ڈاکٹر عمیر منظر
ایسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ اردو
مانو ۔لکھنؤ کیمپس
نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی اردو کی تاریخ کے روشن دن یاد آنے لگتے ہیں۔افراد و شخصیات سے لے کر اردو کی کتابوں اور رسالوں کے نام ذہن کے پردے پر گردش کرنے لگتے ہیں۔لکھنؤاور دلی کی تاریخ آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہے اور بار باریہ خیال آتا ہے کہ کیا لوگ تھے اور اپنی زبان اور ادب کے لیے کیا کچھ کرگئے۔لکھنؤ کی ادبی تاریخ کا ایک روشن حوالہ یہاں سے نکلنے والے اردو کے رسالے ہیں۔لکھنؤ سے نیاز فتح پوری کی ادارت میں شائع ہونے والا ”نگار“سے کون ہے جو واقف نہ ہو۔
نیادور جیسا تاریخ ساز رسالہ یہیں سے شائع ہوا اور جو اب بھی جاری ہے۔یہاں کا ایک مشہور ادبی رسالہ ماہنامہ فروغ اردو بھی تھا۔اس نے بے شمار خصو صی نمبر شائع کیے جو رسالوں کی تاریخ میں ممتاز حیثیت کے حامل قرار دیے گئے ہیں۔انھیں رسالوں میں ایک رسالہ ”صبح ادب“کے نام سے نومبر 1974میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے جاری کیا تھا۔یہ رسالہ گرچہ زیادہ مدت تک شائع نہیں ہوسکا مگر کی شان و شوکت کی یادگار ضرور ثابت ہوا۔ایک تو یہی کہ اس رسالے کے الگ الگ شماروں کی رسم رونمائی یوپی کے دو وزرائے اعلی نے فرمائی۔
ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی نگرانی میں لکھنؤ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔خود ایک اچھے استاد،مصنف اور مایہ ناز خطیب کے طورپر ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ شعرو ادب کے علاوہ ملی اور تعلیمی سرگرمیوں کا ایک دائرہ ان کی شخصیت سے وابستہ ہے،جس کے لیے وہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔انھوں نے لکھنؤ کاوہ آخری زمانہ بھی دیکھاہے جو اپنی ادبی سرگرمیوں کے طفیل ہی جانا جاتا تھا۔ اس عہد کے بہت سے ادیبوں اور شاعروں سے اخذو استفادہ کا موقع بھی انھیں ملا۔خود مسعود الحسن عثمانی کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جو علم وادب اور سیاست و صحافت کا امین رہا ہے۔قاضی جلیل عباسی اور قاضی عدیل عباسی ان کے ماموں ہوتے ہیں۔ان کی تربیت میں ان بزرگوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔اردو زبان وادب سے بے لوث وابستگی کا جذبہ اپنے بزرگوں سے ہی انھیں ملا تھا۔بایں طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان سے محبت اوراس کی خدمت کا جذبہ انھیں اپنے گھر سے ہی ملا۔یہ رسالہ انھوں نے اس وقت جاری کیا جب وہ لکھنؤ یونی ورسٹی کے طالب علم تھے۔دوران طالب علمی رسالہ نکالنے کا خیال زبان سے محبت اور خدمت کے اسی جذبے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ادبی رسالہ ’صبح ادب‘ شہرت و ناموری یا ادیب کہلانے کے لیے نہیں شروع کیا تھا بلکہ اردو زبان کوفروغ دینے کی ایک واضح فکر اور مقصد تھا۔ ”صبح ادب“ دراصل رسالے سے کہیں زیادہ اردو کی ایک تحریک تھا۔ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے اس بات کو نہایت واضح طورلکھا ہے۔وہ چاہتے تھے کہ سب ملک کر اردو کے مسائل کو سمجھیں اور اس کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کا جذبہ پیداکریں۔ صبح ادب کے اجراکو تقریباًپانچ دہائی گزرچکی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ابھی تازہ ہے۔
ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی(چیف ایڈیٹر) نے صبح ادب کے آغاز اور چند برسوں کی سرگرمیوں کا خاکہ اس طرح مرتب کیاہے کہ سب کچھ آئینے کی طرح روشن ہوگیا ہے۔ واضح پالیسی اورلائحہ عمل کا اندازہ ”صبح ادب“ کے مشاورقی بورڈ میں شامل شخصیات سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ادب کے کیسے روشن اور ذہین لوگوں کو یکجا کیا گیا تھا۔مشاورتی بورڈ میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی،علی سردار جعفری،پروفیسر عبدالقوی دسنوی،ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی،ڈاکٹر خورشید الاسلام،جگن ناتھ آزاد،کوثر چاند پوری اورپروفیسر شارب ردولوی جیسی ادبی شخصیات شامل تھیں۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ کو اپنے زمانے کے ممتاز ادیبوں کا تعاون حاصل تھا۔
صبح ادب کا آغاز نومبر 1974کو ہوا۔پہلے شمارہ کی رسم رونمائی لکھنؤ کے مشہور ہال روندرالیہ میں اتر پردیش کے اس وقت کے وزیر اعلی جناب بہوگنانے کی تھی۔صدارت کنور مہند سنگھ بیدی سحر نے فرمائی تھی جبکہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے نظامت کا فریضہ انجام دیا تھا۔وزیر اعلی کے علاوہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے بھی اس موقع پر خطاب کیا تھا۔ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ”اردو کے شیدائی چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ مشق سخن کرتے رہے ہیں۔اردو کی پوری تاریخ اس طرح کے واقعات سے لبریز ہے۔اس موقع پر مفید اور صحت مند لٹریچر فراہم کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا“ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی کے والد مولانا محمود الحسن علیہ الرحمہ نے اس موقع پر خط لکھ کر جہاں دعاؤں سے نوازاوہیں یہ ہدایت بھی تھی کہ تقریب اجرا میں شیروانی اور پاجامہ زیب تن کریں۔اپنی تقریر سے کسی بھی رسالے یا اردو کے لکھنے والے پر کسی نوع کا طنز نہ ہو نیز وزیر اعلی کا مناسب انداز میں شکریہ اداکریں۔چاپلوسی یا خوشامد نہیں بلکہ ان سے تعاون ملنے کی امید کا اظہار بھی اعتدال کے ساتھ ہو۔
صبح ادب مسعود الحسن عثمانی نے جب جاری کیا تو اس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے۔رسالے کے مشمولات اور اداریے (پہلی کرن)ان کے پختہ ادبی شعور کے غماز ہیں۔ صبح ادب تنوع کا حامل ادبی رسالہ تھا۔ مضامین،افسانے،شاعری،انشائیہ اورفن کار کی تلاش اس کے اہم کالم تھے۔اس کے علاوہ شخصیات اور تعلیم وتحقیق کے عنوانات سے بھی بعض اہم مضامین شائع ہوئے۔فروری 1975سے اپریل مئی 1976تک صفحات پاکستان کے نام سے ایک حصہ مختص ہوتاجس میں وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ابتدائی چند شماروں میں جن کی تحریریں شائع ہوئی ہیں صرف ان کے نام سے ہی رسالہ کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر عبدالقوی دسنوی،راجندر سنگھ بیدی،کوثر چاند پوری،رتن سنگھ،جگن ناتھ آزاد،علی سردار جعفری،فصا ابن فیضی،حرمت الاکرام،ڈاکٹر ولی الحق انصاری،اختر بستوی،عائشہ صدیقی،نازش پرتاب گڑھی،فیض احمد فیض،سلیم اختر،وزیر آغا،ڈاکٹرعنوان چشتی،رضیہ سجاد ظہیر،مغیث الدین فریدیاور اقبال ساجد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔جون جولائی 1978کا مشترکہ شمارہ صبح ادب کا آخری شمارہ تھا۔
جون جولائی 1976کاشمارہ سالنامہ تھا۔نرائن دت تیواری جو کہ اس وقت وزیر اعلی تھے انھوں نے اس خصوصی شمارہ کا اجرا سکریٹیٹ میں کیا۔اس تقریب میں پروفیسر نور الحسن ہاشمی،پروفیسر شبیہ الحسن نونہروی،ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد،شمس الرحمن فاروقی،ڈاکٹر ولی الحق انصاری،رتن سنگھ،احمد جمال پاشا،جناب عمر انصاری،نازش پرتاپ گڑھی،عابد سہیل،محسنہ قدوائی،عمار رضوی اورصبیحہ انورکے علاوہ بہت سے سرکاری افسران بھی شریک تھے۔
صبح ادب میں پہلی کرن کے نام سے اداریے لکھے جاتے تھے۔اداریے مختصر مگر اپنے موضوع پر جامع اورقاری کے جذبے کو بیدار کرنے والے ہوتے۔چونکہ ’صبح ادب‘ کو ایک تحریک کی صورت میں برپاکر نے کی کوشش کی گئی تھی اسی لیے ادیبوں اور شاعروں سے اس کے لیے رابطہ کیاگیا۔رسالہ کی تحریک ایک سرگرم رابطے کی شکل میں ان خطوط میں دیکھی جاسکتی ہے۔چیف ایڈیٹر نے ان خطوط کو ایک امانت تصور کرتے ہوئے پیش کیا ہے کہ یہ کل بھی کارآمد تھے اور آج بھی کار آمد ہیں۔خطوط کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہی اس زمانے کا کوئی بڑا نام ہو جس کا خط شامل نہ ہو۔اجمل اجملی،احمد جمال پاشا،ڈاکٹر امیر عارفی،بشیشر پردیپ،بانی،جگن ناتھ آزاد،جمیل مظہری،وامق جون پوری،حکم چند نیر،حیات اللہ انصاری،کرشن چندر،کنہیا لال کپور،گیان چند جین،گوپی چند نارنگ،مالک رام،پروفیسر محمد حسن، میکش اکبرآبادی،مظفر حنفی،محمد عثمان عارف نقش بندی،مولانا سعید احمد اکبرآبادی،علی سردار جعفری،پروفیسر عبدالقوی دسنوی،پروفیسر عنوان چشتی،علی جواد زیدی،قرۃ العین حیدر،شمس الرحمن فاروقی،فکر تونسوی،فضا ابن فیضی،صالحہ عابد حسین،صغرا مہدی،پروفیسر قمر رئیس،پروفیسر رشید احمد صدیقی،رام لعل،ڈاکٹر شفقت اعظمی اور تارا چند رستوگی وغیرہ کے خطوط شامل ہیں۔یہ خطوط اس عہد کی عام ادبی و شعری صورت حال پر تبصرہ بھی ہیں اور رسالے کے تئیں اپنی توجہ اور سرگرمی کی کہانی بھی بیان کرتے ہیں۔
صبح ادب نے پہلے اداریے (پہلی کرن)سے ہی اپنے مقصد اور طریقہ کار کو واضح کردیا تھا اور یہ بات رفتہ رفتہ مزید واضح ہوتی چلی گئی۔پہلی کرن(نومبر 1974)میں ہی یہ تحریر کردیا تھا گیا تھاکہ یہ رسالہ کسی تنظیم یا تحریک کا ترجمان نہیں ہے بلکہ ہر وہ تحریر جو اردو زبان وادب کی صحت مند قدروں کو پروان چڑھانے میں مددگار ہوگی اس کا استقبال کیا جائے گا۔اداریے کے توسط سے ہی ایسی بعض باتوں کو نمایاں بھی کیا گیا جو زبان کے وسیع تناظر میں کسی طو رپر پسندیدہ نہیں کہی جاسکتی ہیں۔مشہور شاعر کمار پاشی نے مئی 1975میں ایک انٹرویو میں ’اردو کو ایک مردہ زبان قرار دیا تھا‘۔اسی دوران اتر پردیش اردو اکیڈمی نے کمار پاشی کو انعام دینے کا اعلان کیا۔جس کے خلاف ’صبح ادب‘ نے لکھا کہ اردو کو ایک مردہ زبان قرار دینے والے کی امداد واعانت کا کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے۔اس کے بعد تو اترپردیش اردو اکیڈمی اور صبح ادب آمنے سامنے ہوگئے۔رسالے کے موقف کو علی سردار جعفری نے باقاعدہ خط لکھ سراہا۔کمار پاشی نے مسعود الحسن عثمانی کو ایک خط لکھ کر صفائی دی۔بہت سے ادیبوں نے خط لکھ کر کمار پاکشی کے موقف کو نادرست قرار دیا۔اسی طرح قرۃ العین حیدر نے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک موقع پر انگریزی میں خطاب کرنے پربھی صبح ادب نے سخت حیرت کا اظہار کیا تھا۔
ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی کو لکھنے کا ایک خاص سلیقہ ہے۔وہ بہت اہتمام سے لکھتے ہیں اوران تحریروں میں ان کا اپنا موقف نہایت واضح رہتا ہے۔اپنی بات وہ دلیل و براہین کے ساتھ کرتے ہیں اور اسی لیے اسے پڑھتے ہوئے لطف بھی آتا ہے۔ان کی تحریروں میں جو ش کی کیفیت نمایاں رہتی ہے۔وہ اپنے قاری کو اپنے ساتھ بہالے جاتے ہیں۔جگہ جگہ برمحل اشعار،کاٹ دار جملے تحریر کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔کتاب میں شامل ان کی متعدد تحریریں اور اداریے سے ان کے موقف اور طرز واسلوب کا بطور خاص اندازہ ہوتا ہے۔نصف صدی گذرنے کے بعد ان تحریروں کی تازگی برقرار ہے۔
تقریباً نصف صدی گذرنے کے بعد اس ادبی رسالہ کی خوش گواریادوں کو ایک تاریخی امانت کے طور پرجمع کرکے ”یاد نو بہار“ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کردیا گیا ہے جس سے بہر حال ایک خاص زمانہ میں اردو کے مقدمہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اردوکے تئیں طالع آزما سیاست دانوں کے موقف میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اردو زبان سے محبت کرنے اوراس کے مقدمے کو زور دار انداز میں پیش کرنے والوں کی کمی کا اندازہ ہر کس و ناکس کو ہے۔اردو زبان سے محبت کرنے والوں اور اس کے نشیب وفراز پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ زمانہ بہت حال تشویش سے بھرا ہوا ہے۔البتہ تاریخ کے ان ادوار کو جن سے کچھ جاننے اور سیکھنے میں مدد ملے ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔