ابو علی الحسن بن الہیثم:دنیا کا پہلا سائنسدان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-04-2021
ابو علی الحسن بن الہیثم اسلام کے عہد زریں کے عظیم ترین اسکالرس میں سے تھے
ابو علی الحسن بن الہیثم اسلام کے عہد زریں کے عظیم ترین اسکالرس میں سے تھے

 

 

منجیت ٹھاکر۔ نئی دہلی

دریائے نیل میں سالانہ سیلاب سے والی مصر کافی مضطرب اور پریشان تھے ۔ انہوں نے ایک سائنسدان کو سیلاب کا حل نکالنے کی ہدایت دی ۔ ان دنوں وہ سائنس دان بصرہ میں تھے ۔ ان کا دعوی تھا کہ دریائے نیل کے سیلاب کے پانیوں کو تالابوں اور نہروں کے ذریعے قابو کیا جاسکتا ہے اور موسم گرما میں اس پانی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس مشورے کے ساتھ وہ سائنس دان قاہرہ آیا اور پھر اسے معلوم ہوا کہ ڈیم انجینئرنگ کا اس کا مطالعہ اور ڈیم کے حوالے سے اس کا تخمینہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔ لیکن اپنی غلطی کو مصر کے سفاک حاکم کے سامنے تسلیم کرنا خود اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کے مترادف تھا ، لہذا سائنسدان نے حاکم کے عتاب سے بچنے کے لئے خود کو ایک پاگل کی طرح پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایسے میں خلیفہ نے اسے موت کی سزا تو نہیں دی بلکہ نظربند کر دیا ۔ اس سائنس دان کی دلی مراد بر آئی ۔ تنہائی اور مطالعہ کا وافر موقعہ ۔ دس سال بعد جب مصر کا وہ حاکم فوت ہوا تو وہ سائنسدان وہاں سے چلا گیا۔ وہ بغداد واپس آ گیا اور اس وقت تک وہ ایسے متعدد سائنسی نظریات کا ارتقا کر چکا تھا جن کی وجہ سے وہ دنیا کا پہلا مستند ماہر علم بصریات قرار پایا ۔

اس سائنس دان کا نام ابن ابن الهيثم تھا ، جس نے اپنی دس سال قید کے دوران فزکس اور ریاضی کے سو سے زیادہ قواعد و نظریات مرتب کئے ۔

ہم سب یہی جانتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ سر آئزک نیوٹن ہی دنیا کے سب سے بڑے سائنس دان رہے ہیں ، خاص طور پر فزکس کی دنیا میں ان کی خدمات بے مثال ہیں ۔ سر آئزک نیوٹن کو جدید آپٹکس یا علم بصریات کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ کشش ثقل اور حرکیات کے اپنے قوانین کے علاوہ ، نیوٹن نے لینسوں اور پرزم کے ساتھ حیرت انگیز تجربات کیے۔ ہم سب اپنے اسکول کے دنوں میں ، ان مرتب کئے ہوئے بصریات کے قوائد کا مطالعہ کرتے رہے ہیں - ہم نے ان کے مرتب ہوئے اس قانون کو بھی بڑی دل چسپی کے ساتھ پڑھا کہ جب روشنی کسی پرزم سے گزرتی ہے تو یہ سات رنگوں کے قوس قزح میں تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیوٹن نے اپنے نظریات کے مطالعے کے لئے ایک مسلم سائنس دان کی دریافتوں کا سہارا لیا جو نیوٹن سے سات سو سال قبل پیدا ہوا تھا۔ ویسے خاص طور پر جب سائنس کی تاریخ پر گفتگو کی جاتی ہے تو اس مفروضے کو ہی صحیح قرار دیا جاتا ہے کہ سلطنت روما کے زوال اور جدید یورپ کے نشاۃ ثانیہ کے درمیان جو عرصۂ گزرا ہے اس میں کوئی خاص سائنسی انقلاب نہیں ہوا ۔ لیکن یہ یک طرفہ اور بے تکا مفروضہ ہے- ظاہر ہے اگر چہ کہ یوروپ اس دوران اپنے تاریک دور میں تھا لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ باقی دنیا بھی علم کے ارتقا کے حوالے سے غیر فعال  رہی ہو ۔ در حقیقت ، یورپ کو چھوڑ کر دوسری جگہوں پر بھی سائنسی دریافتیں کی جارہی تھیں۔

اگر جزیرہ نما عرب کی بات کی جائے تو نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان سائنسی دریافتوں کے واقعات کو سنہری دور سمجھا جاسکتا ہے۔ اس عرصے کے دوران ریاضی ، فلکیات ، طب ، طبیعیات ، کیمسٹری اور فلسفہ کے شعبوں میں بہت زیادہ پیشرفت ہوئی۔ اس دور کے بہت سارے اسکالرز اور سائنس دانوں میں ابن الہیثم ایک سر کردہ نام ہے جن کی سائنسی خدمات اہم ترین تھیں ۔

ابو علی الحسن بن الہیثم جو 965 ء میں عراق میں پیدا ہوے تھے , جدید سائنسی تصورات کے بانی سمجھے جاتے ہیں ۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سائنسی تحقیق میں واقعات کی جانچ کرنا ، نئی معلومات حاصل کرنا یا موجودہ معلومات کو درست کرنا یا مشاہدات اور پیمائش کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اس کو دوبارہ ثابت کرنا ، مفروضوں کی تردید یا تصدیق اور ڈیٹا اکٹھا کرنا شامل ہے۔ سائنسی تحقیق کے اس طریقہ کار کو 17 ویں صدی میں فرانسس بیکن اور رینی ڈسکاریا نے مرتب کیا تھا ، لیکن ابن الہیثم ان سے بہت آگے تھے ۔

تجرباتی اعداد و شمار اور ایک پر ان کی تاکید کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابن الہیثم دنیا کے پہلے سچے سائنسدان تھے ۔ ابن الہیثم پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے بتایا کہ ہم چیزوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اس نے اپنے تجربات کے ذریعہ ثابت کیا کہ ایمیشن کا نظریہ (جس میں کہا گیا ہے کہ ہماری نظروں سے روشنی ان چیزوں پر پڑتی ہے جو ہم دیکھتے ہیں) جو افلاطون ، یوکلڈ اور ٹولیمی نے تشکیل دیا تھا ، وہ غلط ہے۔ ابن الہیثم نے ثابت کیا کہ ہم اس لئے دیکھتے ہیں کیونکہ روشنی ہماری آنکھوں کے اندر جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ریاضی کے فارمولوں کا سہارا لیا ۔ اس لئے اسے پہلا نظریاتی ماہر طبیعیات بھی کہا جاتا ہے۔

لیکن ابن الہیثم کی شہرت ان کے پن ہول کیمرے کی دریافت کے لئے زیادہ ہے ، اور اسے روشنی کے انعطاف کے قانون کو دریافت کرنے کا سہرا بھی ملنا چاہئے۔ ابن الہیثم نے روشنی کے تشتت کو بھی دریافت کیا ، کہ روشنی مختلف رنگوں میں کس طرح تقسیم ہوتی ہے۔ ابن الہیثم نے سائے ، قوس قزح اور چاند گرہن کا بھی مطالعہ کیا اور بتایا کہ روشنی کس طرح زمین کے کرۂ ہوا سے ہٹ جاتی ہے۔ ابن الہیثم نے کرۂ ہوا کی بلندی کو قریب قریب درست طریقے سے ناپ لیا اور ان کے مطابق زمین کے کرۂ ہوا کی بلندی تقریبا 100 کلومیٹر ہے۔

کچھ اسکالروں کا کہنا ہے کہ یہ ابن الہیثم ہی تھا جس نے سیاروں کے مدار کی تشریح کی تھی اور اسی بنیاد پر کوپرنیکس ، گیلیلیو ، کیپلر اور نیوٹن نے بہت بعد میں جاکر سیاروں کی حرکیات کا نظریہ دیا تھا۔