ملک کی آزادی اور خواندگی میں مدارس کا حصّہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-04-2021
دارالعلوم دیو بند
دارالعلوم دیو بند

 

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع  

انگریزوں نے 19ویں صدی میں صرف سیاسی اقتدار کا تختہ پلٹ نہیں کیا بلکہ انہوں نے طریقہئ تعلیم، طریقہئ علاج اور انتظامی ڈھانچے سب کو یکسرتباہ و برباد کردیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں کو ہر اعتبار سے اپنے رنگ میں رنگ دیا جائے اور اپنا تابع مہمل بنا لیا جائے۔

ایسے وقت میں ہمارے علماء دین، مفتیانِ شرع متین نے جب پرانے نظام کی یہ پامالی دیکھی تو انہوں نے سوچا کہ اگر ہم سیاسی نظام کو نہیں بچا سکتے تو کم سے کم اپنے دین و شریعت کو تو بچا لیں اور اسی لیے 30مئی 1866کو دیوبند کے قصبے کی چھتے والی مسجد میں انار کے درخت کے نیچے ایک طالب علم اور ایک استاد سے اس سعی محمود کا آغاز کیا جس میں استاد ملّا محمود تھے تو طالب علم محمود حسن اور آگے چل کر یہی ادارہ ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کی حیثیت سے پہچانا گیا اور اس کا پہلا طالب علم محمود حسن ہندوستان کی تاریخ آزادی میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کہلایا۔

یہ وہ شیخ الہند تھے جو تحریک ریشمی رومال کے بانی اور سربراہ بھی تھے، انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے ہمہ جہت سرگرم بھی تھے، جو دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس بھی تھے اور حضرت مولانا امداداللہ مہاجرِ مکی کے خلیفہ اور جانشین بھی تھے۔ جنہوں نے انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے تُرکوں سے اشتراک کی کوشش بھی کی اور جنہیں انگریزوں نے ان کے شاگرد، نائب، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سمیت کئی سال مالٹا میں قید رکھا اور تقریباً جب وہ موت کے آغوش میں آ لگے تھے تو انہیں بہ مشکل رہا کیا۔ شیخ الہند کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ 29اکتوبر 1920 کو بسترِ مرگ پر دیوبند سے علی گڑھ آئے اور وہاں پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد ڈالی۔ یہ شیخ الہند ہی تھے جن کی دعاؤں، مہاتما گاندھی کے آشیرواد، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے جذبہئ صدق وصفا، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار احمد کی ایثار پیشگی، اے ایم خواجہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی قربانیوں کے نتیجے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ وجود میں آئی۔

دارالعلوم دیوبند کا قیام محض ایک مدرسے کا قیام نہ تھا بلکہ اس کے بانیوں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی، امامِ ربّانی مولانا رشید احمد گنگوہی نے سنگ و خشت سے کسی جہانِ علم کو پیدا نہیں کیا تھا بلکہ اس مدرسے سے جڑے ہوئے ہر جوانِ رعنا کے دل ودماغ میں اس جذبے کو جاگزیں کر دیا تھا کہ ہمیں اس مدرسے کو دین و شریعت کے محافظ کے طور پر ہی نہیں آگے بڑھانا ہے بلکہ افکارِ تازہ اور آزادیِ فکر و عمل کی اس بہتی دھاراؤں میں بدل دینا ہے کہ سامراجی نظام اور بساطی فکر اپنا وجود کھو دے۔ ہندوستان میں یہی وہ سوچ تھی جس کے نتیجے میں 1857کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں گاؤں، قصبے قصبے، قریہ قریہ، شہر شہر میں مکاتیب و مدارس کی علم و عرفان کی وہ کشتِ جاں فزاں لہلہانے لگی جس کا نام کبھی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، باقیاۃ الصالحات ویلّور، مدرسہ امینیہ دہلی، مدرسہ فتح پوری دہلی کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ ہمارے اکابر علماء نے ملک کی آزادی کے لیے صرف مدرسوں کا قیام ہی نہیں کیا بلکہ 1919 میں جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی تو کیرالہ میں سمستھ جمعیۃ العلماء کی داغ بیل ڈالی۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے اور اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب انگریز اپنے نظامِ حکومت کے استحکام کے لیے، اپنے مطلوبہ اور پسندیدہ نظام تعلیم کو مضبوط کر رہے تھے اور ایک نئے اشرافیہ کو جنم دے کر پروان چڑھا رہے تھے، ہمارے ان بوریا نشین علماء نے سماج کے ان لوگوں کو خواندہ بنانے، آگے بڑھانے اور تعلیم دینے کے لیے کوششیں کیں جن کے پاس نہ حصولِ تعلیم کے مواقع تھے، نصاب کی کتابیں تھیں، سر چھپانے کو چھت تھی اور تَن ڈھانپنے کو کپڑے تھے۔ انہوں نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنی کمیونٹی کی دینی، مذہبی رہنمائی کر سکیں اور وہ بھی بغیر ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ سے بے نیاز ہوکر۔ جو محلے کی عطا کردہ امداد پر ہی منحصر کیوں نہ ہوں لیکن ان کے بچوں کی بہتر مستقبل کے لیے دنیاوی اجر اور اخروی ثواب کے لیے پابند وفا رہیں۔

یاد رہے کہ 1950یمیں سرکار نے دستورِ ہند کے نفاذ کے وقت اس ملک کے رہنے والوں سے وعدہ کیا تھا کہ 6سے 14سال کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی لیکن یہ 2009 میں چھ دہائیوں کے بعد ہی جاکر ہی ممکن ہو سکا۔ اس بیچ میں ایک کمزور،غیر تعلیم یافتہ اقلیت کو اگر کسی نے کسی حد تک خواندہ بنایا تو یہ اربابِ مدارس ہی تھے۔ اگر اردو آج خواندگی کی زبان بنی ہوئی ہے، اگر اس کے پڑھنے والے موجود ہیں تو یہ مدرسوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے جہاں اردو نصاب کا حصہ بہرحال نہ ہو لیکن ذریعہ تعلیم ضرور ہے۔

آج بار بار مدرسوں کی جدید کاری کی بات کی جاتی ہے اس سے ہمیں بھی کوئی انکار نہیں۔خوشی کی بات ہے کہ مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت میں ان کی جمعیۃ علماء ہند نیشنل اوپن اسکولنگ کے ذریعے ایک نیا انقلابی اور تاریخی قدم اٹھا چکی ہے جس میں مدارس کے بچوں کے ایک ہاتھ میں جامِ شریعت ہوگا تو دوسرے میں سندانِ عشق۔ عام زبان میں کہیں تو ایک ہاتھ میں قرآنِ کریم ہوگا تو دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کیوں کہ یہ ہمارے مدارس ہی تھے جو کل تک شمولیت پسند تھے اور جن کے کلاس روم سے کل تک ایک ہی وقت میں امامِ ربانی مجدد الف ثانی جیسا صوفی، احمد لاہوری جیسا تاج محل کا معمار، اور سعد اللہ جیسا عظیم مدبر نکلتا تھا۔ آج بھی وقت کی یہی پکار ہے کہ: کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)