اردو صحافت :آج کے تناظر میں صحافیوں کی ذمہ داری

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ اورآج کے تناظر میں صحافیوں کی ذمہ داری
اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ اورآج کے تناظر میں صحافیوں کی ذمہ داری

 

 

awazthevoice

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

استاد دار العلوم ندوۃالعلماء، لکھنؤ

 27مارچ اردو صحافت کے لیے ایک تاریخی اور یادگار دن ہے۔ آج سے دوسوسال پہلے 27؍مارچ 1822ء کو کلکتہ کی سرزمین سے منشی سداسکھ مرزاپوری نے ’’جامع جہاں نما‘‘ کے نام سے اُردو کا پہلا اخبار نکالاتھا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اُردو زبان کو ہم چارحوالوں سے جانتے ہیں۔ اردوزبان ،اردو ادب، اردوصحافت اور اردو تہذیب۔ کسی بھی زبان کی صحافت کا تعلق اسی زبان سے ہوتا ہے۔ اردوزبان صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ تمام ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ ملک کو آزاد کرانے میں اردو صحافت نے غیر معمولی خدمت انجام دی ہے ۔ شاہد کمال نے کیا ہی خوب کہاہے :

  تاریخ اسے کیسے فراموش کرے گی

وہ جنگ جو اُردو کی صحافت نے لڑی ہے

 ہندوستان میں شہر کلکتہ کو صحافت کی ــ’’جائے پیدائش‘‘ کہاجاتاہے۔ یہی وہ شہر ہے جہاں سے انگریزی،بنگلہ، فارسی اور ہندی صحافت کا آغاز ہوا اور اسے فروغ بھی یہیں سے ملا‘‘۔

ہندوستان میں صحافت کا آغاز انگریزی صحافت سے ہوتاہے ۔19؍جنوری 1780ء؁ کو کلکتہ سے جیمس آگسٹس ہکی نے انگریزی زبان کا ہفت روزہ ہکیز گزٹ یا کلکتہ ایڈورٹائزر شائع کیا۔ اس طرح ہندوستان میں ’’انگریزی زبان‘‘ سے صحافت شروع ہوئی۔ کلکتہ ہی سے راجا رام موہن رائے نے سب سے پہلے بنگلہ زبان میں سمبد-کاومودی(Sambad-Kaumudi) 1821ء؁ کو نکالا۔ اس کو ہندوستانی زبان کا پہلا اخبارا سمجھاجاتاہے، راجارام موہن رائے ہی نے 1822ء؁ کو ’مرآۃ الاخبار‘ فارسی زبان میں نکالا۔ راجا رام موہن رائے ہی کی شخصیت تھی جس نے سب سے پہلے پریس کو سماجی کاموں کے لئے جوڑا، صحافت کوفروغ دینے میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔

اسی وجہ سے ان کو ہندوستانی پریس کا موجد کہاجاتاہے۔ (The Father of the Indian Press)۔کلکتہ ہی سے اردو کا پہلا اخبار’’جام جہاں نما‘‘ 27مارچ 1822ء؁ کو جاری ہوا۔ اس کے مدیرمنشی سداسکھ تھے۔ اسی طرح 30مئی 1822ء؁ کو ہندی کا اخبار اونت مارتنڈ کلکتہ ہی سے شائع ہوا، اس کے ایڈیٹر پنڈت جوگل کشور شکلا تھے۔

 ہندوستان میں عربی صحافت : عربی صحافت کا آغاز لاہور سے ہواتھا۔ عربی کا پہلا جریدہ ’’النفع العظیم لأھل ھذا لاقلیم‘‘ کے نام سے مشہور ادیب وشاعر مولوی مقرب علی لدھیانوی نے 17اکتوبر 1871ء؁ کو نکالاتھا۔

صحافت میں سب سے بڑی چیز دیانت داری، راست بازی، شفافیت(Transparency)اورغیر جانب داری(Neutrality) ہے، ہمارے لئے اشد ضروری ہے کہ ہم صحافت کوکرپشن، بدعنوانی، اسکینڈل اور دیگر خرابیوں سے بچائیں تاکہ صحافت کی اصل روح مجروح نہ ہونے پائے۔ اگر ہم واقعی صحافت کو صحافت کا اصل روپ دیناچاہتے ہیں توہمیں قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیتوں کور ہنما اصول اور معیار (Criteria)بنانا چاہئے۔

ارشاد خداوندی ہے:’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کرآئے تو تحقیق کرلیاکرو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصاں پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کئے پر پشیمان ہو…‘‘(سورۂ الحجرات، 4)۔اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ،تمہیں تو خود اس کا علم ہے ، (البقرہ، 42)…اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ ، جو شہادت چھپاتاہے اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔ اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے…(البقرہ، 283)۔

آج صحافت میں فروخت خبروں(Paid News)کی وبا عام ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں اکثر قومی اور ملی مسائل دبادئیے جاتے ہیں۔ سچی اور حقیقی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیاجاتاہے او رجھوٹی اور بے بنیاد خبروں کو سچائی کا لبادہ پہنا کر پیش کیاجاتاہے، جس کے نتیجہ میں معاشرہ وسماج میں نفرت ، خوف وہراس کا ماحول پیداہوتاہے، اور یہ ظاہر ہے کہ صحافت جب اپنی روح کو کھودیتی ہے ، اپنے معیار سے گرجاتی ہے، تو اسے سچی صحافت نہیں بلکہ اسے زرد صحافت (Yellow Journalism) کہتے ہیں۔ صحافت میں فرقہ پرستی، تعصب، اجارہ داری اور گروہ بندی کو بالکل جگہ نہیں دینی چاہئے۔ کیونکہ یہ سچی صحافت کی روح کے خلاف ہے، نیز جمہوری اقدار کے بھی منافی ہے۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی رقم طراز ہیں کہ’’صحافت اور رائے عامہ کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے ، صحافت سے وابستہ لوگ صحافتی اخلاق وآداب سے واقف نہ ہو ںاور کسی شخص یا جماعت کو بدنام کرنے کے لئے پیشے کا غلط استعمال کریں تو یہ اس کا نقصان دہ پہلو ہے۔ رائے عامہ کو کسی فرد یا جماعت کے خلاف اشتعال دلانے والی صحافت ’’الصحافۃ الصفراء‘‘ (Yellow Journalsim) کہلاتی ہے‘‘۔

حال ہی میں مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ نئی دہلی کے چیئر مین امان اللہ خاں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن کے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا:’’طلباء جب پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت کے عملی میدان میں قدم رکھیں توان کی نگاہوں کے سامنے ایک تعمیری مقصد ہواور ایک واضح نظرئیے کی بنیاد پر ان کی عملی زندگی کا سفر شروع ہو۔

آپ سبھی تعمیری صحافت کے علمبرداربن کر ملک وملت کی خدمت کریںاور اس بے حد مؤثر طاقت کا استعمال لوگوں کے شعور کی بیداری اور ان کی فکری تربیت کے لئے کریں۔ آپ ریٹنگ اور ٹی آرپی کی تاجرانہ سوچ سے بالاتر رہتے ہوئے اپنے ضمیر اور حق کی صد ا بلند کریں۔ یقین کریں سچی اور اصل صحافت اسی کا نام ہے۔ بدقسمتی سے آج میڈیا صرف پیسے کمانے کا ذریعہ بنتاجارہاہے۔ فرقہ پرستی ، مذہبی منافرت، سیاسی وابستگی اور ایک خاص نظرئیے کی اشاعت میں مصروف زیادہ تر میڈیا گھرانے اپنے بنیادی فریضے کو فراموش کرچکے ہیں۔ اس میدان میں آنے والی نئی نسل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اوران کو اس ملک کے سماجی ، تہذیبی، سیاسی، اور اقتصادی تحفظ کی ذمہ داری اداکرنی ہے۔ لہذا ہم تمام طلبہ وطالبات سے درخواست گزار ہیں کہ اپنے ضمیر کی آواز اپنے قلم وزبان کو سچائی کا نمائندہ بنائیں اور کسی بھی طرح کی وابستگی یا منفی مفاد کی گرد سے اسے آلودہ نہ ہونے دیں‘‘۔

صحافت ہمیشہ ایک مشن رہی ہے اور تاقیامت مشن ہی رہے گی۔ اگرچہ اس مادی اور مشینی دورمیں صحافت پیشہ اور تجارت بن گئی ہے لیکن پھر بھی صحافت کی تجارت دوسری تجارتوں سے بہت مختلف ہے، اگرہم واقعی صحافت کو ایک مشن کے طورپر آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں مندرجہ ذیل مایہ ناز اور بے باک صحافیوں کے تذکرہ وسوانح کو بغور پڑھنا ہوگا، ان کی سیرت وسوانح میں ہم اپنے اندر بے لوث جذبہ پیداکرنے کا دائمی ذریعہ (Perennial Source of Inspiration) پائیں گے ، جیسے راجا رام موہن رائے، بال گنگادھر تلک، مولانا محمد باقر( ہندوستان کے سب سے پہلے شہید صحافی) مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری، مولانا حسرت موہانی، مولانا امداد اللہ صابری، مولانا ابو الاعلی مودودی، سرسید احمد خاں، مولانا سعید احمداکبرآبادی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا محمد علی جوہر، مہاتما گاندھی، مولانا ابو الکلام آزاد، جالب دہلوی، رحیم علی الہاشمی، محمد عثمان فارقلیط، مولانا سید سلیمان ندوی،مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی، حیات اللہ انصاری وغیرہ۔ یہ نامور صحافی جن کا تذکرہ ہم نے ابھی کیاہے انہوں نے کسی ادارہ (Institution) میں جرنلزم کا کورس نہیں کیاتھا، بلکہ وہ اپنے شوق اور تجربے کی درسگاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ لگ بھگ بیسویں صدی کے آخری دودہائی سے مختلف اداروں اوراکادمیوں نے جرنلزم کا کورس شروع کیاہے، اور ہنوز باقی ہے۔ اس مناسبت سے مولانا حالیؔ کا یہ شعر بالکل فٹ آتاہے :

کوئی پیشہ نہیں اب معتبر بے تربیت ہرگز

نہ فصادی، نہ جراحی، نہ کحالی، نہ عطاری

موجودہ وقت (Post Truth) کا ہے۔ یعنی حقائق کو چھپانا اور حقیقت حال سے نظر چرانا۔ ایسے دور میں صحافیوں کے فرائض وذمہ داریاں دوبالا ہوجاتی ہیں کہ وہ کیسے حقائق کو دنیا کے سامنے لائیں ۔ بلاشبہ کافی حد تک ملک کے مستقبل کا انحصار صحافت اور صحافیوں کے ہاتھوںمیںہے۔اسی لئے صحافت کو مملکت کے چوتھے ستون (Fourth Estate)کے امتیازی لقب سے موسوم کیاجاتا ہے۔

1973ء؁ کے اردو ایڈیٹر کانفرنس (منعقدہ لکھنؤ) کو خطاب کرتے ہوئے مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ نے کیا خوب کہاہے:

’’اخبارنویس وہ معلم ہے جس کا مدرسہ پورا ملک ہوتاہے اور جس کے تلامذہ میں دہقان ومزدور سے لے کر وزیر اور صدر مملکت تک تمام بڑے اور چھوٹے شریک ہوتے ہیں۔ اخبارنویس وہ مبلغ ہے جس کی دعوت گھرگھر ، دکان دکان اور دفتر دفتر گونجتی ہے۔ اخبار نویس دنیائے سیاست کا حریف ہوتاہے جس کی کسوٹی اصولوں کو پرکھتی اور جس کا ترازو حوادث کو تولتارہتاہے۔ اخبارنویس سیاسی اختلافات سے بھری ہوئی دنیامیں عدالت کی کرسی جماکر بیٹھتاہے اور فریضہ قضا سرانجام دیتاہے۔ یہ ہے صحافت کی اہمیت اوراس اہمیت کے معنی یہ ہیں کہ اگرصحافت حق، عدل، خیر اور فلاح کے لئے کام کرے تو انسانیت کے لئے اس سے مفید طاقت کوئی نہیں ۔ اور اگر صحافت میں بگاڑ آجائے اور وہ کذب ، باطل، شراورفساد کے لئے ہی سرگرم عمل ہوجائے تو پھر نوعِ انسانی کے لئے اس سے زیادہ مہلک کوئی دوسری قوت نہیں‘‘۔