یوغور مسلمانوں پر مظالم میں ترکی بھی شامل ہوگیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2021
ترکی کا اصلی چہرہ سامنے آگیا
ترکی کا اصلی چہرہ سامنے آگیا

 

 

awazurdu

 ایم ودود ساجد 

چین کے شمال مغرب میں واقع خود مختار صوبے سنکیانگ کی مسلم آبادی پر حکومت چین نے پھر مظالم کا نیاسلسلہ شروع کردیا ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ کی مسلم آبادی والے اس صوبے میں چین کی مرکزی حکومت نے کوئی 10لاکھ مسلمانوں کو از سرنو ذہن سازی کیلئے خصوصی طورپرقائم مراکز میں قید کر رکھا ہے۔بظاہر بہت مہذب نام معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کیمپ جیل خانوں سے بھی زیادہ اذیت ناک ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی قیادت کا خواب دیکھنے والے رجب طیب اردوگان کی حکومت میں ان 35ہزار یوغورمسلمانوں پر بھی عتاب آگیا ہے جنہیں مختلف اوقات میں ترکی نے پناہ دیدی تھی۔

چین اس صوبے کو خود مختارصوبہ کہتا ہے لیکن یہاں کی مسلم آبادی کے سارے شہری‘مذہبی اور انسانی اختیارات اس نے چھین رکھے ہیں۔اس قضیہ کا تازہ موضوع بہت ہی تکلیف دہ ہے۔چینی حکام سنکیانگ میں مقیم ان لوگوں پر مظالم ڈھارہے ہیں جن کے اقرباء میں سے کوئی فرد کسی غیر ملکی سرزمین پر رہ کر ’یوغور‘ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔مثال کے طورپر وہ واقعہ پیش کیا جاسکتا ہے جس کی رپورٹنگ ہانگ کانگ میں مقیم نیویارک ٹائمزکے صحافی آسٹن رمزی نے کی ہے۔

شنگھائی اور ٹوکیو یونیورسٹیوں جیسی باوقار اور مشہور یونیورسٹیوں کی تعلیم یافتہ‘ ایگریکلچرل سائنٹسٹ اور بے پناہ خدادادصلاحیتوں کی مالک 30 سالہ ’مہریائی ارکین‘کو چینی حکام نے محض اس لئے سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے کر گرفتار کیا کہ اس کا چچا کسی دوسرے ملک میں رہ کریوغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔

مہریائی پر اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ آخر کار پر اسرار حالات میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ یہ قضیہ اتنا ہی نہیں ہے۔اس سے پہلے چینی حکام اس کے والد کو اٹھاکر لے گئے تھے۔ارکین اس وقت جاپان میں تھی۔اس کے والد کو اٹھانے کا مقصد ارکین کو وطن واپس آنے پر مجبور کرنا تھا۔آخر کار ارکین مجبور ہوکر جاپان سے لوٹ آئی اور پھر اسے بھی اٹھالیا گیا۔چینی حکومت نے ارکین کی موت کی تو تصدیق کی ہے لیکن اس کی موت کا سبب بیماری کو قرار دیاہے۔ ناروے میں مقیم اس کے چچا عبدوویلی ایوپ (عبدالولی ایوب) کہتے ہیں کہ میری بھتیجی کی موت پولیس حراست میں ہوئی ہے۔

ایک خاندان پر ظلم وزیادتی کی یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔مہریائی اور اس کے والد سے پہلے عبدالولی کے دو اور بھائیوں کو بھی چینی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس وقت وہ بھی حراست میں ہیں۔عبدالولی کہتے ہیں کہ میرے بھائیوں اور بھتیجی کا کوئی قصور نہیں ہے۔انہیں صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا کہ میں ناروے میں رہ کر چینی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھارہا تھا۔

خود عبدالولی کو بھی 2013میں گرفتار کیا گیا تھا۔15ماہ کی قیدکے بعد جب انہیں رہا کیا گیا تو وہ ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ یہ محض ایک خاندان کی داستان نہیں ہے۔سنکیانگ میں رہنے والا ہر مسلمان نشانہ پر ہے۔ دسمبر 2020میں ایک امریکی چینی رضاکاراور یوغور مسلمان روشن عباس کے خلاف چینی حکام نے دہشت گردی کا الزام عاید کیا۔عدالت نے اس کی غیر موجودگی میں اسے 20سال کی سزا سنائی۔عدالتیں چینی حکومت کے دباؤ میں ہیں اس لئے مظالم کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

چینی حکام نے امریکہ میں کی گئی روشن عباس کی تقریروں کی وجہ سے اس کی بہن کو اغوا کیااور اس وقت وہ انہی کی گرفت میں ہے۔چینی حکومت چاہتی ہے کہ روشن عباس مجبور ہوکر سنکیانگ واپس آئے اور وہ اسے گرفتار کرلے۔غیر ملکوں میں رہنے والے سینکڑوں لوگ سنکیانگ میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کے تئیں فکر مند ہیں۔بہت سے لوگ دوسرے ملکوں میں چینی حکام کے خلاف بول بھی رہے ہیں تاکہ سنکیانگ میں رہنے والے ان کے رشتہ دار چینی مظالم سے محفوظ رہ سکیں۔اب کئی ملکوں نے چین کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی ہے۔بعض ممالک نے اس پر کچھ پابندیاں بھی عاید کی ہیں۔

یوغور مسلمانوں کے حقوق کی علم بردارتنظیم ’عالمی یوغور کانگریس کے صدر‘ ڈولکن عیسی جرمن میں رہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ”ان کاچھوٹا بھائی سنکیانگ میں جیل میں ہے۔اسے محض اس وجہ سے سزا دی گئی کہ میں جرمن میں رہ کر چینی مظالم کے خلاف آواز اٹھارہا ہوں‘۔‘

واشنگٹن میں قائم وسط ایشیاء کے امور پر نظر رکھنے والی تنظیم ’آکسس‘ اور’یوغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ‘کے ایک مشترکہ سروے کے مطابق کچھ ممالک نے چینی حکومت کی درخواست پر2010سے اب تک 300سے زیادہ یوغورمسلمانوں کو واپس بھیج دیا ہے جنہیں چینی حکام نے جیلوں میں بند کررکھا ہے۔لاکھوں یوغور مسلمان مردوں اور ان کی عورتوں کو جبری مزدور بنادیا گیا ہے۔انہیں کاٹن کے کھیتوں میں کام پر لگایا گیا ہے۔انہیں کام کے عوض کوئی مزدوری نہیں دی جاتی۔بس وہ زندہ ہیں اتنا ہی کافی ہے۔

چینی حکام گرفتار خواتین کی عصمتیں لوٹتے ہیں۔ایک ایک خاتون پرکئی کئی فوجی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ایک ادھیڑ عمر کی خاتون زدوان نے بی بی سی کو بتایا کہ کیمپ میں آدھی رات کے بعد بہت سے پولیس والے کوٹ پینٹ میں ملبوس ہوکر آئے اور روشنی گل کرکے اسے تہہ خانے میں لے گئے۔وہاں اسے تین ماہ تک رکھا اور نہ جانے کتنے چینی درندوں نے اس کی عصمت برباد کی۔زدوان نے بتایا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ گرفتار شدہ کوئی بھی خاتون چینی درندوں سے بچ سکی ہو۔

اب ایک نظر یوغور مسلمانوں کی تاریخی حیثیت پر ڈالتے ہیں۔یہ انسانی معلوم تاریخ کا سب سے پراناسنی مسلم قبیلہ ہے۔8ویں صدی میں یہ قبیلہ منگول میں اس وقت منظر عام پرآیاجب اس نے دریائے ارہون کے کنارے پر اپنی سلطنت قائم کی۔اس مقام کو آج شمال وسطی منگولیا کہا جاتا ہے۔840 عیسوی میں اس سلطنت کو کرغیز نے روند ڈالا۔یوغور یہاں سے ہجرت کرکے جنوب مغرب کی طرف فلک بوس پہاڑوں کے مقام تیان شان میں آباد ہوگئے۔یہی آج چین کا صوبہ سنکیانگ ہے۔یوغور نے 19ویں صدی میں اپنی الگ سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن چین کی کمیونسٹ حکومت نے ان کی کوشش کو کچل ڈالا۔اس وقت سے آج تک یوغور مسلمان چینی مظالم کا شکار ہیں۔

اس وقت یوغور مسلمان Turkic زبان کی مختلف بولیاں بولتے ہیں۔یہ زبا ن ترکی کی زبان سے سب سے زیادہ قریب ہے۔آپ نے مندرجہ بالا سطور میں ایک نام ’عبد وویلی ایوپ‘ پڑھا۔ترک عوام اسلامی ناموں کا تلفظ اسی طرح ادا کرتے ہیں۔یہ دراصل عبدالولی ایوب ہے۔اسی طرح ترک عوام لفظ محمد کو مہمت بولتے ہیں۔ان کے منہ سے لفظ خ (اور لفظ دال)بھی نہیں نکلتا۔وہ خ کی جگہ ح اوردال کی جگہ ذال ادا کرتے ہیں۔جیسے خدمت کو وہ ہذمت کہتے ہیں۔

یوغور مسلمانوں کے مورخین دعوی کرتے ہیں کہ نسلی طورپر وہ ترک ہی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ستم رسیدہ یوغور اگر ترکی جائیں تو یہ عین فطری ہے۔ترکی نے 1952 میں سب سے پہلے یوغور مسلمانوں کو پناہ گزیں کے طورپرقبول کرنا شروع کیا تھا۔واشنگٹن پوسٹ (کمپنی) کی میگزین ’فارن پالیسی‘ (ایف پی) میں امریکہ میں مقیم یوغور بزنس مین ’کزٹ الٹے‘ نے مارچ 2021میں ایک بہت جامع مضمون لکھا۔انہوں نے بتایا کہ 2009میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے سنکیانگ کا دورہ کیا اور چینی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔پوری دنیا کے مسلمانوں اور خاص طورپریوغور مسلمانوں نے اردوگان کی ہمت کی داد دی۔یوغور مسلمانوں کو امید بندھی کہ ایک طرف جہاں ترکی دباؤ ڈال کر چینی حکومت کو مظالم سے باز رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا وہیں ترکی یوغور مسلمانوں کے لئے اپنی سرحدیں کھول دے گا۔

کزٹ الٹے لکھتے ہیں کہ 2009میں یوغور مسلمانوں کے لئے آواز اٹھانے کا جو عمدہ خیال اردوگان کے دل میں آیا تھا وہ 2012میں سب سے خراب خیال بن گیا۔ترکی کے اقتدار پر اپنی جابرانہ گرفت کو مزید مضبوط کرنے کی خواہش نے اردوگان کو چین اور روس کے قریب کردیا۔اس وقت ترکی میں 35ہزار یوغور پناہ گزین موجود ہیں۔ترکی میں ان کا محفوظ جنت کا خواب سراسر جبر کی پالیسی میں تبدیل ہوگیا ہے۔2014کے بعدسے ان پناہ گزینوں کورہائشی پرمٹ نہیں دیا جارہا ہے۔ان کے گھروں پرچھاپے مارے جارہے ہیں۔اور انہیں چین واپس بھیجنے کیلئے چینی حکومت کے ساتھ کو آرڈنیشن کیا جارہا ہے۔انہیں ترکی میں کہیں بھی محنت مزدوری کا کام تک کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔

 ایک یوغور پناہ گزین خاتون زینت گل ترسون کا معاملہ تو بہت ہی عجیب ہے۔خوش قسمتی سے اسے ترکی کی شہریت مل گئی تھی۔لیکن اچانک دو سال پہلے اس کے گھر پر چھاپہ مارکر اسے اور اس کے دوبچوں کو گرفتار کرلیا گیا۔اس پریہ پر اسرار الزام لگایا گیا کہ وہ غیر قانونی طورپرتاجکستان سے ہجرت کرکے آئی تھی۔اسے اس کے دو بچوں سمیت چینی حکام کے حوالہ کردیا گیا۔کزٹ الٹے کے مطابق ترکی میں پناہ گزین یوغور مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں معمول کا حصہ بن گئی ہیں اور وہ خوف ودہشت کے سائے میں جی رہے ہیں۔