کیفی اعظمی، دیوالی اور قومی یکجہتی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-11-2021
کیفی اعظمی، دیوالی اور قومی یکجہتی
کیفی اعظمی، دیوالی اور قومی یکجہتی

 

 

awaz

ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہندوستان میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ سنیما قوم کی عکاسی کرتا ہے یا قوم سنیما کی عکاسی کرتی ہے، معاملہ خواہ کچھ بھی ہو تاہم جوبھی فلموں اور اس کے نغموں میں دکھایا جاتا ہے، دوہ دراصل ہندوستان کا ایک مائیکروکوسم(microcosm) ہے۔

حالیہ دہائیوں میں ہندوستانی ثقافت اور تہواروں کے دوران بجائے جانے والے نغموں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔ جیسے جیسے دیوالی قریب آرہی ہے۔ کوئی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ ہندوستان کے سب سے مشہور تہواروں میں سے ایک کے لیے کون سا نغمہ منتخب کیا جائے۔

 اگر ہم 1940 اور1950 کی دہائی کے فلموں کی بات کریں تو بڑا دلچسپ رہے گا۔ رتن (1944)، شیش محل (1950)، پیسہ (1957)، خزانچی (1958)، اور پیغام (1959)۔ اس دور کی یہ چند فلمیں ہیں جن میں دیوالی پر مقبول نغمے پیش کیے گئے تھے۔ان نغموں نے پرانے زمانے کی ممبئی فلم انڈسٹری کے ایک اور اہم خصوصیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

دیوالی خالصتاً ہندوں کا تہوار ہے، مگر دیوالی کے نغموں پر ان دنوں ہندو، مسلمان اور سکھوں نے سبھی نے مل کر کام کئے تھے،نغمے لکھے تھے۔

 ان نغموں میں محبت، امید، مایوسی، حب الوطنی اور سماجی عدم مساوات کے جذبات کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی تھی۔ وہیں میوزک کمپوزر، نغمہ نگاروں اور گلوکاروں نے دیوالی کو مختلف سماجی، سیاسی اور ذاتی حقائق کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دیوالی پر ایک گیت میرے پسندیدہ شاعر کیفی اعظمی نے بھی لکھا تھا، جس کو لتا منگیشکر نے گایا ہے اور مدن موہن نے 1962 کی فلم 'حقیقت' کے لیے اسے کمپوز کیا تھا۔ سن 1962 کی ہند-چین جنگ پر مبنی اس فلم میں دیوالی کو اس نغمے کے ذریعے ان ہندوستانی فوجیوں کے گھروں کی منظرکشی کی گئی ہے، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھی۔

کیفی اعظمی کے اس گیت کا ایک شعر یوں ہے:

آئی اب کے سال دیوالی، منھ پر اپنے خون ملے

چاروں طرف ہے گھور اندھیرا، گھر میں کیسے دیپ جلے

کیفی نے ملک (ہندوستان) کو گھر کے برابر قرار دیا۔ گھر جو کہ ہندوستان کا ہے اسے چینی فوجیوں نے گھیر لیا، اس لیے اندھیرا چھا گیا، اس لیے ہم ہندوستانی جشن منانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سب سے پہلے ہمیں دشمن سےاپنے ملک کو چھڑانا ہے۔ ایک اور مقام پرگیت کا یہ مصرعہ دیکھئے۔

راہ میں اُن کی جاو اُجالو، بن میں ​​جن کی شام ڈھلے

دیوالی روشنیوں کا تہوار ہے، لیکن جب ہندوستان پر دشمنوں کی طرف سے حملہ کیا جا رہا تھا، کیفی نے روشنیوں سے کہا کہ وہ ان فوجی کیمپوں کو روشن کریں جو سرحد سے متصل جنگلوں اور پہاڑی علاقوں میں لڑ رہے ہیں۔ جب ہمارے فوجی اندھیرے اور دشوار گزار علاقوں میں لڑ رہے ہوں تو ہمیں روشنی کی ضرورت نہیں ہے۔

چھوڑے چلے وہ گھر میں اماوس، جیوتی لیکر ساتھ چلے

سپاہی قوم کے چراغ ہیں۔ اگرچہ، نغمے کی تصویر کشی میں ایک بیوی کو اپنے شوہر کے لیے گاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو کہ جنگ لڑ رہا ہے۔

قوم کی روشنی، یعنی امن اور آزادی سپاہیوں کے ساتھ تھی۔ وہ اس روشنی کو بچانے کے لیے لڑ رہے تھے، جب کہ ملک کے اندر ہم اپنی افواج کے اس روشنی کو واپس لانے کے منتظر تھے۔

تھپ تھپاکے ٹپکے آنسو، چھلکی خالی تھالی

جانے کیا کیا سمجھتی ہے آنکھوں کی یہ لالی

شور مچا ہے آگ لگی ہے کٹتے ہیں پروت پہ گلے

میں جب بھی انہیں سنتا ہوں تو یہ اشعارمجھے رلا دیتے ہیں۔

ایک خاتون کے ذریعے کیفی نے پوچھا ہے کہ جب ہمارے فوجی پہاڑوں پر اپنی جانیں قربان کر رہے تھے تو ہم دیوالی کیسے منا سکتے ہیں۔ چراغوں کی وہ روشنی میں جس میں ہم اپنے گھروں کو دیکھتے ہیں اوراس بھڑکتی ہوئی آگ کے درمیان ایک تضاد پیدا کیا جس کا ہمارے سپاہیوں کو سامنا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نغمے میں دیوالی پر سوگ کرتے ہوئے شہید فوجی کی بیوی، ایک ماں اور ایک بیٹے کو دکھایا گیا ہے۔

یہ سارے کردار دراصل پوری قوم کی عکاسی کرتے ہیں۔ فوجی شوہر، بیٹے یا باپ ہوسکتےہیں اور ان کے بغیر دیوالی پر ان کے گھروں میں اندھیرا چھایا رہتا ہے۔یقیناً، یہ اکثر گھروں اور ملک کے اندر اندھیرے میں بدل جاتا ہے۔

یہ نغمہ خاص ہے کیونکہ ایک مسلم شاعرنے ہندو تہواروں کے ذریعے قومی جذبات کی عکاسی کی ہے، اس طرح قوم کے تصور کی نمائندگی کی ہے۔ مزید یہ کہ آزادی اور اس کی حفاظت کا خیال ایک فوجی کے گھر پر دیوالی کے استعارے میں سامنے لایا گیا ہے۔