپ نے مسلمان بچیوں کو صرف اس جرم میں کہ وہ حجاب میں ہیں امتحان دینے کی اجازت نہیں دی اور اس طرح ان کی زندگی کا ایک قیمتی سال برباد کر دیا جب کہ ابھی ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے پیش ہونا ہے اور حجاب کے خلاف سپریم کورٹ نے کوئی حتمی اور آخری فیصلہ نہیں سنایا ہے۔

ایسے وقت میں ان بچیوں کو امتحان نہ دینے دینا کہاں کا انصاف ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب آپ آج نہیں دیں لیکن کل کا مؤرخ آپ کو اس کے لئے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ایک طرف تو آپ لڑکیاں بچاؤ اور لڑکیاں پڑھاؤ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف مسلمان بچیوں کو آپ حصول تعلیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح مسلم دشمنی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ گجرات، مدھیہ پردیش، دہلی اور ان سب سے پہلے یوپی میں بغیر کسی قانونی عمل سے گزرے عدلیہ کو سنوائی کا موقعہ دیے بغیر غریب اور معصوم لوگوں کے گھروں پر، عبادت گاہوں پر، مزاروں پر، مدرسوں پر بلڈوزر چلوا دیں۔

اس میں سب سے شرمناک اور تکلیف دہ تو وہ رویہ ہے جو دہلی میں دیکھنے کو ملا جب دہلی پردیش بی جے پی کے صدر نے شمال مشرقی کارپوریشن کے میئر کو یہ ہدایت دی کہ جہانگیر پوری میں بلڈوزر چلائے جائیں اور اس پر دیکھتے ہی دیکھتے عمل درآمد بھی ہوگیا۔وہ تو سپریم کورٹ کا بھلا ہو کہ اس نے کسی طرح سے مداخلت کرکے اس سلسلے کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ سوال یہ ہے کہ اب عدالتوں کے ججوں کی جگہ حکمراں جماعت کے عہدیدار لیں گے اور ان کے احکامات پر اس طرح کی انتقامی یا انہدامی کارروائیاں ہوں گی۔

کل اگر عدالتوں کے فیصلے کے تحت یہ ثابت ہو جائے کہ جو انہدامی کارروائیاں ہوئی ہیں وہ غلط تھیں تو کیا سرکار اور حکمراں جماعت کے عہدیدار اس کی بھرپائی کریں گے؟ اسی طرح جامعہ اشرفیہ مبارک پور جو علم دین کی اشاعت کا ایک بہت بڑا مرکز ہے اور دنیا میں جس کی ایک پہچان ہے اس کی تین دہائیوں سے زیادہ تعمیر شدہ اساتذہ کی ایک رہائشی کالونی کو دیکھتے ہی دیکھتے بغیر کسی نوٹس، بغیر کسی سنوائی کے منہدم کر دیا گیا اور الزام یہ لگایا گیا کہ یہ تمام تعمیرات سرکاری نالے پر کی گئی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ اترپردیش میں پچھلے تیس سال میں بی جے پی کی کئی سرکاریں رہی ہیں، ان پر اس وقت ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہیں۔

ہم بھی سرکاری یا غیرسرکاری املاک پر ناجائز قبضوں،تصرف اور تعمیر کے خلاف ہیں لیکن پہلے عدالت کو یہ فیصلہ تو سنانے دیجئے کہ ایسا واقعی ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اگر عدلیہ ہر سطح پر آپ کے حق میں فیصلہ دے تو سرکار کو قانونی کارروائی کرنے کا حق ہے لیکن عدالتوں کے فیصلوں سے پہلے خود ہی مدعی، خود ہی گواہ، خود ہی منصف بن جانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی؟

 (مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)