اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 29-01-2022
اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں
اردو کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

 

awaazthevoice

 

 

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

دوسری اور آخری قسط

اردو کے حوالے سے ایک اور دلچسپ حقیقت جو ویسے کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو، یہ بھی ہے کہ اردو اخبارات ہوں یا نشریات، ان میں نئی روح اور نئی زندگی جن لوگوں نے پھونکی وہ بھی تقریباً سب غیر مسلم ہی ہیں۔ اردو اور ہندی کے بیچ جھگڑا پیدا کرنے اور دوریاں بنانے کی کیسی کیسی باتیں دیکھنے میں آئیں لیکن آج اردو اور ہندی صحافت کی شاہراہ پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے رواں دواں ہیں۔جاگرن کے انقلاب کو خریدنے سے پہلے انقلاب صرف ممبئی تک ہی محدود تھا لیکن آج شمالی ہندوستان میں اس کے کس کثرت سے ایڈیشن شائع ہو رہے ہیں یہ ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔

اسی طرح انقلاب سے پہلے ڈاکٹر عزیز برنی کی محنت اور کوششوں کے بَل پر شری سُبرتو رائے نے اردو وزنامہ راشٹریہ سہارا کو اس شان اور سج دھج سے مختلف شہروں سے نکالا کہ اردو والے بھی دنگ رہ گئے۔ ایسا ہی نہیں کہ صرف اخباری دنیا میں ہی ایسا ہوا ہو۔ حیدرآباد کے راموجی راؤ نے 24 گھنٹے کا پہلا اردو ٹی وی چینل ای ٹی وی اردو شروع کیا۔سبھاش چندرا نے زِی سلام اور ٹی وی۔18والوں نے اردو میں اپنا باقاعدہ چینل شروع کیا جو پوری طرح چھا گیا۔ڈی ڈی اردو ان سب سے الگ ہے۔ اِدھر سوشل میڈیا اور ڈیجیٹلائیزیشن کے زمانے میں جس طرح غیرمسلم صحافی اردو کا استعمال کر رہے ہیں اور خاص طور سے اردو کے بلاگرس لا رہے ہیں اور انہیں مقبولیت بھی حاصل ہو رہی ہے وہ الگ ہے۔ ان میں سے اگر مجھے کنہیں دو کا انتخاب کرنا ہو تو میں دی وائر، آواز دی وائس کا انتخاب کروں گا۔

اوپر ہم نے بات کی تھی کہ اردو زبان کی مقبولیت اور فروغ میں بنیادی طور پر ان لوگوں کا حصہ زیادہ ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اگر کسی سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ غزل گائیکی کا ہمارے زمانے میں سب سے بڑا نام کون سا رہا ہے؟ تو ہر شخص جگجیت سنگھ کو ہی غزل گائیکی کا بادشاہ بتائے گا۔ پیناز مسانی،چِترا سنگھ، پنکج ادھاس اور دوسرے گانے والوں کے نام اگر آپ یاد کریں گے تو دیکھیں گے کہ ان کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت اردو غزل گائیکی کے حوالے سے ہی بنی ہے۔آج دنیا بھر میں اردو کی نئی بستیاں وجود میں آ رہی ہیں۔ خلیجی ملکوں میں اردو کا چلن کتنا ہے یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے اور ہندوستان کی فلمی صنعت نے اردو کو ہندی قرار دینے کی ساری کوششوں کے باوجود جس طرح فروغ دیا ہے وہ سب کو پتا ہے۔

ہندی فلموں میں مکالمے ہوں یا گیت، وہ سب وہی ہیں جو ہمارے روزمرہ میں شامل ہیں۔ بس ایک انتہائی تکلیف دہ فرق کے ساتھ کہ ان کا استعمال کرنے والے اکثر لوگ دیوناگری رسم خط کے ذریعے ان کو لکھتے ہیں اور پھر بولتے ہیں۔ جب کہ اردو کا رسم خط انتہائی قیمتی ہے، وہ ایک تہذیب، ثقافت کا آئینہ دار تو ہے ہی، ساتھ میں فنون لطیفہ میں فنِ خطاطی کا مظہر بھی ہے اور آج اس بات کی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ ہم اردو کو اس کے فارسی رسم خط کے ساتھ زندہ رکھیں کیوں کہ رسم خط بدل جانے زبانیں بے جان ہو جاتی ہیں، اپنی شناخت کھو دیتی ہیں اور ان میں جو علمی سرمایہ ہوتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس زبان سے متعلق رہے لوگ اپنی لسانی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی شناخت کو ہمیشہ کےلئے کھو بیٹھتے ہیں۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ زبانیں سرکاروں کی سرپرستی سے زندہ نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنے بولنے والوں اور چاہنے والوں کے دم پر آگے بڑھتی ہیں اور اس کی سب سے بہتر مثال اردو زبان ہے۔ یاد رہے کہ مسلم دورِ حکومت میں چھ سو سال تک فارسی کی حکمرانی رہی لیکن اردو جس کا جنم خانقاہ میں ہوا، جس کے جنک حضرت امیر خسروؔ تھے اور جس نے عام زندگی میں بول چال کی زبان کی حیثیت سے بازار میں اپنی طاقت منوائی اور پھر یہ بازار کی طاقت تھی کہ جس کے بَل پر ضلِّ الٰہی کو بھی فارسی کی جگہ قلعہ معلی میں اردوئے معلّٰی کو دینی پڑی اور ایک حقیقت جس پر ہمیں اور توجہ دینی چاہیے، وہ یہ کہ 1857ء سے پہلے کبھی کسی ہندی والے نے بادشاہ سلامت کے سامنے ایسا کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا کہ ہندی کی بھی پذیرائی کی جائے بلکہ اس کے برعکس ہندوؤں نے پہلے فارسی میں اور پھر اردو میں وہ قدرت حاصل کی کہ خود بھی درجۂ کمال کو پہنچ گئے اور ان میں کائستھ کے نام سے باقاعدہ ایک سماجی طبقہ وجود میں آ گیا.

لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ 15اگست 1947ء کے بعد جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے راتوں رات ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں اس ملک کی سرکاری زبان کے طور پر مسندِ اقتدار پر فائز ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ آٹھ سو سال فارسی اور اردو اور تقریباً دو سو سال انگریزی کی حکمرانی کے باوجود یہ کیوں کر ممکن ہو پایا؟

اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اس ملک کی اکثریت نے آٹھ سو سال تک فارسی اور ارد ومیں مہارت حاصل کی اور دو سو سال انگریزی میں لیکن اپنے گھروں میں اپنی عورتوں کے ذریعے ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط کو محفوظ رکھا اور اپنی مادری زبان سے وہ رشتہ مضبوطی سے بنائے رکھا جو کہ ان کا ان کی ماں کے دودھ کے ساتھ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہندی والوں نے ایک ہزار سال تک جو رشتہ اپنی مقامی بولیوں کے توسط سے ہندی زبان کے ذریعے سے ایک ہزار سال تک بنائے رکھا، ہم صرف ۷۵؍سال میں اپنی مادری زبان سے کیوں بیزار ہو گئے؟ لگاتار چار قسطوں میں لکھے جانے والے اس کالم کا مقصد کسی کو مطعون کرنا نہیں بلکہ اپنے دل کے داغوں کو نمایاں کرنا ہے۔ ابھی بھی وقت کہیں نہیں گیا ہے۔ اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ اردو کو مرنے نہیں دیں گے اور اس کا جو شاندار ماضی ہے اس کی بازیافت کرکے ہی رہیں گے، تو ہم انسانی تاریخ میں ایک ایسے سماجی گروہ کے طور پر یاد کئے جائیں گے جو احسان شناس ہونے کے ساتھ اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کا پاسدار بھی ہوتا ہے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔