سید ممتازعلی: حقوق نسواں کے علم برداراسلامی اسکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 08-03-2021
سید ممتاز علی
سید ممتاز علی

 

 

 ثاقب سلیم/ نئی دہلی

یہ واقعہ 1890 کا ہے جب مولوی سید ممتاز علی سرسید احمد خان سے ملنے علی گڑھ تشریف  لے گئے اور اپنی لکھی ہوئی کتاب کا مسودہ انہیں پیش کیا ۔ سرسید نے جیسے ہی پڑھنا شروع کیا ان کی ناراضگی واضح طور پر عیاں تھی - کچھ صفحات کو پلٹنے کے بعد ان کا ذہنی اضطراب باہر آ گیا ۔ انہوں نے ممتاز سے ، جو ان سے عمر میں بہت چھوٹے تھے ، پوچھا کہ یہ کتاب ہے یا کوڑے دان - پھر انہوں نے اس مخطوطہ کو پھاڑ کر پھینک دیا ۔ ممتاز نے بڑی افسردگی کے ساتھ اپنی علمی کاوش کے اس ماحصل کو کوڑے دان سے  اٹھایا    اور اسے 1898 میں سرسید کی موت کے چند ماہ بعد ہی شائع کر دیا ۔

یہاں یہ سوال موزوں ہے کہ آخر اس کتاب میں ایسا کیا تھا جس نے سرسید کو اس حد تک چراغ پا کر دیا ؟ اس کتاب کا نام تھا حقوق نسواں- یہ اس وقت کے علمی حلقوں کے لئے ایک ایسا مضمون تھا جو اسلامی قوانین کے تحت خواتین کے حقوق کی حمایت کرتا تھا۔ سید ممتاز علی جو شیخ الہند محمود الحسن کے ساتھ دیوبند میں تعلیم حاصل کرتے تھے ، اس موقف کے حامی تھے کہ اسلام میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں اور  معاشرے کے  رسم و رواج کی بناء پر ان کا مقام کمتر بنا دیا گیا ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ مردوں اور عورتوں کو اسلام کے مستند مآخذ کی بنیاد پر خواتین کے قانونی حقوق سے آگاہ کیا جائے ۔

کتاب اپنے وقت کے لحاظ سے اس قدر انقلابی تھی کہ سرسید احمد خان جیسا جدید ماہر تعلیم بھی اس کے دلائل کو قبول کرنے سے گھبراتا تھا۔ کتاب کی ابتدا ہی میں ممتاز نے پیش گوئی کر دی تھی کہ لوگ انہیں انگریز یا عیسائی ایجنٹ کہیں گے ۔ ان کا واضح موقف تھا کہ جو  شخص بھی قرآن و حدیث کا علم رکھتا ہے  اور نبی اور اہل بیت کا احترام کرتا ہے ، وہ عورتوں کو کمتر سمجھنے والی غیر اسلامی روش کو مسترد کرنے والے ان کے دلائل کو ضرور قبول کرے گا۔

کتاب کو بڑے پیمانے پر پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مردوں کی عورتوں پر بالادستی والی جھوٹی سماجی اقدار ، خواتین کی تعلیم ، پردے کا نظام ، شادی اور شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہ ازدواج ۔ ممتاز نے اپنی اس کتاب میں ایک ماہر عالم دین کا طرز بیان اپنایا ہے جو پہلے معاشرے میں رائج دلائل کی فہرست دیتا ہے اور پھر ان کا مقابلہ آیات قرآن ، روایات حدیث اور منطقی تشریحات سے کرتا ہے۔

 بظاہر جدید نقطہ نظر پر مبنی یہ کتاب اسلام کے حنفی مکتب فکر کے دائرہ کار میں رہ کر اپنی بات کرتی ہے۔ اگرچہ کتاب میں موجود تمام دلائل کا خلاصہ بیان کرنا اس مضمون کے دائرہ سے باہر ہے ، لیکن قارئین کو چند اہم دلائل سے آگاہ کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں اندازہ ہو جائے کہ 19 صدی میں لکھا جانے والا متن آج کے جدید معیارات کے لحاظ سے کتنا انقلابی تھا۔

سب سے پہلے تو ممتاز نے اس دلیل کا رد کیا کہ مردوں کو عورتوں سے اللہ کی طرف سے برتر بنا دیا گیا ہے کیونکہ الله نے مردوں کو زیادہ جسمانی طاقت عطا کی ہے - ممتاز نے اس استدلال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گدھے کے پاس انسان سے زیادہ جسمانی طاقت ہے تو کیا گدھے کو بھی انسان سے بالاتر مان لیا جائے ۔ انسان جسمانی طاقت  نہیں حکمت کی بنا پر جانوروں سے افضل ہے۔ اللہ نے خواتین کی عقل کو کم نہیں بنایا۔ عورتیں کو روحانی طور پر کمتر سمجھنے والی دلیل کا بھی انہوں نے مقابلہ کیا

عورتیں کو روحانی طور پر کمتر اس لئے سمجھا جاتا ہے کیوں کہ کبھی بھی کسی عورت کو نبی نہیں بنایا گیا ہے ، اس دلیل کا رد کرتے ہوئے ممتاز لکھتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے ہمیں صرف چند ایک کے نام معلوم ہیں جن میں یقینا کوئی عورت نہیں ہے لیکن قرآن یا حدیث میں کہیں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں ہوسکتی ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ انبیاء میں عورتیں بھی ہوں جن کے نام ہمیں معلوم نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ ، اگرچہ انسان جانوروں پر روحانی فوقیت کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن مرد اور عورت کے مابین اس طرح کا امتیاز نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسے مرد بھی ہوسکتے ہیں جو روحانی طور پر دوسرے مرد اور خواتین سے برتر ہوں اور اسی طرح عورتیں بھی دوسرے مرد اور خواتین سے روحانی طور پر اعلی ہوسکتی ہیں۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ حضرت فاطمہ (حضرت محمد کی صاحبزادی) اور صوفی شاعر ہ رابعہ بصری کی مثال دیتے ہیں۔

ممتاز اس عقیدے کو یکسر مسترد کرتے ہیں کہ اللہ نے حوا کو آدم کے بعد انہیں ایک ساتھی مہیا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ ممتاز کہتے ہیں کہ الله عالم الغیب ہے- اسے اپنی تخلیق کے ماضی، حال اور مستقبل کا بخوبی علم ہے- وہ جانتا تھا کہ وہ حوا کو بنانے والا ہے لہذا الله نے حوا کو ساتھی مہیا کرنے کے لئے ان سے پہلے آدم کو بنایا ۔

ممتاز نے یہ استدلال کیا کہ چونکہ اللہ نے ہر مسلمان پر یہ فرض کر رکھا ہے کہ وہ صنف کے کسی تفریق کے بغیر علم حاصل کرے لہذا خواتین کو بھی اسی طرح تعلیم دی جانی چاہئے جس طرح مردوں کو دی جاتی ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک خاص قسم کی تعلیم یا کتابیں خواتین کے لئے موزوں نہیں ہیں ، انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی کتاب معاشرے کے لئے خطرناک ہے تو وہ دونوں اصناف کے لئے بھی ہے ، صرف خواتین کے لئے نہیں۔ ممتاز کے خیال میں خواتین کو اسی طرح تعلیم دینا جس طرح مردوں کو دی جاتی ہے ، ایک مذہبی فریضہ ہے ۔

پردہ کے بارے میں ممتاز نے دلیل دی ہے کہ قرآن کی وہ آیتیں جو مومنوں سے نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہ کو ڈھانپنے کے لئے کہتی ہے وہ مرد اور عورت پر یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں ۔ ایک اور آیت ، جو خواتین کو چھاتی کو چھپانے کے لئے کہتی ہے وہ معمولی لباس کا ایک حصہ ہے اور وہ خواتین کو ان کی معاشرتی اور معاشی زندگی میں معذور نہیں کرتا ہے۔

قرآن مجید میں جب خواتین سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام سے پہلے کے دور کی طرح ہر جگہ نہ جائیں تو اس سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ وہ ہر وقت گھروں میں ہی رہیں۔ وہ متعدد احادیث اور قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہیں کہ خواتین کو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کی اجازت ہے۔ مزید یہ کہ ایسا کوئی اسلامی حکم نہیں ہے کہ عورتیں گھروں سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی ہیں ۔

ممتاز چھوٹی عمر میں شادی کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اسلام میں مرد اور عورت کو شادی کے لئے دونوں افراد کی رضامندی کا یکساں طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ لہذا شادی کے لئے انہیں اس عمر کا ہونا چاہئے جس عمر میں وہ اپنا اچھا اور برا سمجھتے ہوں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں خواتین کا حاملہ ہونا بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

اپنی کتاب میں انہوں نے جہیز اور شادی کی مہنگی تقریبات کے خلاف بھی بحث کی ہے۔ ممتاز اپنی کتاب میں سماجی برائیوں کے خاتمے کے لئے اسکول کھولنے اور خواتین کے لئے جرائد شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمان معاشرے کے موجودہ جدید معیارات کے باوجود بھی کتاب کا متن انقلابی معلوم ہوتا ہے جسے ممتاز نے تقریبا 125 سال پہلے لکھا تھا۔

اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ لوگوں کی تنقید کے  پیش نظر ابتدائی 1000 کاپیاں چھپنے کے بعد کتاب دوبارہ کبھی پرنٹ نہیں کی گئی ۔ بہت سے لوگوں نے ، جن کو ممتاز نے کتاب کی مفت کاپیاں ارسال کیں ، اسے نا شائستہ زبان سے بھرے ہوئے خط کے ساتھ لوٹا دیا۔ جیسے جیسے ہم وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ، ہمیں ترغیب کے لئے ممتاز کے دلایل کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کا  اور بھی زیادہ شدت سے    احساس  ہوتا جاتا  ہے ۔