عرس مجددالف ثانی : ہندو،مسلم، سکھ، ہندوستانی وپاکستانی سب ایک ہوجاتے ہیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
عرس مجددالف ثانی: ہندو،مسلم، سکھ کے ساتھ ہندوستانی وپاکستانی زائرین کی شرکت
عرس مجددالف ثانی: ہندو،مسلم، سکھ کے ساتھ ہندوستانی وپاکستانی زائرین کی شرکت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

ہرسال اسلامی کلنڈر کے ماہ صفرالمظفرکی ستائیسویں تاریخ کو سرہند(پنجاب) میں عرس کا اہتمام ہوتا ہے۔ ملک وبیرون ملک سے ہزاروں عقیدت مند جمع ہوتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہندواور سکھ برادران بھی شامل ہوتے ہیں اور سرگرم کردار نبھاتے ہیں۔ اس طرح قومی یکجہتی اور بین مذہبی ہم آہنگی کا پیغام یہاں سے دور دور تک پہنچتا ہے۔ یہاں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی قبر ہے۔

مجدد الف ثانی کی درگاہ جہاں ہندو،مسلم اور سکھ کو ایک جگہ جمع کرتی ہے وہیں، ہندوستان اور پاکستان کے زائرین کو بھی ایک نکتہ پر لاکھڑا کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے زائرین ہر سال عرس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس بار بھی پاکستان سے بہت سے عقیدت مند شریک ہوئے۔ آفتاب حسن خان( چارج ڈی افیئرز، پاکستان ہائی کمیشن، نئی دہلی) نے سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے 409 ویں سالانہ عرس مبارک میں شرکت کی اور عوام اور حکومت پاکستان کی جانب سے روایتی چادر پیش کی۔

awaz

چادرپوشی کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر

اس موقع پر پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ درگاہ پہنچنے پر آفتاب خان کا استقبال سجادہ نشین خلیفہ سید محمد صادق رضا، دیگر ٹرسٹیز اور مقامی انتظامیہ کے ارکان نے کیا۔آفتاب حسن خان نے سالانہ عرس کے موقع پر ان کی آمد میں سہولت فراہم کرنے پر مزار پر موجود تمام افراد خصوصاً انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔

اس موقع پر، انہوں نے مذہبی مقامات کے دوروں کے اہم کردار پر بھی روشنی ڈالی، جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان عوام سے عوام کے تبادلے کے تناظر میں، مذہبی مقامات کے دورے پر پاک وہند دو طرفہ پروٹوکول، 1974 کے تحت باقاعدگی سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ واضح ہوکہ اس بار بھی انڈین ہائی کمیشن، برائے پاکستان نے 155 پاکستانی زائرین کو ویزے جاری کیے ہیں۔

شیخ احمد سرہندی کی ولادت 26 مئی1564کو سرہند میں ہوئی تھی جب کہ ان کا انتقال 10 دسمبر–1624کو ہوا۔ شیخ احمد کو عرف عام میں مجدد الف ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتاہے،جس کا مطلب ہے دوسرے ہزار سال میں اسلامی احکام کی تجدید کرنے والا ۔ وہ ایک عظیم اسلامی اسکالر، حنفی فقیہ اور نقشبندی صوفی تھے۔

مجدد صاحب سرہند سے دلّی تشریف لائے،جہاں حضرت مولانا حسن کشمیری سے آپ کی ملاقات ہوئی، جوحضرت خواجہ باقی بااللہ رحمة اللہ علیہ کے مرید تھے۔ آپ دونوں ایک دوسرے کو پہلے ہی سے جانتے تھے اور اکثر ان کی زبان سے خواجہ باقی بااللہ کا ذکر سنا تھا۔ انھوں نے جب بتایا کہ خواجہ صاحب دلّی میں موجود ہیں تو آپ کا جذبہ شوق بڑھ گیا اور ان کے ساتھ ملاقات کو تشریف لے گئے۔

خواجہ صاحب نے دوہفتے ٹھہرنے کو کہا مگر ابھی صرف دو دن ہی ان کے ساتھ بیتے تھے کہ آپ کے دل کی کیفیت بدلنے لگی اور آپ کی درخواست پر خواجہ باقی بااللہ نے آپ کو بیعت کرلیا۔گویا آپ اپنی مرادوں کو پہنچے اور آپ کو جس باطنی کمال تک پہنچنے کی چاہت تھی وہاں تک رسائی ہوگئی۔

حضرت مجدد کو مختلف سلسلوں سے فیضیاب ہونے کا موقع ملاتھا۔ دل کا آئینہ بالکل صاف ستھرا ہوچکا تھا لہٰذا اس میں باطنی فضل وکمال کے بھرنے میں کچھ تاخیر نہیں ہوئی۔ تقریباًڈھائی مہینے تک خواجہ باقی بااللہ کے ساتھ رہے اور جس روحانی عروج کو حاصل کرنا چاہتے تھے، حاصل کیا۔

خواجہ صاحب اگر روحانی علوم میں کمال رکھتے تھے تو مجدد صاحب کو ظاہری علوم میں بلندمقام حاصل تھا۔ اس ملاقات نے دونوں کو ایک دوسرے سے استفادے کا موقع دیا۔ خواجہ صاحب نے اپنے رقعات میں مجدد صاحب کے تعلق سے اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے اور انھوں نے اپنے اس لائق مرید سے بہت سی امیدیں باندھ لی تھیں۔

انھوں نے اپنے ایک رقعے میں تحریر فرمایا ہے کہ: ”سرہند میں بہت علم اور قوی عمل والے ایک شخص رہتے ہیں،ان کا نام شیخ احمد ہے۔کچھ دن فقیر ان کے ساتھ رہا، ان کے اوضاع واطوار سے بہت کچھ عجائبات ظاہر ہو رہے ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ ایسا روشن چراغ ہونگے،جس سے دنیا روشن ہوجائے گی۔ ان کے کمالات کو دیکھ کر اللہ کے فضل سے مجھ کواس کایقین ہے۔ آپ کے برادران اور اقربا بھی نیک اور علماءکی جماعت میں سے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ میری نظر میں وہ سب جواہر عالیہ ہیں، عمدہ صلاحیت کے مالک ہیں۔ شیخ مذکور کی اولاد جو ابھی کم عمر بچے ہیں اسرارِ الٰہی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ وہ مثلِ شجرِ طیبہ کے ہیں،اللہ ان کی اچھی پرورش فرمائے۔“ (رقعاتِ خواجہ باقی بااللہ،رقعہ۵۶)

حضرت خواجہ باقی بااللہ سنٹرل ایشیا کے ماوراءالنہر علاقے سے ہندوستان آئے تھے، حالانکہ آپ کی پیدائش افغانستان کے کابل میں ہوئی تھی۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے پیر ومرشد مخدوم مولاناخواجگی اکمنگی کے حکم سے یہاں سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعت کے لئے تشریف لائے تھے۔

جب مرشد نے آپ کو ہندوستان جانے کا حکم دیا تو پہلے آپ نے استخارہ کیا اور غیبی اشارہ پاکر یہاں آئے۔خواجہ باقی بااللہ نے دلّی میں قلعہ فیروز شاہی میں قیام فرمایا تھا اور آپ سے مجدد صاحب کی تین ملاقاتیں رہیں۔

آپ نے پہلی ملاقات میں مجدد صاحب کو کمال وتکمیل کی بشارت دی، دوسری ملاقات میں اپنے مریدوں کو ان کے حوالے کیا اور تیسری ملاقات میں عنایات کی حد کردی۔

جب آمد کا علم ہواتوان کے استقبال کے لئے قلعے کے گیٹ تک تشریف لے گئے۔ جب مجدد صاحب کی محفل سے اٹھتے تو ان کی طرف پیٹھ نہیں کرتے اور اپنے مریدوں کو منع کردیاتھا کہ ان کے سامنے آپ کی تعظیم کی جائے۔

خواجہ صاحب نے تیسری اور آخری ملاقات کے دوران اپنے شیرخوار بچوں کو بھی اپنے اس لائق وفائق خلیفہ کے حوالے کیا اور اپنی بیویوں پر غائبانہ توجہ رکھنے کو کہا۔

شاید خواجہ باقی بااللہ کو پیشگی احساس ہوچکا تھا کہ ان کے پاس وقت بہت کم بچا ہے۔

اس تیسری ملاقات کے بعد آپ سے پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور عین عالمِ جوانی میں جب کہ عمر چالیس سال تھی، خواجہ صاحب نے انتقال فرمایا، لیکن آپ کے بعد آپ کے ادھورے کام کوپورا کیا حضرت مجدد صاحب نے۔

آپ سے خلقِ خدا فیضیاب ہوئی اور اصلاح قوم کی جو خدمات آپ کے ذریعے ہوئیں وہ احاطہ تحریر سے باہر ہیں۔

سلسلہ نقشبندیہ برصغیر میں مجدد صاحب کے ذریعے ہی پھیلا،حالانکہ آپ کے علاوہ ان کے کچھ دوسرے خلفاءبھی یہاں موجود تھے۔ اس سلسلے کی ابتدا خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق سے مانی جاتی ہے،جنھوں نے بلاواسطہ خود رسول اکرم ﷺ سے اسے حاصل کیا تھا۔

یہ پہلے سنٹرل ایشیا کے بخارا،بدخشاں اور افغانستان کے علاقے میں رائج تھا مگر خواجہ باقی باللہ کے واسطے سے مجدد صاحب تک پہنچا اور ان کے ذریعے پورے برصغیر میں پھیلا۔

حضرت مجددالف ثانی رحمة اللہ علیہ نے اللہ کی مخلوقات کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ خاص طور پر آپ نے اتباعِ سنت کی تعلیم دی اور لوگوں کو ان بدعات وخرافات سے دور رکھنے کی کوشش کی جو عجم میں آکر مسلمانوں کے کردارو عمل کا حصہ بن چکی تھیں۔

اس تحریک میں آپ کو حکومت کی طرف سے بھی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ آپ کی جائداد کو نقصان پہنچایا گیا اور اور آپ کو حکومت نے قید میں ڈال دیا۔

حاسدوں نے کوشش کی کہ آپ کو مغل بادشاہ جہانگیر قتل کرادے مگر بادشاہ نے صرف آپ کو قید کرنے پر اکتفا کیا۔ آپ برسوں گوالیار کے قلعے میں قید رہے یا سرکاری فوج کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پھرتے رہے مگر پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔

تذکرہ نگاروں کے مطابق اس حالت میں بھی آپ نے تبلیغ واصلاح کا کام جاری رکھا اور بے شمارقیدیوں نے آپ کے ذریعے راہ ہدایت پائی۔

تذکرہ نگاروں کے مطابق بادشاہ پر بھی آپ کی تعلیمات کے اثرات پڑے اور آخری ایام میں وہ بھی زیراثر آنے لگاتھا۔ 

مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی کے خطوط کو سلسلہ نقشبندیہ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان میں علم وعرفان کا سمندر موجیں ماررہا ہے۔ یہ سینکڑوں مکتوبات آپ کے افکارونظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

ان خطوط کے مجموعے آپ کی حیات میں ہی شائع ہوچکے تھے اورانھیں آپ کی زندگی میں ہی مقبولیت مل چکی تھی نیزیہ لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ بن چکے تھے۔

مکتوبات مجددالف ثانی جس طرح پہلے مقبول تھے اسی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے اردو تراجم اور تلخیصیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ان خطوط کے علاوہ بھی آپ نے کچھ کتابیں اور رسائل تصنیف فرمائے،جن کے نام ہیں رسالہ تہلیلیہ، اسے رسالہ تحقیق در کلمہ طیبہ بھی کہتے ہیں۔ رسالہ اثباتِ نبوت، اسے رسالہ تحقیقِ نبوت بھی کہتے ہیں۔

ان کے علاوہ رسالہ معارفِ لدنیہ، رسالہ شرح الشرح،رسالہ مبداءومعاد، رسالہ مکاشفاتِ غیبیہ ہیں۔ ان سات رسالوں میں سے بعض عربی میں ہیں اور کچھ فارسی میں۔ لیکن بعض تذکرہ نگاروں نے ان کے علاوہ بھی کچھ رسائل کا ذکرکیا ہے۔