قرآن اور حدیث کا حجاب پرکیا موقف ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
قرآن اور حدیث کا حجاب پرکیا موقف ہے؟
قرآن اور حدیث کا حجاب پرکیا موقف ہے؟

 


awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

اسکول کی بچیوں کے حجاب پہننے کو میڈیا نے پچھلے کچھ دنوں میں غیر ضروری طور پر تنازعہ کا موضوع بنا دیا ہے، میڈیا حجاب کے ان پہلوؤں پر بحث میں اتر آئی ہے جو نہ تو ملک کی سماجی ہم آہنگی کے لئے مفید ہے، نہ دستوری طور پر حاصل فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی سے ہم آہنگ ہے، بلکہ یہ ملک کی بہتر شبیہ کو دنیا میں متاثر کر رہی ہے کیونکہ اس موضوع نے ملکی میڈیا سے باہر نکل کر عالمی میڈیا کو بھی متوجہ کر لیا ہے۔

اس مسئلہ کو مزید بگاڑنے میں بعض ایسے افراد کے انٹرویوز بڑا کردار ادا کر رہے ہیں جو مسئلہ کو غلط تناظر میں پیش کر رہے ہیں، یا پھر حجاب کے تعلق سے قرآن و حدیث کے واضح موقف کو توڑ مروڑ کر بتا رہے ہیں اور عام لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ہم اس مضمون میں حجاب کے تعلق سے قرآن اور حدیث کے موقف کوچند پوائنٹس کے ذریعے، جو اسلامی موقف کو واضح کرتے ہیں، کو پیش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسے اس کی صحیح تصویر میں دیکھنا اور جاننا انتہائی ضروری ہے:

حجاب عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی پردہ کرنا ہے۔ اِس وقت سر کو ڈھانپنے کے لئے استعمال ہونے والے کپڑے کو حجاب کہا جا رہا ہے جبکہ اس لفظ کا اصلی معنی صرف ’’پردہ کرنا‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں ’’حجاب‘‘ کا لفظ ’’پردہ‘‘ اور ’’اوٹ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ قرآن کی آیت ہے کہ اللہ کسی انسان سے بات پردہ یا اوٹ کے پیچھے سے کرتا ہے۔ (شوریٰ، 51:42) سورہ مریم میں ہے کہ حضرت مریمؑ نے لوگوں سے پردہ (حجاب) کر لیا تھا۔ (مریم، 17:19) قیامت کے بارے میں قرآن میں ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان ایک پردہ (حجاب) ڈال دیا جائے گا۔ (اعراف، 46:7).

اسی طرح قرآن میں سات جگہوں پر لفظ ’’حجاب‘‘ کا استعمال پردہ اور اوٹ کے معنی میں ہوا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں یکساں معنی نہیں رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں ہم لفظ ’’عورت‘‘ خاتون کے لئے بولتے ہیں جبکہ عربی زبان میں خاتون کے لئے ’’امرأۃ‘‘ اور ’’نساء‘‘ کے الفاظ ہیں۔

مذہب اسلام نے جسم کے حصوں کو چھپانے اور پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم لازمی ہے نہ کہ اختیاری۔ یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لئے ہے جو کہ بالغ ہونے کے بعد لازمی ہو جاتے ہیں۔ اسے قانونی زبان میں ’ستر کو چھپانا‘ اور اصطلاحی طور پر ’سترِ عورت‘ کہتے ہیں، یعنی ان حصوں کو چھپانا جن کے چھپانے کا حکم ہے۔ جسم کے یہ حصے مرد اور عورت دونوں کے لئے علاحدہ علاحدہ ہیں۔

عورت جب گھر سے باہر نکلے تو اس کے لئے ستر یعنی پردہ کرنے کے جسم کے حصے کیا ہیں؟ اس تعلق سے اسلامی قانون درج ذیل ہے:

گھر کے محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت اپنے چہرہ، سر، گردن، پاؤں، پنڈلی اور ہاتھ وبازو کھلا رکھ سکتی ہے۔

اجنبی مردوں کے سامنے عورت اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ کو کھلا رکھ سکتی ہے۔ یہ رائے امام ابو حنیفہ اور چند علماء کی ہے۔ دوسرے علماء کی رائے ہے کہ سارا جسم پردہ ہے، صرف آنکھ کھلا رکھ سکتی ہے، تاکہ وہ آرام سے چل سکے۔ واضح رہے کہ یہ اختلاف چہرہ کھولنے کے تعلق سے ہے، سر اور بال کے کھولنے کی اجازت کہیں نہیں ہے۔

قرآن نے دو جگہوں پر متعین طور پر اور دوسرے مقامات پر بھی عورتوں کے پردہ کرنے کے عام احکام بیان کئے گئے ہیں۔ ان دو جگہوں کے علاوہ ایک حکم سورہ نور میں اور دوسرا سورہ احزاب میں ہے۔ سورہ نور قرآن کے اٹھارویں پارہ میں ہے، اس میں مرد اور عورت دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عورتوں کو خصوصی طور پر حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت اور زیبائش یعنی میک اپ وغیرہ کو اپنے کن کن رشتہ داروں کے سامنے نمایاں کر سکتی ہیں اور کن کے سامنے نہیں۔ اسی سیاق میں عورتوں سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’’ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن‘‘ (نور: 31) یعنی وہ اپنی اوڑھنی اپنے سینوں پر ڈالیں۔ خمار، دوپٹہ اور اوڑھنی کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’خمر‘ ہے۔ ’جیب‘ سینہ اور گریبان کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’جیوب‘ ہے۔ سورہ احزاب میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’یا ایھا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن‘‘ (احزاب: 59) یعنی اے نبی! آپ کہہ دیجئے اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کو کہ وہ اپنے اوپر اپنے جلباب یعنی چادر ڈال لیں۔

قرآن کی ان دونوں آیتوں کے پیش نظر حکم یہ بنتا ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینت کو چھپائیں، اپنے سینوں پر دوپٹہ ڈالیں اور گھونگھٹ نکال لیں۔ اب اس کے ساتھ حدیث شریف دیکھئے۔

حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ حضور اکرمؐ کے پاس آئیں، ان کے جسم پر کپڑے باریک تھے، تو حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’ اے اسماء : جب بچی بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کے صرف ہاتھ اور چہرہ نظر آنا چاہئے‘‘۔ (ابو داؤد: حدیث نمبر: 4104)۔ پس قرآن کی دونوں آیات اور حدیث کا مجموعی حکم یہ ہے کہ عورتوں کو اجنبی مردوں کے سامنے سر نہیں کھولنا ہے، زینت کا اظہار نہیں کرنا ہے، اور اپنے اوپر ایسا کپڑا ڈالنا ہے جو گھونگھٹ کی طرح ہو اور سینہ کو ڈھانپ لے۔ البتہ چہرہ کو ڈھانپنے یا نا ڈھانپنے کا اختیار ہے۔

اس مقصد اور حکم کی تعمیل جس صورت میں ہو یا جس کپڑے سے ہو وہ مطلوب ہے۔ آج جو کپڑا رائج ہے وہ اسکارف یا حجاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کچھ خواتین چہرہ بھی چھپاتی ہیں، کچھ نہیں چھپاتی ہیں لیکن سر کو وہ سب ہی خواتین چھپاتی ہیں، جو قرآن اور حدیث کے حکم پر عمل کرتی ہیں۔

اس وضاحت کے بعد یہ بات پوری طرح صاف ہو جاتی ہے کہ حجاب یا اسکارف لگانا عین قرآن اور حدیث کا حکم ہے۔ اور اس سے منع کرنا قرآن کے حکم پر عمل کرنے سے روکنا ہے۔ خواتین کے لئے سر ڈھانپنے اور حیاء وشرم کے تحت چہرہ بھی ڈھانپنے کا رواج ہمارے ملک میں ہزاروں برس سے ہے، اور ہر کمیونٹی کے اندر ہے۔ ہمارے ملک میں کئی صوبوں کے اندر ہندو خواتین سر ڈھانپتی ہیں اور گھونگھٹ نکالتی ہیں۔ سکھ خواتین سر ڈھانپتی ہیں، بلکہ گرو دوارہ کے اندر کوئی مرد بھی سر ڈھانپے بغیر نہیں جا سکتا ہے۔

کئی صوبوں اور علاقوں میں عیسائی نن اور خواتین سر کو ڈھانپتی ہیں کیونکہ یہ ان کے مذاہب اور کلچر میں ہے۔ یہی بات مسلم خواتین کے یہاں بھی ہے۔ آج سے نہیں سینکڑوں برسوں سے مسلم خواتین سر کو ڈھانپتی رہی ہیں۔ اسکولوں اور کالجز کے اندر کئی نسلوں نے اسی طرح سر ڈھانپ کر اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔

مسلم خواتین کے لئے سر کا ڈھانپنا اسی طرح مذہبی حصہ ہے جس طرح دوسرے کئی مذاہب کے اندر ہے۔ جہاں تک اسکولوں میں ڈریس کا تعلق ہے تو ڈریس کے رنگ کا ہی اسکارف لگایا جا سکتا ہے، اور مسلم بچیوں کے ڈریس پہن کر اسکارف لگانے سے نہ تو ڈریس کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور نہ اس سے دوسرے کسی فرد کی تکلیف کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ مسئلہ میں کچھ شدت پسندوں نے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور باہمی محبت کے ماحول کو بگاڑنے والوں نے عرصہ سے چلے آ رہے ایک پر سکون رواج کو خواہ مخواہ بد امنی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، اور وہ ملک کے پر امن ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے شر پسندوں پر لگام لگائی جائے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔