خدا کرے کہ یہ شبنم یوں ہی برستی رہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-03-2021
ہندوستان اپنے قیام کے وقت سے پاکستان کے جنگجویانہ عزائم سے دوچار رہا ہے
ہندوستان اپنے قیام کے وقت سے پاکستان کے جنگجویانہ عزائم سے دوچار رہا ہے

 

پروفیسر اختر الواسع    aaa

ہندوستان اور پاکستان جو دونوں ایک دوسرے سے جنگوں کے لیے یاد کیے جاتے ہیں ان دونوں کے بیچ میں جنگ بندی کی خبریں آئی ہیں اور یہ خبریں بادِصبا کے ان لطیف جھونکوں کی طرح ہیں جو حیات بخش ہوتے ہیں۔ ہندوستان اپنے قیام کے وقت سے پاکستان کے جنگجویانہ عزائم سے دوچار رہا ہے۔ 1948 میں قبائیلیوں کے نام پر دراندازی اور اس میں ہندوستان کی طرف سے نوشہرہ کے شیر بریگیڈیر محمد عثمان کی وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت کو نوش کرنا ناقابلِ فراموش ہے۔ ہم جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں برسوں درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں وہاں کے خصوصی قبرستان میں آتے جاتے بریگیڈیر عثمان کی قبر پر فاتحہ پڑھتے رہے ہیں۔ اسی طرح 1965 میں حولدار عبدالحمید کے جذبہئ حب الوطنی نے پاکستانی ٹینکوں کے حملوں سے مادرِوطن کے سینوں کو چھلنی ہونے سے بچایا اور خود جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ 1971 میں دنیا نے ہندوستان پاکستان کی جنرل سام مانک شاہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کی کوکھ سے نہ صرف مشرقی پاکستان کو بنگلہدیش کے روپ میں ابھرتے دیکھا بلکہ جنرل نیازی کو لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے 93ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالتے دیکھا اور ہندوستان نے دنیا کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں جنگی قیدیوں کو زیرِ حراست رکھنے کا دنیا میں ریکارڈ قائم کیا۔ بعد ازاں شملہ معاہدے کے تحت ایک دفعہ پھر ہندوستان نے ان جنگی قیدیوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر رہا کرنا منظور کر لیا۔ یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ہندوستان کی خیرسگالی کی کوششوں کا پاکستان نے اکثر شرپسندی سے ہی جواب دیا۔

جب وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی دہلی سے لاہور بس کے ذریعے محبت کا کارواں لے کر گئے تو اس کے جواب میں پاکستان کی فوج نے ہندوستان کو کارگل پر حملہ کرکے تکلیف دہ اور شرمناک طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف جو واجپئی جی سے بس یاترا کے موقعے پر لاہور میں ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھے وہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرکے صلح صفائی کے لیے آگرہ آنے کو تیار ہو گیے۔ یہ دوسری بات ہے کہ نیّت صاف نہ ہونے کی وجہ سے اس آمدورفت کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ہندوستان کو ہر لمحہ آزمائش میں ڈالنے کے لیے پہلے جنرل ضیاء الحق نے پنجاب میں ہندوستان مخالف عناصر کی بھرپور مدد کی اور بعد ازاں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے کشمیر میں دراندازی اور پرتشدد کاروائیوں کو فروغ بخشا اور پھر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں دہشت گردی ایک باقاعدہ صنعت بن گئی اور جموں ہو یا ممبئی، دلی کا لال قلعہ ہو یا ہندوستانی پارلیمنٹ سب پر حملے ہوتے رہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب کرکٹ کے نام پر پاکستانی حکمراں ہندوستان آ رہے تھے اور شری نریندر مودی کی پہلی رسمِ حلف برداری کے موقعے پر ہندوستان نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو عزت اور گرم جوشی کے ساتھ مدعو کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی خود پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے پاکستان گیے۔

برصغیر کی اقدار کے مطابق نواز شریف کی والدہ کی قدم بوسی کی لیکن ہندوستان کے خلاف پاکستان کی شرپسندی میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں آئی۔ یہاں اس بات کا اعتراف کرلینا بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی ہو یا ہندوستان کے خلاف کوئی بھی شرارت پسندی اس میں پاکستان کے عوام کی غالب ترین اکثریت شامل نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے اچھا بھی نہیں سمجھتی ہے لیکن مذہب کے نام پر نفرت کی تجارت کرنے والے کچھ عناصر اور فوج میں بعض ہندوستان کے کٹّر مخالف اس سے باز نہیں آتے ہیں۔ ہندوستان ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔ شری اٹل بہار واجپئی کے لفظوں میں ”ہم اپنا دوست بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں‘‘۔“

ہندوستان نے نہرو لیاقت پیکٹ سے نہرو ایوب ملاقات ہو یا تاشقند کا لال بہادر شاشتری اور جنری ایوب خاں کا معاہدہ، اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بیچ میں شملہ معاہدہ، اسلام آباد میں راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو کی ملاقاتیں یا پھر باوجود کارگل کے اٹل بہاری واجپئی اور جنرل پرویز مشرف کی ملاقاتیں ایک بہتر اور خوشگوار رشتوں پر دونوں ملکوں کے بیچ میں تعلقات کو ترجیح دی لیکن لاحاصل۔ اگر ہندوستان اور پاکستان ایمانداری سے باہمی مفاہمت،آپسی یگانگت اور خیرسگالی پر مبنی تعلقات کو استوار کر لیں تو یہ برصغیر کے لیے نہیں بلکہ پوری جنوبی ایشیاء کے لیے ایک فالِ نیک ہوگی اور صرف جنوبی ایشیاء ہی کیوں پورے ایشیاء کو دنیا میں امریکہ اور یورپ کا ہمسر بنا دے گی۔ غور کیجیے کہ وہ اشیاء جو دونوں ملک ایک دوسرے سے دبئی اور سنگاپور کی معرفت خریدتے ہیں لاہور اور لدھیانہ، سیالکوٹ اور جالندھر سے منگانے میں کتنا کم وقت لگے گا اور قیمتوں میں بھی کیسی رعایت و کفایت حصے میں آئے گی۔

آج تو حالت یہ ہے کہ دھیلے کی پڑیا، ٹکے کی ڈھلائی والا معاملہ ہے۔ دونوں ملکوں کی تہذیب، ثقافت، زبانیں، مذہبی روایات ایک ہیں۔غم اور خوشی کی رسمیں ہوں یا کھیل کود کی پسندو نا پسند سب ایک ہیں۔ جنگوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ زمانے میں ہمیں محرومیوں، بھکمری اور رنج وغم کے علاوہ کیا دیا ہے؟ سوچنے کی چیز یہ ہے نا کہ کچھ اور۔ اس لیے جب کبھی امن کا کوئی جھونکا دونوں ملکوں کے بیچ محسوس ہوتا ہے تو داتا دربار سے خواجہئ غریب نواز تک، ٹکشلا سے نالندہ تک، موہن جوداڑو اور ہڑپّا سے کھجوراہو اور کونارک تک،کبیر سے نانک، غالب سے اقبال تک سارے آثار اور رشتے جگمگانے لگتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر جو امن کی نوید کا جھونکا آیا ہے اس پر ہر امن پسند ہندوستانی ہو یا پاکستانی اپنے رب کی بارگاہ میں وہ اسے چاہے کسی نام سے پکارتا ہو یوں ہی دعا گو ہے کہ: خدا کرے کہ یہ شبنم یوں ہی برستی رہے زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)