چینی وائرس کی اصلیت اور اہلیت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-06-2021
چینی وائرس اور چین
چینی وائرس اور چین

 

 

awazrdu

 دیپک ووہرا

سن 2020 میں ہماری دنیا بدل گئی جس کے نتیجے میں اب ہم    دو  ادوار سے بخوبی واقف ہو چکے  ہیں پہلا کووڈ سے پہلے والا دور اور دوسرا کووڈ کے بعد والا دور

تقریبا ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کے جرائم کا تاریک چہرہ لگاتار واضح ہو کر دنیا لے سانے آ رہا ہے ۔ ویسے تو دنیا کے علمی حلقوں میں چینی وائرس کے چمگادڑ کے ذریعہ ظہور پذیر ہونے والے مفروضے کا ہی غلبہ ہے (تاہم اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک تحقیقاتی ٹیم (جس کو چین نے ایک سال سے زیادہ عرصہ بعد منظور کیا تھا) جو فروری میں تشکیل دی گئی تھی ، نے کوئی قابل قدر معلومات فراہم نہیں کی ۔

بہرحال ، یہ سوال پوچھنا تو واجب ہے کہ چین کے ینان علاقے کی غاروں کو پرا گندہ کرنے والے چمگادڑ و ں کو ووہان کے بازاروں تک (ایک ہزار کلومیٹر دور) کس نے رسائی دی ؟ امریکی صدر نے ابھی اپنے انٹیلیجنس کے اہلکاروں کو وائرس کی ابتداء کے بارے میں قطعی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

مئی 2021 میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی (غیر چینی) کے مساوی تعداد (صارفین ) پر مشتمل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے چینی وائرس کو انسان ساختہ کہے جانے پر عائد پابندی کو ختم کردیا۔ اسی دوران وال اسٹریٹ جرنل نے امریکی انٹلیجنس رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی میں کم سے کم تین محققین گین آف فنکشن کے نام سے ایک وائرس کے ساتھ مشکوک حرکت کر رہے تھے ( غالب گمان ہے کہ وہ وائرس کو مہلک بنانے میں مصروف تھے ) ان میں سے ایک پراسرار حالت میں بیمار ہوگیا۔ اسے نو مبر 2019 میں بظاھر نمونیا کے عارضے کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا ۔

اس سال کے شروع میں ایک آسٹریلیائی اخبار کی ایک رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سنہ 2015 میں چینی حکام نے جنگ جیتنے کے لئے انسان سے پیدا ہونے والے پیتھوجین پر مبنی ہتھیار پر کام کرنا شروع کیا تاکہ وہ لڑے بغیر ہی اپنے مخالفین کے طبی نظام کو اپاہج بنا کر جنگ جیت لیں ۔ یاد رہے کہ 2015 میں چینی فوج نے امریکی فوج کے ساتھ مساوی تعلقات کا مطالبہ کیا جس کے بعد ناراض باراک اوباما نے امریکہ کو سب سے طاقت ور قوم قرار دے کر چین کے سپر پاور ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی ۔

مدت سن 1945میں عالمی منظر نامے پر ایٹم بم کے ظہور کے بعد بہت سے ممالک نے اس قوت کو حاصل کر لیا جس کی وجہ سے ایٹمی حملے کی صورت میں جوابی حملے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ۔ حیاتیاتی ہتھیار ابھی تک مکمل طور پر گمنام تھے اورحملے کی صورت میں بھی استعمال کرنے والا اس سے انکاری ہوتا ہے ، جس سے اس پر الزام بھی ثابت نہیں ہو پاتا ہے ۔

برطانوی روزنامے ڈیلی میل نے دعوی کیا ہے کہ کووڈ 19 نمونوں میں انوکھے قسم کے فنگر پرنٹس صرف کسی لیبارٹری میں ہونے والی ہیرا پھیری سے ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے ریٹرو انجینئرنگ کے ذریعہ ریکارڈس چھپانے کی کوشش کی تاکہ ایسا لگے کہ یہ قدرتی طور پر چمگادڑوں سے آیا ہے۔

برطانوی سائنس دانوں نے بھی اعتراف کیا کہ لیب میں رساو کے مفروضے میں دم ہے ۔ یہاں تک کہ وائرس کے دیوتا کہے جانے والے ڈاکٹر انتھونی فوکی کو بھی اب کامل یقین نہیں ہے کہ یہ ایک فطری عمل سے پیدہ شدہ وائرس ہے۔ ایک امریکی روزنامہ کے ذریعہ اس حوالے سے ان کے ہزاروں ای میلز کی اشاعت یہ بات واضح ہوتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ چینیوں نے بھی اس دعوے کی تردید نہیں کی ۔ شواہد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ڈبلیو ایچ او کے اسکیمنگ ڈائریکٹر جنرل نے مئی 2021 میں ایک نئی تحقیقات کا مطالبہ کیا کیونکہ، ان کے مطابق ، تمام مفروضے غیر نتیجہ ہیں اور اس میں مزید مطالعے کی ضرورت ہے ۔

چینی عہدے داروں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ چین میں وائرس کی اصل کے حوالے سے تحقیقات اب ختم ہوچکی ہے اور اب اس کی اصل تلاش کرنے کے لئے دوسرے ممالک کو بھی دیکھنا چاہئے حالانکہ کسی قابل اعتماد ماہر نے وائرس کی ابتدا چین کے علاوہ کہیں اور سے ہونے کا کوئی اندازہ ابھی تک ظاہر نہیں کیا ہے ۔

ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلی عہدے دار نے افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی ادارہ چین کو معلومات بانٹنے پر مجبور نہیں کرسکا ۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ آف میلان کی 2020 میں ایک مطالعیاتی رپورٹ (میلان میں لگزری برانڈڈ مصنوعات تیار کرنے کے لئے سویٹ شاپس میں کام کرنے والے کئی ہزار چینی ہیں) نے دعوی کیا ہے کہ ستمبر 2019 سے یہ وائرس اٹلی میں گردش کررہا تھا۔ وائرس کی تخلیق چین سے ہو ہونے کے حوالے سے عالمی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیوس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی سویلین ریسرچ کیساتھ فوجی سرگرمیوں میں بھی ملوث تھا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ چین اس دھوکہ دہی کی قیمت ضرور ادا کرے گا۔ اینڈو کرینولوجی کے ایک مایہ ناز آسٹریلوی پروفیسر کا بھی یہی خیال ہے کہ چین نے دنیا کو دھوکہ دیا۔ جلد ہی شائع ہونے والی ایک تحقیق میں دو یورپی سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس چینی سائنس دانوں نے کچھ امریکی یونیورسٹیوں کے سائنس دانوں کے ساتھ مل کر وائرس کو بنانے والے اوزار کی چوری کی۔

پائلفرینگ کی جدید سائنس سائنسی تحقیق نامعلوم نہیں ہے

ڈچ ایٹمی ٹکنالوجی کو چرانے اور پاکستان کا ایٹم بم بنانے کے لئے یورینیم کی افزودگی کے سامان کو غیر قانونی طریقے سے خریدنے والے پاکستانی سائنس دان اے کیو خان کو کون نہیں جانتا ؟ اے کیو خان نے ایران ، شمالی کوریا ، لیبیا اور چین جیسے مراعات یافتہ صارفین کے ساتھ دنیا کا پہلا ایٹمی والمارٹ قائم کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ چین کے موجودہ پانچ سالہ منصوبے میں تکنیکی خود کفالت پر زور دیا گیا ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے ہائی ٹیک رازوں کو کسی کے ساتھ شیر کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ چند سالوں میں طبی جینومکس (انسانی بیماری کی ابتداء کے بارے میں) تصدیق کر دے گا کہ چینی وائرس قدرتی نہیں تھا۔

سن 1999 کی ہالی ووڈ کی ہارر فلم میں ، ایک پاگل سائنس دان چمگادڑوں کو حتمی شکاری بنانے کے لئے ، اور خاص طور پر انسانوں کو نشانہ بنانے کے لئے ، جینیاتی طور پر ان کی ساخت تبدیل کرتا ہے ۔ ہوشیار مجرم اپنے کام کو انجام دینے کے بعد فنگر پرنٹس ، پیروں کے نشانات اور خون کے داغوں کو ختم کر دیتا ہے۔ چین کا فلسفہ ہے کہ جب اس کا کسی تکلیف دہ حقیقت سے سامنا ہوتا ہے تو اسے جھوٹ کی یلغار سے ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

لیکن اس بار ثبوت اتنے مضبوط ہیں کہ اس کے فرار ہونے کا امکان دور دور تک نہیں ہے۔ چین کو سزا دینے کی مانگ کرنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

چینی وسوسے کسی زمانے میں مقبول کھیل ہوتے تھے۔ لوگوں کی ایک لمبی لائن کے ذریعے ایک پیغام جاری کیا جاتا تھا اور دوسرے سرے پر دل چسپ ہو کر یہ کسی نی صورت میں سامنے آتا تھا ، کیوں کہ وقت اور فاصلے کے ساتھ حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔ سینئر چینی قیادت کے ذہنوں میں اس وائرس کی ابتدا اور ہلاکت خیزی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے ، لہذا ایسی صورت میں جھوٹ بولنا ان کے لئے ضروری بن چکا تھا ۔ چین کے سپریم لیڈر کو 7 جنوری 2020 تک اس کی ہلاکت خیزی کا احساس ہو چکا تھا جس کے بعد اس نے ذاتی طور پر اس سے نمٹنے کا ذمہ اٹھایا - وہ شخص اس وباء کی ابتدا کے بارے میں کافی کچھ جانتا تھا اسی لئے اس نے اسے صحت کے حکام پر چھوڑنے کے بجائے ووہان مارکیٹ کو اپنی نگرانی میں کئی بار بند کرایا ۔

دو ہفتوں کے بعد اس نے چین میں وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے اس نے گیارہ ملین افراد کو لاک ڈاؤن کے اندر بند کردیا لیکن نئے سال کے لئے گھر واپس آنے والے ہزاروں چینی تارکین وطن کو واپس جانے کا حکم دے دیا۔

چین میں ہونے والی اس سرگرمی کی قیمت بعد میں پوری دنیا ادا کرتی رہی ۔ چین کے بھیڑیا جنگجوؤں نے اپنے حاکم کی ہدایات پر تیزی سے بڑے پیمانے پر جھوٹی معلومات کی نشر و اشاعت کا آغاز کیا اور یہ یقینی بنایا کہ حقیقت کبھی بھی سامنے نہ آے ۔ پہلے تو خود چینی میڈیا نے ہی اسے ووہن وائرس قرار دیا اور پھر انتظامیہ کے حکم پر غیر ملکی تارکین وطن پر اس وائرس کو چین میں لانے کا الزام لگایا گیا ۔ جب دباؤ بڑھنے لگا تو چین کے قومی سلامتی کی تعلیم کے دن 15 اپریل 2021 کو چین کا بایوسیکیوریٹی قانون لاگو کیا گیا ۔

اس قانون کے تحت لیب کے جانوروں کو بازاروں میں فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ چین میں خبریں اور سچائ دونوں پر ہی کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری ہے ۔

بعد میں چینی حکام یہ دعوی کرنے لگے کہ یہ وائرس چین میں پایا تو گیا لیکن پیدا نہیں ہوا ہے ۔ وبائی مر ض کی روک تھام کے لئے وائرس کی ابتدا کے حوالے سے تحقیق کی اجازت دینے کے بجائے، چین نے اس بات پر توجہ دی کہ الزام کس پر عائد کیا جائے ۔ پہلے یہ خیال کیا گیا کہ یہ جانوروں سے پھیلتا ہے لہذا جانوروں کے قریب نہ جانے سے منع کیا گیا ۔ پھر یہ انسانی رابطے سے پھیلنے لگا لہذا ماسک لازمی ہوگیا۔ اب ہمارے پاس ویتنامی رپورٹ وائرس بھی آگیی ہے جس میں وائرس کے تبدیل شدہ ورژن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ہوا سے پھیلتا ہے۔ اب کیا ہم سانس لینا بھی بند کر دیں ؟

اکتوبر 2020 میں ، ڈبلیو ایچ او کی ایمرجنسیز کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ شاید دنیا میں ہر دس میں سے ایک شخص کو کورونا انفکشن ہوا ہو ، لہذا دنیا ایک مشکل دور سے گزرنے جا رہی ہے ۔ ان کا خدشہ حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہوا ۔

. اب اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ جیسے ہی چین نے جھوٹ بولا لوگوں کی موت ہونا شروع ہو گئی ۔ چینی وائرس کے طویل مدتی اثرات پہلے لگاے گیۓ اندازے سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں - کورونا مریضوں میں نفسیات ، قلبی صدمے ، بے خوابی ، گردوں اور جگر کی بیماری ، ریڑھ کی ہڈی اور بلاری کی بیماریوں کے لگنے ، فالج ، دائمی تھکاوٹ ، اور سابق کورونا وائرس مریضوں میں نقل و حرکت کے امور جیسے مسایل کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ امریکہ کا ایک حالیہ مطالعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ 4/5 کورونا مریضوں نے دماغ میں ہونے والے ردوبدل کو محسوس کیا۔

موجودہ معاملے میں چین کی معروف وائرسولوجسٹ (امریکہ میں تربیت یافتہ) نے ووہان لیب میں انسانوں کے لئے بےضرر کورونآ وائرس تخلیق کرنے کا کام سونپا گیا ہے ۔

اس کے ریکارڈ سیل کردیئے گئے ہیں

سنہ 2019 کے آخر میں مقامی کمیونسٹ پارٹی اور پولیس نے اس بیماری کے انتظام کو صرف ان ہی طریقوں سے سنبھالا جس کے بارے میں وہ جانتےتھے ۔ اگر یہ وائرس خود ساختہ ثابت ہوا تو چین پر انسانیت کے خلاف جرائم کی فرد جرم عائد کی سکتی ہے۔ اولین "بین الاقوامی" جنگی جرائم کی عدالت ، 1474 میں ہولی رومن سامراج کے دور میں بنائی گیئی تھی جس میں قیدیوں کے قتل کے مجرم کا سر کاٹ دیا گیا تھا ۔

اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد متعدد نازیوں (نیورمبرگ ٹرائلز) اور جاپانی (ٹوکیو ٹرائلز) کو پھانسی دی گئی۔ سابق یوگوسلاویا 1993 (نیورمبرگ ٹرائلز کے بعد پہلا) اور روانڈا 1994 کے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل (100 دن میں 10 لاکھ توتسی کے قتل کے بعد) انسانیت کے خلاف جرم کی سزا دینے والی حالیہ مثالیں ہیں۔

کمبوڈیا میں 2003 میں عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ خوفناک خیمر روج قائدین کو ایک تہائی آبادی کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکے ۔ امریکہ میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف کئی انفرادی اور طبقاتی ایکشن سوٹ دائر کیے گئے ہیں۔

چین کے خلاف عالمی رد عمل واضح ہے۔ عالمی غصہ اور چینی بد نیتی لازم ملزوم ہیں۔ مغربی شہروں میں چینی نظر آنے والے افراد کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ پچھلے سال نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے چینی شباہت والے افسران کو گشت کی ڈیوٹی سے دستبردار کردیا تاکہ ایسا نہ ہو کہ حیرت زدہ امریکی ان پر حملہ کر دیں ۔ کسی ملک کے اخلاقی تانے بانے کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں اس کے ریکارڈ کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان جب 1971 میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا تھا چین نسل کشی کی حمایت کر رہا تھا ۔

سن 1975-1979ء تک بدنام زمانہ پول پوٹ کی سربراہی میں کمر روج نے 20 لاکھ کمبوڈین کو (آبادی کا ایک تہائی) قتل کیا جبکہ دنیا سو تی رہی ۔ اس کا بنیادی فائدہ اٹھانے والا؟ چین۔

سن 1993 میں روانڈا میں دن میں 10 لاکھ کو ذبح کیا گیا۔ 600 ٹن ہتھیار چین سے آئے تھے۔

بوسنیا کی جنگ 1992-1995 کے دوران سرب جنرل رتکو ملڈک ، جس نے بوسنیا کے مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا (نسل کشی کے الزام میں اس کی عمر قید ابھی برقرار ہے) کو چین سے اسلحہ حاصل ہوا۔

سن 1990 اور 2000 کی دہائی میں سوڈان نے چین کے فراہم کردہ اسلحے کے ذریعہ قتل عام کیا ۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن سری لنکا سے 2009 کے جنگ کے آخری سال میں تاملوں کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے۔ کولمبو نے اس کے لئے چین سے اسلحہ استعمال کیا۔

جب کسی فرد یا ادارے یا قوم کے پاس کچھ چھپانے کے لئے ہوتا ہے تو وہ سچائی سامنے آنے پر بہت جارحانہ ہوجا تا ہے۔ 2020 کے اوائل میں جب آسٹریلیا نے وائرس کی ابتدا کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تو مشتعل چین نے آسٹریلیا سے اپنی درآمدات تیزی سے کم کر دیں اور اس کے سفارت کاروں کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایک نے آسٹریلیا کو ایشیاء کا سفید کوڑا کرکٹ کہا ، دوسرے نے اسے چیونگم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ چین کے بوٹ میں پھنس گیا ہے ۔

یکم جون 2021 کو اس نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر الزام لگایا کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں "غیر مستحکم سرگرمیوں" میں ملوث ہیں ۔ گھبرائے ہوئے چین نے اب اپنے عہدیداروں کو چین کا "قابل اعتماد ، پیار کرنے والا اور قابل احترام" امیج دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ چین جب جب دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اس کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچتا ہے۔

مئی 2021 میں ایشیاء کے لئے اعلی امریکی عہدیدار نے کہا کہ چین کے ساتھ تعاون کا دور ختم ہوچکا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اب چین سے معاوضے کے مطالبے بڑھ رہے ہیں جس میں 20 ٹریلین امریکی ڈالر تک کے اعداد و شمار بیان کیے جارہے ہیں۔ جارحیت پسندوں کے لئے تعزیرات کی متدد مثالیں ماضی میں موجود ہیں۔

روم نے تیسری صدی قبل مسیح کی پہلی اور دوسری پونک وار کے بعد کارتھیج پر بڑے معاوضے لگائے۔ سن 1815 میں پیرس کے معاہدے کے تحت ، جس نے نیپولین کی جنگوں کو ختم کیا ، فرانس کو 700 ملین فرانک ادا کرنے کا حکم دیا گیا ، جو جی ڈی پی کے تناسب میں اب تک کا سب سے مہنگا جنگی معاوضہ ہے۔ عالمی جنگوں کے بعد جرمنی اور دیگر ممالک کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ کویت پر حملے کے لئے عراق کو 350 بلین امریکی ڈالر کا چونا لگا ۔

چونکہ چین پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور دنیا جاننا چاہتی ہے کہ ووہان میں کیا ہورہا ہے ، چین کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو پوری دنیا میں ان کے 200 سے زیادہ بائیو لیبز میں وائرس کی ابتدا کے مطالعہ کے لئے مدعو کرنا چاہئے۔

پھر بھی وائرس اس سیارے پر حکمرانی کے اپنے فریب کے ساتھ ابھی بھی قائم ہے ۔