قصہ ایک خواب کا: انڈونیشیاسے ہندوستان تک کیسے جڑے روحانی تار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 30-11-2022
قصہ ایک خواب کا: انڈونیشیاسے ہندوستان تک کیسے جڑے روحانی تار
قصہ ایک خواب کا: انڈونیشیاسے ہندوستان تک کیسے جڑے روحانی تار

 


شاہ عمران حسن، نئی دہلی 

 ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان گذشتہ 29 نومبر 2022 کو قومی راجدھانی دہلی میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس میں انڈونیشیا کے نائب وزیراعظم محمد محفوظ کی قیادت میں علما کے ایک کثیر وفدنے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا افتتاح ہندوستان کے قومی سلامتی کےمشیر اجیت ڈوبھال نےکیا تھا۔ انہوں نے افتتاحی تقریب میں کہا تھا کہ معاشرے کی اصلاح میں علما کا کردار بہت ہے۔

خیال رہے کہ اس موقع پر ہندوستان کے تقریباً تمام مکاتب فکر کے علما کرام اور دانشوروں کے علاوہ دیگر مذاہب کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ہندوستان اور انڈونیشیا کے درمیان یوں تو  تجارتی و سفارتی تعلقات قدیم ہیں، تاہم ان دونوں ممالک کے درمیان ایک روحانی کتاب کا بھی رشتہ ہے۔ اس کا تعلق مولاناوحیدالدین خاں کی مشہورزمانہ کتاب الاسلام یتحدی اور انڈونیشیا کے سابق صدر عبدالرحمٰن وحید سے ہے۔ 

مولاناوحیدالدین خاں نے ماہنامہ الرسالہ اپریل 2000 میں اس خواب اور اپنی کتاب کا ذکر کیا تھا۔ آئیے پوری عبارت پڑھتے ہیں تاکہ حقیقت معلوم ہوسکے۔

میری لڑکی ام السلام نے بہت پہلے ایک خواب دیکھا۔ اس وقت وہ ناندیڑ میں تھی۔ اس نے خط کے ذریعہ ہم کو اس خواب سے مطلع کیا۔ ام السلام نے خواب میں یہ دیکھا کہ راقم الحروف کی کتاب الاسلام بتحدی انڈونیشیا کے صدر نے پڑھی ہے۔ بظاہر یہ خواب بالکل ناقابل قیاس تھا۔

 تاہم اپنی عادت کے مطابق میں نے اس کو اپنی خواب کی ڈائری میں درج کر لیا۔ یہ خواب ام السلام نے جون 1978 میں دیکھا تھا۔ عجیب بات ہے کہ 20 سال سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد یہ خواب حیرت انگیز طور پر بالکل درست ثابت ہوا۔

جنوری 200 کے آخر میں نئی دہلی میں واقع انڈو نیشیا کے سفارت خانہ سے ہمارے دفتر میں ٹیلی فون آیا۔ سفارت خانہ کے ذمہ دار نے بتایا کہ انڈونیشیا کے موجودہ صدر پروفیسر عبد الرحمن وحید فروری میں انڈیا کے دورہ پر آنے والے ہیں۔ نئی دہلی کے قیام کے دوران وہ راقم الحروف سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ وہ باہمی دلچسپی(mutual interest) کے موضوعات پر مجھ سے بات کر سکیں۔ اس ٹیلیفون کے بعد انڈو نیشی سفارت خانہ کے دو ذمہ دار مجھ سے ملے اور طلاقات کا پروگرام طے کیا۔ چنانچہ 9 فروری2000 کی شام کو چار کے راشٹرپتی بھون میں میری ملاقات انڈونیشیا کے صدر پروفیسر عبدالرحمن وحید سے ہوئی۔

 میں نے انڈونیشیا کا سفر نہیں کیا۔ چند سال پہلے تک میں پروفیسر عبد الر حمن وحید کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ عالمی طور پر بھی وہ زیادہ معروف نہ تھے۔ جب وہ صدر بنے تو عرصہ تک میڈیا میں ان کا نام عبدالرحمن واحد آتا رہا۔ ان کا صدر مملکت بنا اس لئے بھی نا قابل قیاس تھا کہ وہ ایک مدت سے اپنی دونوں آنکھوں سے تقریبا معذور ہیں۔ مگر یہ ایک انوکھی بات ہے کہ اس قسم کا ایک آدمی انڈو نیشیا کا صدر بنایا گیا۔

ملاقات کے بعد معلوم ہوا کہ صدر عبد الرحمن وحید نے عربی کی تعلیم جامعہ الازہر قاہرہ میں حاصل کی ہے۔ وہاں انھوں نے میری دوسری کتابوں کے ساتھ الاسلام يتحدی بھی پڑھی جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ وہ انگریزی زبان سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ میری تحریروں کے مطالعہ کے ذریعہ وہ میرے خیالات سے واقف ہوئے۔

ملاقات کے دوران انھوں نے حاضرین میں سے ایک شخص سے میرے بارے میں کہا کہ بابری مسجد کے اشو پر راقم الحروف نے جو موقف اختیار کیا وہ بہت جرات مندانہ موقف تھا جس کی کوئی دوسری مثال موجودہ علماء میں مشکل سے ملے گی۔  ان کی اس بات سے اندازہ ہوا کہ وہ ہندوستان کے انگریزی اخبارات میں چھپنے والے میرے مضامین سے بھی باخبر رہے ہیں۔

 انھوں نے نہ صرف الاسلام يتحدى جیسی کتاب پڑھی ہے بلکہ وہ میری عام تحریروں سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اسی علمی واقفیت کی بنا پر انھیں مجھ سے دلچسپی ہوئی۔ ہندوستان میں سرکاری سفر کے دوران اپنی غیر معمولی مصروفیتوں کے باوجود انھوں نے میرے لئے ملاقات کا وقت پیشگی طور پر طے کر لیا جب کہ میں نے اس کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔

 1978 کے ایک خواب کا نا قابل قیاس طور پر 22 سال بعد پورا ہونا انتہائی عجیب ہے۔ یہ خواب بلا شبہ خدا کی طرف سے تھا۔ کیونکہ خدائے عالم الغیب ہی کو 1978 میں اس واقعہ کی خبر ہو سکتی تھی جو مکمل طور پر مستقبل کی تاریکی میں چھپا ہوا تھا۔ حدیث کے مطابق ، خواب کی تین قسمیں ہیں تخويف الشيطان، (شیطان کا ڈراوا) حديث النفس (دل کی بات) بشرى من الله (اللہ کی طرف سے بشارت)۔

 مذکورہ خواب میں کوئی ڈراوے کی بات نہیں۔ اس لئے وہ تخویف الشیطان نہیں ہو سکتا۔ اس کو حدیث النفس بھی نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ایک چیز جو سرے سے معلوم ہی نہ ہو وہ کسی کے دل کی بات کیسے ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خواب بلا شبہ خدا کی ایک بشارت تھی۔ اس بات کی بشارت کہ یہ مشن عوام و خواص سب کے درمیان پھیلے گا حتی کہ وہ ملکی سرحد سے نکل کر بیرونی ملکوں تک پہنچ جائے گا۔(بشکریہ ماہنامہ الرسالہ اپریل 2000، صفحہ 10-11)