جنگ آزادی میں حصہ لینے والے اردو شعراء

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2021
واللہ کبھی خدمت ِ انگریز نہیں ہوگی
واللہ کبھی خدمت ِ انگریز نہیں ہوگی

 

 

جنھوں نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے

غوث سیوانی،نئی دہلی

سرفروشی کی تمنااب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے جدوجہدآزادی کے دوران اردو کا یہ شعر ہر ہندوستانی کی زبان پر تھا۔ شہروں سے گاؤں تک’انقلاب زندہ آباد‘کا نعرہ گونج رہا تھا۔ تحریکِ آزادی کے دوران اردو کے نعرے اور شعر ہی نہیں سنائی دیتے تھے بلکہ اردو کے شعراء نے باقاعدہ تحریک میں حصہ لیا اور جیل بھی گئے۔ایسے شاعروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

محققین کے مطابق 1857کی پہلی جنگ آزادی میں کم ازکم ساڑھے تین سو شاعروں نے بھی حصہ لیاتھا۔ یہ سلسلہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا۔ہم ذیل میں ایسے صرف چند شاعروں کا ذکر کرنے جارہے ہیں جنھوں نے بہت سرگرمی کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا اور ملک کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی۔

مولانا محمد علی جوہرؔ

مولانا محمد علی جوہر، ایک سیاسی و سماجی رہنما اور جنگ آزادی کے لیڈر کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار، شاعر، صحافی، مقرر اور مؤرخ تھے۔ وہ ہر رنگ میں نمایاں تھے مگر ان کی شخصیت کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ادب کو بھی قومی مقصد میں استعمال کرنے قائل تھے۔ یہی سبب ہے کہ بار بار ان کے قلم کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان کی تحریریں خواہ وہ منثور ہوں یا منظوم، جذبہئ حریت سے لبریز نظر آتی ہیں اور ادبی چاشنی لئے ہوئے ہیں بلکہ ان کی تقریروں میں بھی یہ عناصر پائے جاتے تھے۔ وہ اردو یا انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے ادب کے موتی رولتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر اپنی ذات میں کئی انجمنیں سمیٹے ہوئے تھے۔

ان کی شخصیت ہشت پہلو اور ہمہ جہت تھی اور ہر پہلو پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر انگریزوں کی ملازمت کے خلاف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ہندوستانی، انگریزوں کی ملازمت چھوڑ دیں اور فوج سے الگ ہو جائیں تو برطانوی حکومت کمزور پڑ جائے گی اور خاص طور پر بھارت کے اندر فوج میں بغاوت ہو جائے گی۔ 1921 میں کراچی میں خلافت تحریک کی طرف سے ایک جلسہ منعقد ہوا، جس میں انھوں نے اپنے اس عندیے کا اعلان ایک قرار داد کی صورت میں پیش کیا۔

اس کے بعد فوج میں بغاوت پھیلانے کا ان پر مقدمہ چلا اور دو سال کی سزا ہوئی۔ انھوں نے آشرموں میں بیٹھے سنیاسیوں اور خانقاہوں میں بیٹھے صوفیوں اور عالموں سے مسلسل ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ ملک کو آپ کی ضرورت ہے لہٰذا آپ خود کو گوشہئ تنہائی سے نکالیں اور مادر وطن کے لئے آگے آئیں اور اس کا اثر بھی ہوا کہ بہت سے علماء، صوفیہ اور سادھو وسنیاسی جنگ آزادی میں شریک ہوئے۔

مولانا محمد علی جوہر کی خصوصیت یہ رہی کہ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ اور خلافت تحریک جیسی تین اہم جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی۔ حالانکہ ان کے جیتے جی دو قومی نظریے کی بات نہیں اٹھی تھی اور انھیں لگتا تھا کہ ہندوستان کی سرزمین پر رہنے والے دو مختلف مذاہب کے لوگوں کے بیچ جو اختلافات ہیں وہ معمولی ہیں، جن کا حل وہ آپس میں گفتگو سے نکال سکتے ہیں۔

وہ بس ملک کی آزادی چاہتے تھے اور ایک متحدو سالم ہندوستان چاہتے تھے۔ مولانا محمد علی، کانگریس کے صدر بھی بنے اور ایسے وقت میں بنے جب یہ جماعت کئی قسم کے اندرونی اور بیرونی اختلافات سے دوچار تھی۔ مہاتما گاندھی مانتے تھے کہ محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی نے کانگریس میں نئی روح پھونک دی تھی۔

محمد علی جوہر، علی گڑھ کالج کے پروردہ تھے اور اس کی ترقی میں بھی ان کی حصہ داری تھی مگر انگریزوں کے ساتھ ترکِ تعاون کے جوش میں انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کی تحریک شروع کی جو علی گڑھ سے دہلی تک پہنچی اور آج ایک عظیم تعلیمی ادارے کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔

مولانا محمد علی نے لندن کی گول میز کانفرنس میں اپنی زندگی کی آخری تقریر کی اور حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی موجودگی میں نہایت بے باکی سے گرج کر کہا: ”ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں، ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔

کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا“۔ اس اعلان کے صرف 46 دن بعد 52 سال کی عمر میں ان کا لندن میں ہی 4 جنوری 1931ء کو انتقال ہو گیا اور ان کی وصیت کے مطابق بیت المقدس میں دفن کیا گیا۔

ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔکی موت پر

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

حسرتؔ موہانی

دل کو خیال یارنے مخمورکردیا

ساغر کورنگِ بادہ نے پرنورکردیا

مانوس ہوچلاتھا تسلی سے حال دل

پھر تو نے یاد آکے بدستور کردیا

حسرتؔ، صنف اول کے غزل گو تھے، اگر چہ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگربنیادی طور پر وہ غزل سے ہی جڑے رہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جن شاعروں نے اردوغزل کونئی طاقت وتوانائی بخشی ان میں حسرت کانام سرفہرست ہے۔

وہ منفرد لب ولہجے کے شاعر تھے۔ ان کے کلام میں حسن پرستی کے عناصر کے بھرے پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ خودانتہائی سادگی پسند، درویشانہ صفت کے حامل اور صوفی منش بزرگ تھے۔ ان کا کلام ان کی شخصیت کے بالکل برعکس نظرآتا ہے۔

مولانا حسرت موہانی ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے اگر وہ ایک طرف ملک کو آزاد کرانے کی جدوجہد کررہے تھے تودوسری ملک کے وعام کو بیدارکرنے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ ان کے نظریات کی جھلک ان کی غزلوں میں جابجاملتی ہے۔

روح آزادہے، خیال آزاد

جسم حسرتؔ کی قیدہے بیکار

وہ دوسری جگہ فرماتے ہیں

ہم قول کے صادق ہیں اگرجان بھی جائے

واللہ کبھی خدمت ِ انگریز نہیں ہوگی

حسرتؔ کے کلام میں ان کے سیاسی خیالات کی جھلک ضرور مل جاتی ہے، مگر ادبی اعتبار سے یہ کم درجے کے اشعار ہیں۔ ان کاجہاد آزادی صرف خیالات اورجلسے جلوسوں تک محدود نہیں رہابلکہ وہ عملی طور پر تن من دھن کے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔انھوں نے کانگریس، مسلم لیگ اور جمعیت علماء کی رکنیت حاصل کی اورپھر سب سے الگ بھی ہوگئے۔

انھوں نے مکمل آزادی کاریزولیوشن اس وقت پیش کیا جب اس کاتصور بھی محال تھا۔ اسی کے ساتھے وہ صحافی بھی تھے اور اپنے قلم کو ملک کی آزادی کے لیے وقف کررکھاتھا۔جنگ آزادی میں حصہ لینے کے سبب انہیں متعدد بار جیل جانا پڑا اور قیدبامشقت کاٹنی پڑی، مگر اس کے باوجود ان کے خیالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرتؔ موہانی اپنے اصولوں کے پکے اورانتہائی سادگی پسندتھے۔ وہ کانگریس اور مسلم لیگ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اترپردیش اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئے اورملک کی پارلیمنٹ میں بھی پہنچے، مگر کبھی سرکاری رعایت کوقبول نہیں کیا۔

ممبران پارلیمنٹ کوملنے والی تنخواہ اورالاؤنس کوانھوں نے کبھی نہیں لیا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے وہ دلی آئے تو ایک ٹوٹے ہوئے ٹین کے بکس کے ساتھ آئے۔ جامع مسجد دہلی میں ٹھہرتے اور اپنے ہاتھ سے کچھڑی ابال کر کھاتے۔ اجلاس کے خاتمے پر ریلوے کے تھرڈ کلاس میں سفر کرکے کانپور واپس چلے جاتے۔

اس قسم کی سادگی ساری عمران میں دیکھی گئی۔ حسرت موہانی کی شاعری کا بڑاحصہ جیل کاہے۔ وہ کئی جیلوں میں قیدرہے۔ علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل، نینی سینٹرل جیل، فیض آباد جیل، بردواسینٹرل جیل کے علاوہ موہان اور کٹھور میں بھی ان کی نظربندی رہی۔ اس دوران ملنے والا وقت شاعری میں ہی گزرتاتھا۔

حالانکہ قیدبامشقت کے سبب انہیں ایک ایک من آٹا بھی پیسنا پڑتاتھا۔

حسرت موہانی نے جدوجہدسے بھری ہوئی ایک درویشانہ زندگی گزاری اور13/مئی 1951ء کو اس عالم فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رخصت ہوئے۔

کشمکشہائے الم سے اب یہ حسرتؔ جی میں ہے

چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضاہوجائیے

رگھوپتی سہائے

فراقؔ رگھوپتی سہائے فراقؔ کی ولادت 18/اگست 1896؁ء کو گورگھپور میں ہوئی۔وہ ایک شاعر کے ساتھ ساتھ مجاہد آزادی بھی تھے اور تحریک آزادی میں حصہ لینے کے سبب انھیں متعددبار جیل کی قیدوبند سے بھی واسطہ پڑا۔ فراقؔ گورگھپوری نے جس دور میں شاعری شروع کی اس دور میں اقبالؔ، چکبستؔ، حسرتؔ، فانیؔ، صفیؔ، عزیزؔ اور جگر ؔجیسے اہل فکر وفن کے نغمے فضا میں گونج رہے تھے مگرانھوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی اور ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر کی پہچان بنائی۔

ان کے پاس جہاں ایک طرف غالبؔ، میرؔ، اقبالؔ، حالیؔ، مومنؔ او ر انیسؔ کے افکار و نظریات کی پیروی ملتی ہے وہیں دوسری طرف کپل، رامانج، کالی داس، تلسی، کبیر، نانک، رحیم، سور داس اور وارث شاہ کی صدائے باز گشت بھی سنائی پڑتی ہے۔

انھوں نے جہاں قرآن و بائبل کے اخلاقی نظریات کواپنے کلام میں پیش کیا وہیں وید، اپنشد، گیتا، رامائن اور مہابھارت کے عارفانہ حقائق کو بھی اپنے اشعار میں جگہ دیا۔ ان کی شاعری کا خمیر ہندوستان کی مٹی سے اٹھا ہے جو مختلف رنگا رنگ تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ ہے۔ انھیں پڑھتے وقت قاری، بھارت کی قدیم تہذیبی، سماجی، ادبی، لسانی اور مذہبی روایات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

انھوں نے جدید اردو غزل کو فکری گہرائی، جذبوں کی آنچ، حسن و عشق کے وقار، جمال فطرت کی نظرنگاری، معنویت، اشاریت اور رمزیت کے لازوال رنگوں سے لالہ زار بنا دیا ہے۔

کرم یوگ مہاشکتی کو ہم نے اپنے ساتھ لیا

اس جیون کے شیش ناگ کوان ہاتھوں نے ناتھ لیا

شیو کا وش پان تو سنا ہوگا

میں بھی اے دوست پی گیا آنسو

ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو

زندگی ہے کہ رام کا بن باس

فراقؔ نے جیل میں رہتے ہوئے کئی ادبی مضامین بھی لکھے،اُس کے بعد انھیں لکھنؤ جیل منتقل کردیا گیا۔وہ لگ بھگ ڈیڑھ سال تک قید وبند میں رہے۔فراقؔ ۲۲۹۱ء میں،جواہر لال نہرو کے کہنے پرآل انڈیا کانگریس کمیٹی کے انڈر سکریٹری بنے اور الٰہ آباد میں رہنے لگے۔تب مولانا محمد علی جوہر کانگریس کے صدر تھے اور آزادی کی جدوجہد اپنے شباب پر تھی۔ فراق نے تقریباً ساڑھے چار سال تک انڈر سکریٹری کے طور پر کام کیا۔ اُس کے بعد کرشچین کالج لکھنؤ اور سناتن دھرم کالج الہ آباد میں پڑھانے لگے۔

فراقؔ بعد میں الہ آباد یونیورسیٹی میں انگریزی کے لکچرربنے۔ وہ انگریزی کے استاذ کے طور پر یہاں ایک مدت تک رہے اور1958ء میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پرانھیں گیان پیٹھ، پدم بھوشن اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سمیت کئی اعزازات دیئے گئے۔ فراقؔ گورگھپوری کی وفات ۳/مارچ ۲۸۹۱؁ء کو دہلی میں ہوئی مگر جسدخاکی کو الہ آباد میں سرکاری اعزاز کے ساتھ نذر آتش کیا گیا۔

لیکن اس عظیم شاعر کے ساتھ یہ عجیب ستم ظریفی ہوئی کہ اس کے آخری سفر پر روانگی کے وقت بہت کم لوگ موجود تھے۔ صرف چند سرکاری افسران اور رشتہ داروں کے علاوہ ان کی آخری رسومات کے وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

بیکلؔ اتساہی

فریڈم فائٹر،شاعر،گیت کار پدم شری لودھی محمد شفیع خان بیکلؔ اتساہی(سابق ممبر راجیہ سبھا) ؔ اردو اور ہندی دونوں حلقوں میں برابر پسند کئے جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل،گیت،دوہے، کنڈلکائیں، قطعات، نظم، ہائیکو،  نعت،حمد اور منقبت سبھی صنفیں لکھیں۔انکی تخلیقات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

بیکلؔ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ساتھ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اسی طرح وہ اپنی شاعری میں اسلامی و ہندو دیومالائی دونوں قسم کی روایات کو پیش کرتے ہیں۔ یہ بات ان سے پہلے صرف نظیرؔ اور فراقؔ کے ہاں دیکھی گئی۔

انکی شاعری عام ہندستانی کے دل کی آواز ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے عام لوگ پسند کرتے ہیں،اس میں سوندھی سوندھی ہندستانی مٹی کی خوشبو ہوتی ہے، جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ انھوں نے بڑی تعداد میں دیش بھکتی گیت بھی لکھے اور دیش واسیوں میں حب الوطنی کے جذبات جگانے کی کامیاب کوشش کی۔

بیکلؔ نے آزادی کی لڑائی میں بھی حصہ لیا اور اس جرم میں انھیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ انھوں نے مسٹر جواہر لعل نہرو کے لئے کئی جلسوں کا اہتمام کیا تھا اور ان میں اپنے دیش بھکتی گیت سنا کر جنتا کے دل میں آزادی کی جوالا بھرنے کی کوشش کی تھی۔

وہ آزادی کے بعد پہلے کانگریس اور پھر سوشلسٹ تحریک سے جڑے رہے۔ اس سلسلے میں وہ رام منوہر لوہیا اور آچاریہ نریندر دیو کے ساتھ کئی بار جیل گئے۔ بیکلؔ کی پیدائش یکم جون 1924 کو ہوئی۔ جبکہ ان کا انتقال 2016میں 3دسمبر کو ہوا۔ انکی شاعری کا انداز ذرا دیکھئے:

مندر، مسجد گرجا تیرے، تیرے ہیں گردوارے

پھر تیرے گھر میں یہ کیسے قدم قدم بٹوارے
ایک ہی تیرا رستہ جس میں ملیں حرم اور دیر

کبیرا سب کی مانگے خیر