حرفِ حق،ہندوستان اور مسلمان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-03-2021
ہندوستان اور مسلمان
ہندوستان اور مسلمان

 

 

 aa

 پروفیسر اختر الواسع / نئی دہلی

ہندوستان پرمسلمانوں نے کئی صدیاں حکومت کی۔ اس دوران اپنی بھرپور صلاحیت کا مظاہر کرتے ہوئے اس ملک کی ترقی اور ناموری میں گراں قدر رول انجام دیا۔ انہوں نے توسیع سلطنت اوراخلاقی اقدار کے فروغ میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اس ملک کو قطب مینار کی بلندی، تاج محل کا حسن، لال قلعے کی پختگی، شاہجانی مسجد کا تقدس عطا کیا۔ ان کے علاوہ بھی نہ جانے کتنی نادرِ روزگار و دیگر عمارتیں جو فنِ تعمیر کا آج بھی شاہ کا رہیں وہ عطا کیں اور فنونِ لطیفہ میں اپنی ایجادات سے ہندوستان کی شان و شوکت کو چار چاند لگا دیے۔

سال1947 میں تقسیم وطن کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ترکِ وطن کرنے کے بجائے ہندوستان جنت نشان کو اپنے رہنے کے لیے چنا۔ہندوستان ان کے لیے مادرِ وطن بھی تھا اور پدری وطن بھی کیوں کہ اسلامی عقیدے کے مطابق جب اللہ نے آدم کو جنت سے زمین پر بھیجا تو اس کے لیے اسی سرزمین کا انتخاب کیا تھا۔ ان کے لیے یہ سرزمین اس لیے بھی عظمت اور فضیلت کا حامل تھی کیوں کہ پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے ہندوستان سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔ اسی لیے اس کی ترقی، توسیع اور نیک نامی میں ان کی غیر معمولی حصہ داری رہی ہے۔

ہندوستان میں مسلمان صرف حاکم ہی نہیں رہے وہ برطانوی سامراجیت کے دور میں محکوم بھی رہے لیکن آزاد، جمہوری ہندوستان میں وہ ایک ایسے تجربے سے گزر رہے ہیں جو منفرد بھی ہے اور شاندار بھی جس میں وہ نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کا دستور ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی ہر طرح کی آزادی عطا کرتا ہے۔

اسی لیے بہت سے علمائے دین اس بات پر متفق ہیں کہ کیوں کہ ہندوستان میں اسلام کے اکثر احکامات اور عمل کی اجازت ہے اس لیے ہندوستان ”دار الاسلام“ کے زمرے میں آتا ہے۔ بریلوی تحریک کے بانی مشہور عالم دین مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی ؒ نے ایک مکمل رسالہ لکھا جس میں فقہِ اسلامی کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ ہندوستان”دار الاسلام“ ہے۔ اسی طرح مولانا عبد الحئی لکھنویؒ اور نواب صدیق حسن خاں ؒ کے فتاویٰ بھی اس کی تائید میں موجود ہیں۔ عالم ربانی، دا ر العلوم دیوبند کے بانیوں میں شامل مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ ”جب مسلم اور غیر مسلم دونوں کسی ایک ملک میں ہوں تو وہ ملک ”دار الاسلام‘ ہی سمجھا جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنے وطنِ عزیز کی حیثیت سے اپنی مرضی و منشاء سے چنا ہے کسی جبر یا مجبوری کے تحت نہیں۔انہوں نے اسے اپنا مادرِ وطن سمجھا، مانا اور جاناہے۔

اگر وہ اس کو ”دار الاسلام“ نہ سمجھتے تو اسے اپنا وطن ہرگز نہ بناتے۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے جو ازہر ہند، دار العلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے مذکورہ بالا فتویٰ کے حوالے سے اپنی خود نوشت’نقش حیات‘ میں لکھا ہے کہ”اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدارغیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے لیکن مسلمان بحیثیت جماعت اقتدار میں شریک ہیں اور ان کے مذہبی رسوم و رواج اور عقائد کا احترام کیا جاتا ہے تو وہ بلا شبہ ’دار الاسلام‘ ہے اور شریعت کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں۔

در اصل عہد وسطیٰ میں دار السلام کی تقسیم سیاسی وجوہات سے وجود میں آئی یہ وہ زمانہ تھا جب حکومتوں کا قیام جنگوں میں شکست و فتح کا نتیجہ ہوتا تھا۔ اس میں عوام کو اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قرآن و حدیث میں بھی اس طرح کی تقسیم یا سیاسی تفریق کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سیاسی منظر نامہ اور صورت حال بدل چکی ہے۔ اب کوئی بھی مذہب یا اس کے ماننے والے کسی ایک سیاسی و جغرافیائی وحدت تک محدود نہیں ہیں۔

پہلے عوام کا سرکار بنانے میں کوئی رول نہیں ہوتا تھا جب کہ آج سرکاریں عوام کے ذریعہ ہی منتخب ہوتی ہیں۔ آج سرکاروں کو بنانے اور ہٹانے کا کام عام طور پر عوام ہی کرتے ہیں عہد وسطیٰ میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے پرانی لفظیات یا اصطلاحات سے نئی صورتِ حال، نظام اور طرز حکومت کو نہ ہی بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے صحیح طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔اسی لیے علمائے دین نے اب ہندوستان جیسے ملک کے لیے جو ایک سیکولر جمہوریت ہے ”دار الاسلام“ یا ”دار الحرب“ کی جگہ ایک نئی وضع اصطلاح کی ہے وہ ”دار الامن“ کی ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آج بھی کبھی ایسی آوازیں سنا ئی دیتی ہیں کہ مسلمان اجتماعی طور پر یہ اعلان کریں کہ ہندوستان ”دار الحرب“ نہیں ہے۔ اس طرح کے مطالبے وہ لوگ کرتے ہیں جودر اصل اس حقیقت سے واقف ہی نہیں۔وہ بغیر کسی ثبوت یاکسی بھی ہندوستانی عالم کے فتوے یا مسلمان علماء کے کسی تحریر کی بنیاد پر یہ مطالبہ نہیں کرتے کیوں کہ ایسی کوئی تحریر، فکر و عمل کی بنیاد پروہ پیش ہی نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں کرایے دار نہیں بلکہ برابر کے بھاگیدار ہیں اور ہمارا دستور اس کا گواہ بھی ہے اور ضامن بھی۔

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)