مطالعۂ مذاہب موجود دور کی بڑی ضرورت ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-01-2022
مطالعۂ مذاہب موجود دور کی بڑی ضرورت ہے
مطالعۂ مذاہب موجود دور کی بڑی ضرورت ہے

 

 

 ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،نئی دہلی

اپنا دورۂ گجرات ہم نے شمالی گجرات کے دینی مدارس سے شروع کیا۔پہلے ہم دار العلوم چھاپی پہنچے۔یہ مدرسہ 1949 سے قائم ہے۔دورہ تک تعلیم ہوتی ہے۔اس کے بعد تدریب الإفتاء کا اختصاصی شعبہ بھی قائم ہے۔ان دنوں یہاں 500 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔اس کے مہتمم مولانا نظام الدین قاسمی دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔

ہمارے پہنچنے پر مولانا نے مدرسہ کے اساتذہ کو بلالیا۔ان کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوا۔ہم نے اصلاح معاشرہ کے میدان میں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں : بزمِ اطفال ، نظامِ مکاتب ، نظام مساجد ، ازدواجی تفہیمی کورس ، فیملی کونسلنگ سینٹر وغیرہ کا تعارف کرایا۔

مولانا ثناء اللہ نے تفصیل سے بتایا کہ مکاتب کے ذریعے اطراف کی بستیوں کے بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے اور مستورات کی بھی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ہمارا دوسرا پڑاؤ دار العلوم جامعہ نذیریہ تھا ، جو پٹن میں واقع ہے۔ یہ مدرسہ نصف صدی سے دینی تعلیم کی اشاعت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں 600 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

مولانا یٰسین مظاہری اس کے مہتمم ہیں۔ شفیع مدنی کے موصوف سے قریبی تعلقات ہیں۔مولانا کچھ دنوں قبل دہلی آئے تھے تو مرکز جماعت اسلامی ہند بھی تشریف لائے تھے۔ سہ پہر میں ہم مدرسے پہنچے تو مولانا یٰسین صاحب بہت تپاک سے ملے۔ تمام اساتذہ کو جمع کرلیا۔

میں نے ان کے سامنے جماعت کی سرگرمیوں کا تعارف کرایا۔معلوم ہوا کہ دورہ کی تعلیم کے بعد یہاں تعارفِ اسلام کا اختصاصی شعبہ قائم ہے۔اس کے ذمے دار مولانا ارشاد صاحب بھی مجلس میں موجود تھے۔ ان سے اس شعبہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ میں نے عرض کیا کہ جماعت کے شعبۂ دعوت نے دینی مدارس میں عالمیت (4 سال) اور فضیلت (2 سال) کے طلبہ کے ایک نصاب تیار کیا ہے۔اس میں دعوت کی اہمیت اور منہج کے ساتھ دیگر مذاہب کے بارے میں معلومات پر مشتمل کتابیں رکھی گئی ہیں۔ بنیادی کتابوں کے علاوہ ریفرینس بکس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ میں نے وہ فہرست پیش کی۔مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ یہ کتابیں منگوائیں گے اور شعبہ کے طلبہ کو ان سے استفادہ کی سہولت فراہم کریں گے۔

مطالعۂ مذاہب موجود دور کی بڑی ضرورت ہے۔ تکثیری سماج ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے بستے ہیں ، اس میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ درس نظامی کی تعلیم دینے والے ایک مدرسے نے اس کی اہمیت محسوس کی اور اس کے لیے اختصاص کا شعبہ قائم کیا۔ شب میں ہم مدرسہ کنز مرغوب پٹن پہنچے۔ وہاں اس کے ناظم مولانا عمران نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں کے اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔

یہ وہی مدرسہ ہے جو علامہ محمد بن طاہر پٹنی نے قائم کیا تھا۔ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعدکچھ عرصہ قبل اس کا احیا کیا گیا ہے اور اس کے ذریعے علاقے میں دینی تعلیم کی ضرورت پوری کی جا رہی ہے۔