اردو صحافت کے دو سو سال

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 08-04-2022
اردو صحافت کے دو سو سال
اردو صحافت کے دو سو سال

 


5484

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

اردو، جس کا جنم خانقاہ میں ہوا۔ جو بازار میں پلی، بڑھی اور ایک دن خانقاہوں کے روحانی تصرف اور بازاروں کی عوامی مقبولیت کے سہارے اتنی طاقتور ہو گئی کہ اس نے چھ سو سال سے زیادہ عرصے سے قلعۂ مُعلیٰ میں اپنا دبدبا بنائی ہوئی فارسی زبان کو قلعۂ معلیٰ سے بے دخل کیا اور اردوئے معلی کی صورت میں خود اس کی جگہ متمکن ہو گئی۔

مشہور ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں کے بقول-اردو کی پیدائش ایک ایسا غیرشعوری لسانی سمجھوتہ تھا جو اسلامی، ایرانی اور ہند آریائی زبان کی ایک نمائندہ بولی کے درمیان صدیوں کے تاریخی عمل سے ظہور میں آیا اور جس نے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے جہاں ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی داغ بیل ڈالی اور اپنی لسانی، علمی اور ادبی حیثیت منوائی اور اسی پیش قدمی کا ایک نتیجہ کلکتہ سے 27اگست 1822ء کو اردو کے پہلے باضابطہ اخبار ’’جامِ جہاں نما‘‘ کا پنڈت ہری ہر دتّہ کے ذریعے جاری کرنا تھا اور کم اہمیت کی بات نہیں کہ انگریزی اور بنگالی کے بعد جامِ جہاں نما کی اشاعت کے ساتھ اردو وہ تیسری زبان بن گئی جس میں باقاعدہ ایک اخبار نکلنا شروع ہوا۔

اردو صحافت کے اس آغاز کے ساتھ اردو میں کئی اخبار نکلنے لگے جن میں اکثر بیرونی استعماریت کی صورت میں انگریزوں کے تسلط کے خلاف ملک بھر میں ایک فضا تیار کرنے میں لگ گئے۔ بنگالی زبان کا دائرہ کار چونکہ مشرقی ہندوستان کے بعض علاقوں تک محدود تھا تو دوسری طرف انگریزی استعمار پسندوں کی زبان تھی۔

اس لئے ہندوستان گیر سطح پر یہ اردو ہی تھی جو بیرونی تسلط کے خلاف زورِ قلم دکھا رہی تھی اور وہ رائے عامہ بیدار کر رہی تھی جو 1857ء میں پہلی جنگِ آزادی پر منتج ہوئی۔ اس جنگ آزادی کو جن لوگوں نے اپنے خون سے سرخی عطا کی ان میں دیگر مجاہدوں، علماء، سپاہیوں اور عام شہریوں کے علاوہ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر بھی تھے۔

یہاں اس بات کا ذکر نامناسب نہیں ہوگا کہ ہم پہلی جنگ آزادی میں تختۂ دار پر کھینچے جانے والے اردو صحافی مولوی محمد باقر کا تو تذکرہ کرتے ہیں لیکن ایک اور ایڈیٹر ’’اخبارِ پیامِ آزادی‘‘ مرزا بیدار بخت کو اکثر بھُلا دیتے ہیں جن کو بھی اس پہلی جنگِ آزادی میں حصہ لینے کے لئے لوگوں کو آمادہ کرے اور انگریزوں کی مخالفت میں اپنے قلم سے تیر وتفنگ جیسا کام لینے کی پاداش میں تختہ دار و رسن پرچڑھا دیا گیا۔

جنگِ آزادی کی ناکامی نے اردو صحافت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ اخبارات کی تعداد گھٹ گئی لیکن سلام ہو ان جواں حوصلہ لوگوں کو جنہوں نے اردو صحافت کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا۔ ان میں سرسید، منشی نول کشور، مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی آگے آگے رہے اور انہوں نے اپنی صحافت سے اردو زبان کو نئی سمت اور رفتار عطا کی۔

اردو صحافت کے بغیر ہندوستان کی جنگِ آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اردو صحافت کے اس کارواں کو بیسویں صدی میں مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں نے بھی خوب پروان چڑھایا۔

وہ مہاشے کرشن کا ’’پرتاپ‘‘ ہو یا سوامی شردھا نند کی سرپرستی میں لالہ دیش بندھو گپتا کے ساتھ ’’روزنامہ تیج‘‘ کا اجرا اور پھر آریہ سماج ہی کے زیرِ اثر ’’روزنامہ ملاپ‘‘ کی اشاعت نے ہماری تحریکِ آزادی کو اور زیادہ آگے بڑھایا۔ اس بیچ میں افسوس یہ ہے کہ اردو صحافت کا استعمال ان لوگوں نے بھی کیا جو سماجی ہم آہنگی، فرقے وارانہ اتحاد اور فرقہ پرستی کے حامی نہیں تھے اور اسی لیے آزادی کا سورج جب تقسیم وطن کے ساتھ طلوع ہوا تو اردو صحافت کو ایک بار پھر دھچکا لگا اور تقریباً 70 اخبارات تقسیم کے ساتھ پاکستان چلے گئے۔

بیسویں صدی کے اواخر میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اردو ہندوستانی زبانوں میں انگریزی اور ہندی کے بعد تیسری زبان کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائے ہوئے تھی۔ آج اس کے پڑھنے والے بھلے ہی کم ہو رہے ہوں لیکن آج بھی بلا شبہ اس کی اس حیثیت اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اردو صحافت نے پتھر کے عہد سے ایک دم آفسیٹ کے عہد میں چھلانگ لگائی۔ اس میں ہم ’’انقلاب‘‘ بمبئی کے بانی عبدالحمید انصاری مرحوم اور ’’سیاست‘‘ حیدرآباد کے عابد علی خاں مرحوم کی جدت پسندی کو سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے اردو صحافت کے حوالے سے آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج کو سمجھ لیا تھا اور اس سے نہ صرف اپنے کو ہم آہنگ کیا بلکہ دوسروں کو بھی راستہ دکھایا، آزادی کے بعد وہ تمام لوگ جو پاکستانی پنجاب سے نقل مکانی کرکے ہندوستان آئے تھے اور یا پھر ہندوستانی پنجاب میں پہلے ہی سے رہ رہے تھے وہ بولتے پنجابی تھے لیکن اپنا کاروبار اور دیگر کام کاج اردو ہی میں کرتے تھے۔

انتہا یہ کہ وید، پُران، رامائن اور گیتا اور گرو گرنتھ صاحب کاپاٹھ بھی مذہبی مواقع یا اپنے روز مرّہ میں اردو میں ہی کرتے تھے۔ اس لئے اردو اخبارات جیسے پرتاپ، مِلاپ، تیج، ہند سماچار سب ان کے روزمرہ میں شامل تھے۔

آزادی کے بعد جیسے جیسے پنجابیوں کی وہ نسل ختم ہوتی گئی، اردو صحافت کو بھی بڑا نقصان ہوا۔ آزادی کے بعد تقسیم کے نتیجے میں نفرت، حقارت اور تعصب کی جو فضا مسلمانوں کے خلاف ہندوستان میں دیکھنے کو ملی اس میں اردو صحافت نے وطن دوستی اور انصاف پسندی کو اپنے لئے منتخب کیا اور محمد عثمان فارقلیط نے ’’الجمعیتہ‘‘ مولانا محمد مسلم نے ’’دعوت‘‘ مولانا عبدالوحید صدیقی نے ’’نئی دنیا‘‘ احمد سعید ملیح آبادی نے ’’آزاد ہند‘‘ کلکتہ، سالک لکھنوی نے ’’آبشار‘‘ کلکتہ، وسیم الحق نے ’’اخبار مشرق‘‘ کلکتہ اور دہلی، سعید احمد صاحب ’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی، انصاری گھرانے نے ’’انقلاب‘‘ممبئی، غلام احمد خاں آرزو صاحب نے ’’ہندوستان‘‘ ممبئی،’’سنگم، صدائے عام اور ساتھی‘‘ پٹنہ ’’سیاست‘‘حیدرآباد، ’’رہنمائے دکن‘‘ حیدرآباد، ’’منصف‘‘ حیدرآباد، ’’سالار‘‘ اور ’’پاسبان‘‘ بنگلور، ’’مسلمان‘‘ مدراس، ’’ندیم‘‘ بھوپال، ’’قومی آواز‘‘ اور ’’عزائم‘‘ لکھنؤ اور اسی طرح کشمیر میں شمیم احمد شمیم جیسے لوگوں نے سچ بات کہنے کا حق ادا کر دیا اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح اردو کے ہفت روزہ اخباروں میں ’’آئینہ‘‘ دہلی، ’’ندائے ملت‘‘لکھنؤ، ’’نشمین‘‘ بنگلور، ’’اردو بلٹز‘‘ ممبئی، ’’نئی دنیا‘‘ اور ’’اخبارِ نو‘‘ دہلی وغیرہ نے سچ کے اظہار سے کبھی دامن نہیں چھڑایا۔

اکیسویں صدی میں اردو صحافت نے ایک نیا رنگ اختیار کیا اور سب سے خوشگوار بات یہ ہوئی کہ ہندی اور اردو صحافت کے فاصلے بھی کم ہوئے اور شری سبرتو رائے کے راشٹریہ سہارا اردو کے کثیر الاشاعت ایڈیشن ملک بھر سے نکلنے شروع ہوئے اور ان کی وہ آب و تاب تھی کہ آپ کسی زبان کے بہتر سے بہتر اخبار کے ساتھ اسے اپنے ڈرائنگ روم میں رکھ سکتے تھے۔

پھر جاگرن گروپ نے صرف بمبئی سے نکلنے والے انقلاب کو نہ صرف خریدا بلکہ آج بمبئی کے علاوہ شمالی ہند کے 12 سے زیادہ مقامات سے اس کی اشاعت ہو رہی ہے۔ اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ ایک مہتم بالشان تاریخ ہے اور اگرچہ اس نے مختلف اتار چڑھاو دیکھے ہیں لیکن آج بھی یہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

وقت اور صفحات کی قلت کو دیکھتے ہوئے ہم نے جان بوجھ کر اردو کی ادبی، مذہبی، تفریحی اور کھیل سے متعلق صحافت کا تذکرہ نہیں کیا ورنہ کون نہیں جانتا کہ اردو صحافت نے ہر میدان میں اپنا حق ادا کیا ہے۔ وقت ہوتا تو شمع، بانو، کھلونا، شبستاں، مجرم، کہکشاں، پھلواری، رُوبی، بیسویں صدی، تحریک، شاہراہ، ہماری زبان، رسالہ جامعہ، الہ آباد کے عباس حسینی کے ’’ادارۂ نکہت‘‘ اور ’’نسیم انہونوی‘‘ کا تذکرہ ضرور ہوتا۔

اردو صحافت کے اس سفر میں اپنے حافظے کی کمزوری کی بنا پر ہم سے یقینا کافی بڑے اور اہم نام چھُوٹے بھی ہوں گے لیکن ان لوگوں کو اور ان کی صحافتی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے، خاص طور سے ان کے لئے جو اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھتے ہیں کہ آج سے دو سو سال پہلے اردو کا پہلا اخبار جس نے نکالا وہ ایک بنگالی ہندو تھا اور آج بھی اردو کے جو دو بڑے اخبار ہیں ان کے مالکان بھی ہندو ہیں۔

آج جب اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہو گئے ہیں، ہم پنڈت ہری ہر دتّہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے معصوم مرادآبادی سمیت اردو کے تمام صحافیوں کو جن کا نام کوئی بھی ہو، مذہب کوئی بھی ہو، ذات کوئی بھی ہو، علاقہ کوئی بھی ہو، لیکن اگر وہ اردو کا اخبار کسی صورت بھی نکال رہے ہیں، وہ چاہے سیاسی نوعیت کا ہو یا علمی و تحقیقی یا ادبی اور فلمی، ہم ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اردو والوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ آج کے دن یہ عہد کریں کہ اردو کا ایک اخبار ضرور خریدیں گے اور اپنے بچوں کو بھی تیسری زبان کے طور پر ہی سہی، اردو ضرور پڑھائیں گے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اسی طرح اردو صحافت کے صدیوں کے سفر کی تقریبات کو مناتی رہیں۔

(مضمون نگار جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)