خواجہ غریب نوازجوخدمت خلق کورضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 03-02-2022
خواجہ غریب نوازجوخدمت خلق کورضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے
خواجہ غریب نوازجوخدمت خلق کورضائے الٰہی کا ذریعہ سمجھتے تھے

 

 

عرس خواجہ معین الدین چشتی پرخاص تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی

اللہ تک پہنچنے کا بہتر راستہ ہے اس کے بندوں کی خدمت کرنا۔ چونکہ اللہ کو اپنی مخلوق سے پیار ہے اور وہ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں لہٰذا صوفیہ کے ہاں بھی اس پر عمل پایا جاتا ہے۔ اللہ والوں کی خانقاہیں ہمیشہ بندگان خدا کے لئے کھلی رہتی تھیں اور یہاں سے ہر کوئی اپنے مسئلے کا حل پایا کرتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ بھی لوگوں کے لئے ہمیشہ پناہ گاہ بنا رہتا تھا اور اسی لئے آپ فرماتے ہیں:

”عاجزوں کی فریادرسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔“ (دلیل العارفین،مجلس۔6)

ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں

 ”جس میں یہ تین خصلتیں ہونگی، وہ اس حقیقت کو جان لے کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول سخاوت دریا کی طرح۔ دوسرے شفقت،آسمان کی طرح۔ تیسرے خاکساری زمین کی طرح۔ فرمایا ، جس کسی نے نعمت پائی ، سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے، صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔“ (سیرالاولیائ، صفحہ128،از امیر خورد)

awaz

اجمیرشریف درگاہ کی ایک قدیم تصویر

اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا ، ان کے دکھ درد میں کام آنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنا اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرنا خواجہ غریب نواز کی زندگی کا مقصد تھا۔ آپ کے بعد جو لوگ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے انھوں نے بھی آپ کے سبق کو یاد رکھا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہے۔ اسی مقصد سے صوفیہ خانقاہیں قائم کرتے تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جگہ جگہ خدمت خلق کی تاکید آئی ہے۔

آپ بار بار اس جانب اپنے پیروکاروں کو مائل کرتے تھے۔خواجہ غریب نواز نے خدمت خلق کا جو کام شروع کیا تھا وہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے اس پر عامل رہے۔ حالانکہ آج خانقاہی نظام مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور جو ہے وہ محض رسمی ہے مگر جن کاموں کی شروعات پہلے ہوچکی تھی اس کی جھلک آج بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ آج بھی خانقاہوں میں لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے جو اسی لنگر کی یاد ہے جو صوفیہ کی خانقاہوں میں چلا کرتا تھا۔ حالانکہ آج کل خانقاہیں صرف نام کی رہ گئی ہیں اور یہ تعلیماتِ صوفیہ کا مقتل بن گئی ہیں۔

awaz

اجمیرشریف:عرس کے موقع پر ازدہام کا منظر

خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ اپنی مجلسوں میں بار بار خدمت خلق کادرس دیا کرتے تھے۔ آپ نے جو اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات جمع کئے ہیں، ان میں مرشد کے حوالے سے حضرت خواجہ حسن بصری کی کتاب آثار الاولیاءکا ایک حصہ نقل کیا ہے :

”صدقہ ایک نور ہے ،صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے اور صدقہ اسی ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے جو پڑھی جائے۔ صدقہ دینے والے روزِ حشر عرش کے سائے میں ہونگے ۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہوگا وہ اللہ کی رحمت سے دور نہ ہوگا۔پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے ،جو صدقہ دیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ شریف زندنی رحمة اللہ علیہ کا لنگر صبح سے رات گئے تک جاری رہتا ، جوکوئی آتا کھا نا کھا کر جاتا ۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر لنگر میں کچھ نہ ہوتو پانی سے تواضع کروکوئی خالی نہ جائے ۔ پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے ،جب وہ چلتا ہے تو نیکیاں اس کے نامہ¿ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔،، انیس الارواح (ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی،مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی)

اسی لئے خدمت خلق سلسلہ چشتیہ میں صدیوں تک جاری رہا اور جب تک اس سلسلے کے صوفیہ موجود رہے وہ خواجہ صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرتے رہے۔ خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد کے کئی اقوال تحریر کئے ہیں جو خدمت خلق کے سلسلے میں ہیں۔ ایک مقام پر ہے:

”جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداءمیں ہوگا ۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے ،اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے ۔ ،، انیس الارواح،مجلس۔

۰۱ ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے :

”میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے ،پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کرکے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں ۔تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔،، انیس الارواح،مجلس۔۰۲

صوفیہ کا ماننا تھا کہ انسان، اللہ کی صفت خلق کا مظہر ہے اور اسی لئے وہ انسان سے بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خدمت سے خوش ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ اس پر زور دیتے ہیں۔