طالبان:ابتدا،ارتقااورعروج کی داستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-08-2021
طالبان:ابتدا،ارتقااورعروج کی داستان
طالبان:ابتدا،ارتقااورعروج کی داستان

 

 

امریکی اور ان کے اتحادی نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کی صورت حال حیران کن طور پر اور ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی اور بلآخر آج 15 اگست 2021 کو تقریباً 20 سال کے بعد طالبان کابل میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں، جہاں سے امریکا نے انہیں بے دخل کیا تھا۔ اس ساری صورت حال میں لوگوں کے ذہن میں ایک سوال شاید اب بھی موجود ہے کہ 20 سال افغانستان میں جنگ کے بعد کامیابی کس نے حاصل کی، امریکا، اس کے اتحادی ممالک اور افغان حکومت نے یا طالبان جنگجوؤں نے، جنہوں نے 20 سال تک اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھیں اور ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کو اپنی زمین سے جانے پر مجبور کردیا۔

اس رپورٹ میں حالیہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان کے جنم سے ان کے اقتدار تک پہنچنے، 9/11 حملوں اور اس کے بعد افغانستان میں پرتشدد واقعات کے بعد امریکی انخلا تک تمام چیزوں پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔

طالبان، پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'طالبعلم' کے ہیں، افغانستان کی 55 فیصد آبادی پشتو زبان بولتی اور سمجھتی ہے، طالبان کی بنیاد 90 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ملا عمر نے اپنے آبائی علاقے قندھار میں 50 طالبعلموں کی مدد سے رکھی تھی، یہ تمام وہ لوگ تھے جنہوں نے 1989 سے 1979 تک سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔

کونسل آن فارن ریلیشن کے مطابق دسمبر 1979 میں سوویت یونین کے ٹینک اور فوجی، امو دریا اور افغانستان کے قریب اترے جس کا مقصد ملک میں ہوئی بغاوت کے بعد استحکام پیدا کرنا تھا لیکن سوویت یونین کو مقامی سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی افراد اور مجاہدین پر مشتمل گروپ نے امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور جلد ہی دیگر اسلامی ممالک سے لوگ بھی ان کی جدوجہد میں شامل ہو گئے جس کے بعد القاعدہ کے نام سے ایک گروپ کا قیام عمل میں آیا۔

اس گوریلا جنگ کے نتیجے میں 1989 میں سوویت افواج واپس لوٹ گئیں جس کے بعد مجاہدین نے سوویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت کو ہٹا کر عبوری حکومت قائم کر لی۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد افغانستان میں مقامی قبائلیوں اور وار لاڈز میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور نومبر 1994 میں طالبان قندھار میں داخل ہو گئے تاکہ ملک میں جرائم کا خاتمہ کیا جائے اور دو سال بعد ستمبر 1996 میں دارالحکومت کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور صدر برہان الدین ربانی کو اقتدار سے بے دخل کردیا جنہیں وہ پشتون مخالف اور کرپٹ تصور کرتے تھے۔

طالبان نے افغانستان کو امارات اسلامی قرار دیا اور ملک کے 90 فیصد سے زائد پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ملا عمر کو امیر المومنین بنانے کا اعلان کیا گیا اور اسلامی قوانین لاگو کردیے گئے۔ طالبان کے 5 سالہ دور اقتدار کے درمیان ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، خواتین سے ناروا سلوک اور ان کے تعلیم کے حصول پر پابندی، سماجی ذمے داریوں سے پہلو تہی برتنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے لیکن طالبان قیادت نے ان تمام تر الزامات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا

۔ 1999 میں القاعدہ کو پناہ دینے کے الزام میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اس وقت کی طالبان سے تعلق رکھنے والی افغان قیادت پر پابندیاں عائد کردی تھیں اور امریکا میں ہوئے 9/11 (11 ستمبر 2001) کے حملوں کے بعد ان پابندیوں میں توسیع کردی گئی۔ یاد رہے کہ 11 ستمبر کو القاعدہ کے شدت پسندوں نے 4 امریکی طیاروں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی مدد سے امریکا کی اہم تنصیبات پر حملہ کیا تھا، حملے میں ملوث 19 دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اس حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے ملا عمر سے اسامہ بند لادن سمیت حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تمام افراد کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ان کے انکار کے بعد امریکا نے افغانستان کے خلاف جنگ کے منصوبے پر عملدرآمد کیا۔ اکتوبر 2001 میں امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے اس وقت کی طالبان حکومت کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس موقع پر عبدالرشید دوستم اور حامد کرزئی جیسے قبائلی عمائدین اور طالبان مخالف عناصر نے امریکا کی بھرپور مدد کی تھی

۔ 6 دسمبر کو قندھار بھی امریکی اور اتحادی افواج کے قبضے میں چلا گیا تھا اور حامد کرزئی کو عبوری بنیادوں پر افغانستان کی قیادت سونپ دی گئی تھی جبکہ اس دوران ملا عمر کے ساتھ ساتھ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی تلاش بھی بڑے پیمانے پر شروع کردی گئی۔

طالبان کے افغانستان سے اخراج کے باوجود طالبان اور اتحادی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں تاہم جلد ہی امریکا کی زیر قیادت عالمی اتحادی افواج نے ملک کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور ملک میں بحالی کا عمل شروع ہوا۔ 2004 میں افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اور حامد کرزئی صدر منتخب ہوئے لیکن اس نئی حکومت کو بھی وقفے وقفے سے طالبان کے حملوں کا سامنا رہا جبکہ کئی مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔

2005 میں طالبان نے ملک میں پھر سے سر اٹھانا شروع کیا اور امریکی فوج سے براہ راست تصادم کے بجائے خود کش حملوں اور آئی ای ڈیز کے ذریعے اتحادی افواج کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی اور اس نئی حکمت عملی کے ساتھ ہی ملک میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا ملی کیونکہ عوام کا ماننا تھا کہ کئی سال گزرنے کے باوجود امریکا اور اتحادی افواج نے ملکی دفاع کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے اور انہیں شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا

۔ 2009 میں امریکی صدر باراک اوبام نے اقتدار میں آتے ہی 36 ہزار امریکی اور 32 ہزار نیٹو فورسز کے ہوتے ہوئے مزید 17 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا اور شدت پسندوں سے لڑنے کے بجائے افغان عوام کے تحفظ کی حکمت عملی اپنائی اور پہلی مرتبہ افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیادت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی۔

ابھی نئی امریکی حکمت عملی کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ میک کرنین کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی جس میں امریکی انتظامیہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر فوج کی تعداد میں اضافہ نہ کیا گیا تو امریکا ایک سال کے اندر ہی یہ جنگ ہار جائے گا اور اس کے نتیجے میں نومبر 2010 میں مزید 30 ہزار اضافی دستے افغانستان بھیجے گئے۔

کرزئی نے اگست 2009 میں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی جسے انہوں نے مسترد کردیا اور افغان صدر کی متعدد پیشکشوں کے باوجود ملاعمر ان سے ملاقات پر راضی نہ ہوئے۔

پاکستان نے 2010 میں طالبان سے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ طالبان کے اہم رہنما ملاعبدالغنی برادر کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے حراست میں لے لیا۔

امریکا میں 9/11 حملے کے تقریباً 10 سال بعد 2 مئی 2011 کو صورتحال نے اس وقت ڈرامائی موڑ لیا جب امریکا نے پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں کارروائی کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو قتل کرنے اور لاش سمندر بُرد کرنے کا دعویٰ کیا۔

اوباما کے جانے کے بعد نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی دستوں کو وطن واپس بلانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران طالبان کی جانب سے بانی سربراہ ملا عمر کی موت کا اعلان کیا گیا جس کے بعد ملا اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ مقرر کردیا گیا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ اس نشست پر براجمان نہ رہ سکے اور امریکی ڈرون کا نشانہ بن گئے جس کے بعد طالبان شوریٰ نے ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا نیا سربراہ بنایا جو تاحال اس نشست پر اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔