یونیفارم سول کوڈ: رنگا رنگی یا یک رنگی؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
یونیفارم سول کوڈ: رنگا رنگی یا یک رنگی؟
یونیفارم سول کوڈ: رنگا رنگی یا یک رنگی؟

 


awaz

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا کی تقریباً تمام مذہبی روایات یکجا ہوں، جس کو کثرت میں وحدت کے اپنے کردار پر نازہو، جہاں دستور کے شیڈول8- میں 22 زبانوں کو تسلیم کیا گیا ہو، جہاں کچھ میٖلوں کی دوری پر بانی اور پانی دونوں بدل جاتے ہوں، جہاں نہ جانے کتنے دریا الگ الگ سوتوں سے پھوٹتے ہوں، الگ الگ راستوں سے اپنا سفر طے کرتے ہوئے بحر عرب اور خلیج بنگال میں مل جاتے ہوں اور پھر بحر عرب اور خلیج بنگال مل کر ایک عظیم بحرہند کو وجود میں لاتے ہوں۔ جس طرح ان دریاؤں کے بغیر آپ عظیم بحر ہند کا کوئی تصور نہیں کر سکتے اسی طرح مختلف مذہبی اکائیوں کے بغیر ہندوستان کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔

 

لیکن کچھ دنوں سے اس رنگا رنگی کویک رنگی میں بدلنے کی بار بار آوازیں اٹھ رہی ہیں، کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب ایک ایسی ہی آواز ایک بار پھر ہندوستان میں گونج رہی ہے اور وہ ہے یکساں سول کوڈ کی مانگ اور جو لوگ برسوں سے یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں وہ خود یہ نہیں بتا سکتے کہ یکساں سول کوڈ سے ان کی کیا مراد ہے؟ جس یکساں سول کوڈ کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں اس کا ڈھانچہ کیا ہوگا؟ شکل و صورت کیا ہوگی؟ ہندو سول کوڈ ہو یا دیگر مختلف مذہبی اکائیوں کے پرسنل لاء، ان سب کی جڑیں مذہبی معتقدات میں پیوست ہیں۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی ہندو بیاہ سناتن پرمپرا کے مطابق سات پھیروں کے بغیر ہو سکتا ہے؟ کیا سِکھ گرو گرنتھ صاحب کو ساکشی مانے بغیر ایک دوسرے کو رفیق حیات کے طور پر قبول کر سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا کوئی عیسائی چرچ میں پادری کے ذریعے دلائے گئے حلف کے بغیر میاں بیوی ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح کیا کوئی مسلمان چاہے سنّی ہو یا شیعہ، بغیر قاضی اور مجتہدین کے بغیر رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کامن سول کوڈ کی رٹ کیوں ہے؟

کیا یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ شادیوں کا باضابطہ رجسٹریشن ہو؟ جہاں تک ہمارے علم و اطلاع میں ہے مسلمانوں کے یہاں قاضیِ نکاح باقاعدہ ہر نکاح کا رجسٹر رکھتا ہے اور کوئی مسلمان بھی نکاح کے رجسٹریشن کے خلاف نہیں ہے۔ اکثر جگہوں پر مساجد میں نکاح کا ریکارڈ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ بعض صوبوں میں وقف بورڈ کے ذریعے پورے صوبے میں ہونے والے نکاحوں کا ریکارڈ محفوظ کیا جاتا ہے اور اس کی زندہ مثال ریاست تلنگانہ میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں سینکڑوں برس سے نکاح کا ریکارڈ محفوظ ہے۔

ہندوستان کا دستور ملک کے ہر مذہبی فرقے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے اور یہی اس ملک کے مذہبی تنوع کے لئے قابل عمل بھی ہے اور مفید بھی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ عائلی قوانین کو ہر مذہب نے اپنے مذہب کا حصہ سمجھا ہے اور دستوری آزادی کے تحت وہ اپنے عائلی قوانین کے تحفظ کا یقین رکھتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ اس دستوری آزادی سے محروم کرنے والا قدم ہوگا اور اسے دستور ہند اور مذہبی معتقدات کو ماننے والا کوئی بھی مذہبی فرقہ قبول نہیں کر سکے گا۔ وہ لوگ جو ایک ملک اور ایک قانون کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں عائلی قوانین ہی الگ الگ نہیں ہیں اور ان کا الگ ہونا قطعی غیر فطری بھی نہیں ہے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں اپنے اپنے عائلی قوانین کو نجی زندگی میں ماننے اور نافذ کرنے کا چلن ہے لیکن ریونیو کے الگ الگ قانون صرف ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہر ہندوستانی کو ٹیکس میں یکساں سہولیات نہیں ملتیں لیکن اگر کوئی ہندو اپنے ٹیکس کا ریٹرن بھرتے وقت یہ حلف نامہ دیتا ہے کہ وہ ایک جوائنٹ ہندو فیملی سسٹم کا حصہ ہے تو اس کو ٹیکس کی ادائیگی میں کافی رعائتیں دی جاتی ہیں جب کہ جو شخص ہندو ہوتے ہوئے بھی اس طرح کا حلف نامہ نہیں دیتا ہے وہ ان رعایتوں سے محروم رہتا ہے۔ اور یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کسی غیر ہندو کو چاہے وہ اس بات پر کتنا ہی اصرار کرے کہ وہ بھی ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہے اس کو بھی یہ مراعات نہیں دی جائے گی۔ اب وہ لوگ جو ایک ملک ایک قانون کی بات کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ وہ اس سلسلے میں خاموش کیوں ہیں؟

یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانوں کو قابل قبول نہیںہوگا بلک سچی بات یہ ہے کہ ملک کی ہندو اکثریت بھی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کے پاس تو معمولی تشریحاتی فرق کے ساتھ ایک عائلی قانون ہے جب کہ ہندوؤں کے یہاں عائلی قوانین اور نکاح و طلاق اور میراث کے مسائل میں بے شمار فرق و اختلاف ہے۔ شمال اور جنوب کے اندر بھی اس مسئلے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب ہندوؤں کو ایک رائے پر جمع کر لیا گیا ہے اور وہ سب کسی ایک یونیفارم سول کوڈ پر متفق ہو گئے ہیں؟

اگر ایسا ہے تو وہ کون سا کوڈ ہے یہ معلوم ہونا چاہیے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی کوئی کوشش خود ہندوؤں کے مختلف طبقات کے اندر بے چینی پیدا کرے گی اور وہ اس کی مخالفت پر مجبور ہوں گے۔ یہ ان کے مذہبی مقتدرہ یا دھرم گرو کی حیثیت، مرتبے اور اختیارات کے لئے ایک کھلی چنوتی ہوگی۔

اتراکھنڈ، اترپردیش، ہماچل پردیش اور دیگر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں جس طرح کامن سول کوڈ لانے کی بات ہو رہی ہے، ہم وہاں کے حکمراں طبقے اور جماعت کے رہنماؤں سے یہ کہیں گے کہ وہ پہلے یونیفارم سول کوڈ کا کوئی ماڈل یا خاکہ ہندوستان جیسے مذہبی تکثیریت والے ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کریں اور ایک جمہوری ملک میں اس پر حقیقت پسندی اور منصفانہ طریقے سے غور و خوض کرنے کا موقعہ دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ محض کچھ لوگوں کی جذباتی تسکین اور اقلیتوں کو ڈرانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اوروں کا تو پتا نہیں لیکن ایک عام ہندوستانی کے طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکمراں طبقہ یا جماعت ایسا کوئی کھیل واقعی کھیلتی ہے تو وہ ایک اندھی گلی میں داخل ہونے کے مترادف ہوگا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتاہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)