شتم رسول کا مسئلہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-07-2022
شتم رسول کا مسئلہ
شتم رسول کا مسئلہ

 

 

مرحوم مولانا وحید الدین خان کی تحریر

تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شتم کرے، خواه وه اشارۃ ہی کیوں نہ هو، اس کی لازمی سزا قتل ہے- شاتم رسول کو بطور حد قتل کیا جائے گا اس معاملہ میں بہت کم کسی قابل ذکر فقیہہ کا استثناء پایا جا سکتا ہے - اس حکم کی تفصیل کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے:

1- الصارم المسلول علی شاتم الرسول ، ابن تیمیه

2- السیف المسلول علی من سب الرسول ، تقی الدین ابو الحسن علی السبکی

3- تنبیه الولاه و الحکام علی احکام شاتم خیر الانام او احد اصحابه الکرام ، ابن عابدین الشامی

اس مسئلہ پر جب بهی کوئی شخص کوئی مضمون یا کتاب لکهتا ہے تو وه ہمیشہ یہی کرتا ہے کہ ان فقہاء کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرتا ہے کہ شتم رسول کی سزا اسلام میں قتل ہے، اور یہ کہ یہ ایک ایسا متفق علیہ مسئلہ ہے جس پر شاہد کسی فقہہ کا کوئی اختلاف نہیں-

یہاں یہ سوال پیدا هوتا ہے کہ اگر شریعت کا مسئلہ یہی ہے کہ شاتم رسول کو لازماً بطور حد قتل کیا جائے تو یہ مسئلہ دور اول کے اسلام میں کیوں موجود نہ تها- اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے ایسے افراد موجود تهے جو شتم رسول کا فعل کر رہے تهے، مگر انہیں قتل نہیں کیا گیا- اس سلسلہ میں ایک انتہائی واضح مثال مدینہ کے عبداللہ بن ابی ابن سلول کی ہے- وه ایک کهلا هوا شاتم رسول تها- پهر بهی لوگوں کے اصرار کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم نہیں دیا یہاں تک کہ وه اپنی طبعی موت مرا-

اس عدم قتل کا سبب کیا تها- علامہ ابن تیمیہ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے هوئے لکها ہے کہ ------ یعنی رسول اللہ صرف اس لیے اس کے قتل سے باز رہے کیوں کہ یہ اندیشہ تها کہ اس کے قتل سے لوگ اسلام سے برگشتہ هو جائیں گے، کیونکہ اس وقت اسلام ضعیف تها- دور اول کے زمانہ میں اور عباسی خلافت کے زمانہ میں بننے والی فقہ کے درمیان یہ فرق کیوں-

جیسا کہ معلوم  ہے فروری 1979 ء میں ایران کے آیت اللہ خمینی نے یہ فتوی دیا کہ سلمان رشدی نے اپنی کتاب سیٹینک ورسز(satanic Verses) کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے- اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وه اس کو قتل کر دیں- یہ فتوی جب چهپا تو غالباً راقم الحروف کے واحد استثناء کو چهوڑ کر دنیا بهر کے مسلمانوں نے اس فتوی کی تائید کی- اس کی حمایت میں زبردست مظاہرے هوئے- مگر مسلمانوں کی عالمی تائید کے باوجود سلمان رشدی کو قتل کرنا ممکن نہ هو سکا- مزید یہ کہ قتل کے اس فتوی اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی حمایت کے نتیجہ میں اسلام ساری دنیا میں بدنام هو گیا- اور اس کی تصویر یہ بن گئی کہ اسلام خدانخواستہ ایک وحشیانہ مذہب ہے-

موجوده زمانہ میں آزادی رائے کو انسان کا سب سے بڑا حق سمجها جاتا ہے- یہ گویا ان کا مذہب ہے- اس بنا پر پوری جدید دنیا نے اس فتوی کو اپنے مذہب (آزادی) پر براه راست حملہ سمجها- یہ لوگ پوری طاقت کے ساتهہ رشدی کے دفاع پر آ گئے- اسی کے ساتھ جدید میڈیا نے اس معاملہ کو اتنا پهیلایا کہ اس کی خبر ساری دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچ گئی- اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اندیشہ کی بنا پر مدینہ کے عبداللہ بن ابی کے قتل سے پرہیز کیا، وه اندیشہ سلمان رشدی کے خلاف قتل کے فتوی کی نتیجہ میں ہزار گنا زیاده بڑے پیمانہ پر اہل اسلام کے لیے پیش آ گیا-

اب ان دو متقابل نظیروں پر غور کیجئے- پیغمبر اسلام کی نظیر بتاتی ہے کہ شتم رسول کے معاملہ میں خواه وه کتنے ہی زیاده بڑے پیمانہ پر هو، یہ دیکها جائے گا کہ شاتم کو اگر قتل کیا جائے تو اس کا عملی نتیجہ کیا نکلے گا- اگر حالات پر اہل اسلام کا اتنا کنٹرول نہ هو کہ وه قتل کے منفی نتائج کو روک سکیں تو اہل اسلام قتل کا اقدام نہیں کریں گے- وه اس معاملہ کو اللہ کے حوالہ کر دیں گے- اس کے برعکس فقہاء کی مثال بتاتی ہے کہ جب کوئی شخص شتم کا فعل کرے تو اس کو فوراً قتل کر دیا جائے-

اب سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا هوا کہ موجوده زمانہ کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر سے اپنے لئے ہدایت نہیں لی- ان کی نظر فقہاء کی مسلک پر اٹک کر ره گئی- فقہاء کی پیروی میں متحد هو کر وه قتل شاتم کے علم بردار بن گئے-

اس سوال کا جواب تقلید ہے- موجوده زمانہ کے مسلمان متفقہ طور پر یہ رائے بنا چکے تهے کہ اب امت کے لیے براه راست قرآن و سنت سے اجتہاد کا دروازه بند ہے- اب صرف اجتہاد مقید ہی کا دروازه ان کے لیے کهلا هوا ہے- دوسری لفظوں میں یہ کہ اب مسلمان براه راست قرآن اور سنت سے مسائل اخذ نہیں کر سکتے- اب ان کے لیے صرف ایک ہی صورت ممکن ہے، اور وه یہ کہ فقہاء کے فتووں کو جانیں اور پوری تقلیدی جذبہ کے ساتھ اس پر قائم هو جائیں- چنانچہ انہوں نے رشدی کے معاملہ میں یہی کیا-

جیسا کہ عرض کیا گیا، موجوده فقہ کی تدوین اس وقت هوئی جب کہ اہل اسلام کو مکمل اقتدار حاصل تها- ان کو حالات پر اتنا زیاده کنٹرول تها کہ کسی قوم کی طرف سے باغیانہ روش کا اندیشہ هوتا تو خلیفہ صرف دهمکی کا ایک خط لکهتا اور باغی گروه پست ہمت هو کر خاموش هو جاتا-

مگر موجوده زمانہ میں حالات بدل چکے تهے- اب اہل اسلام کو پہلے کی طرح حالات پر کنٹرول حاصل نہ تها- مزید یہ کہ ان کے لیے بہت سے ناموافق حالات پیدا هو چکے تهے- مثلاً آزادی کا موجوده زمانہ میں خیر اعلی(summum bonum) کی حیثیت اختیار کر لینا اور اظہار رائے کی آزادی کو مقدس حق کے طور پر مان لیا جانا- اسی طرح جدید میڈیا کا ظہور میں آنا جو گویا گرم خبر(hot-news) کی عالمی ایجنسی ہے، وغیره-

انہی نئے حالات کا یہ نتیجہ تها کہ مسلمانوں کی عالمی حمایت کے باوجود سلمان رشدی کو قتل کرنا ممکن نہ هو سکا- مزید یہ ناقابل تلافی نقصان هوا کہ اسلام ساری دنیا میں بدنام هو گیا- جدید انسان کی نظر میں اسلام کی یہ تصویر بن گئی کہ اسلام خدانخواستہ دہشت گردی کا مذہب ہے، وه اپنے پیرووں کو مذہبی جنون( fanaticism)  کی تعلیم دیتا ہے- یہ نتیجہ تها بدلے هوئے زمانہ میں حاکمانہ دور کی فقہ کو نافذ کرنے کا-

سلمان رشدی کے معاملہ میں موجوده زمانہ کے مسلمان اگر اجتہاد مطلق کا طریقہ اختیار کرتے تو وه اس معاملہ میں براه راست قرآن و سنت سے روشنی حاصل کرتے اور پهر انہیں معلوم هو جاتا کہ اس مسئلہ کا حل قتل کا فتوی نہیں ہے بلکہ رد عمل سے بچتے هوئے پرامن دائره میں اپنی دعوتی کوشش کرنا ہے- مگر چونکہ وه اپنے مقلدانہ ذہن کے بنا پر دور اقتدار میں بننے والی فقہ کے اندر اٹکے هوئے تهے اس لیے ان کو  وہی حاکمانہ مسئلہ نظر آیا جو فقہ کی ان کتابوں میں لکها هوا تها، یعنی : الشاتم یقتل حدا-

مسائل اجتہاد

مولانا وحیدالدین خان