شبِ برأت:مذہبی اورسماجی پہلو

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 15-03-2022
شبِ برأت:مذہبی اورسماجی پہلو
شبِ برأت:مذہبی اورسماجی پہلو

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

شب برات کے تعلق سے ملک بھر کے عالموں اور ائمہ مساجد کی جاب سے اپیل آئی ہے کہ مسلمان اس رات کا اہتمام کریں مگر شرعی حدودوقیود کا خیال رکھیں۔ اس رات کی حرمت کو آتش بازی کے ذریعے پامال نہ کریں۔نوجوانوں سے خاص اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس رات میں بائک لے کرسڑکوں پر اسٹنٹ نہ کریں۔ یہ غیرقانونی ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکت خیز بھی ہے۔اس قسم کی اپیل تقریباً ہر سال شب برات پر کی جاتی ہے مگر اس کا اثر کم ہی دکھائی پڑتاہے۔ 

پندرہوین شعبان کی رات کو شبِ برأت کہتے ہیں۔یہ وہ مبارک رات ہے ،جس کی فضیلت بعض احادیث میں مروی ہے اور اسی کے پیشِ نظر دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمان اس رات میں عبادت، تلاوت، صدقہ و خیرات کا اہتمام کرتے ہیں اور نیک اعمال میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔

اس رات میں قبروں کی زیارت کا سلسلہ بھی عہد قدیم سے چلا آرہا ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ کچھ خلاف شریعت رسوم بھی ہیں جن میں سب سے بری رسم آتش بازی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں اس رات میں عبادت و ریاضت کرنا چاہئے اور دعاء و درود میں رات گزارنی چاہئے وہیں اس رات کو خرافات اور خلاف شرع کاموں سے پاک کرنا بھی لازم ہے۔

شبِ برأت کی آتش بازی

شب برأت کے رسوم میں ایک بہت بری رسم آتش بازی کی ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ملتی باوجود اس کے سینکڑوں سال سے اس کا رواج برصغیر ہندو پاک میں چلا آرہاہے۔

دلی کے حکمراں فیروز شاہ تغلق کے دور میں بھی یہ رواج تھا اور تاریخی حوالوں کے مطابق آتش بازی میں خود بادشاہ بھی شریک ہوتا تھا۔ اس موقع پر پورے شہر میں چراغاں اور آتش بازی ہوتی تھی۔

یونہی دکن کے حکمراں اور حیدر آباد شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں بھی شب برأت کی رسوم کا ذکر ملتا ہے۔

شب برأت کی آتشبازی اور رسوم کا ذکر معروف شاعر نظیرؔ اکبر آبادی کے کلام میں ملتا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان کے عہد میں یہ رسمیں جاری تھیں۔نظیرؔ کی نظم ’’شب برات‘‘ کی ابتدا یوں ہوتی ہے:

کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات

چلپک، چپاتی، حلوے سے ہے بھاری شب برات

زندوں کی ہے زباں کی مزیداری شب برات

مردوں کی روح کی ہے مددگاری شب برات

لگتی ہے سب کے دل کو غرض پیاری شب برات

کتابوں میں مذکور تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں سینکڑوں سال سے شب برأت منائی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ بعض خلاف شریعت رسمیں بھی چلی آرہی ہیں جن سے اس مبارک رات کو پاک کرنا ضروری ہے۔

اس رات میں پٹاخے جلانا نہ صرف اس کی حرمت کے خلاف ہے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی فضول خرچی ہے جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد فرمایا گیا کہ ’’بیشک فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔

بائک اسٹنٹ کی رات نہیں

زمانۂ حال میں شب برأت میں جو رسوم جڑی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نوجوان لڑکے پوری رات ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان اور دوسرے سے تیسرے قبرستان گھومتے رہتے ہیں ۔ یونہی بڑے شہروں میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس رات میں موٹر سائیکلوں پوری رات چکر لگاتے ہیں۔

راجدھانی دلی میں تو عجیب و غریب صورتحال رہتی ہے اور کھلے عام ٹرافک ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور قانون شکن عناضر اس رات میں اس قدر آزاد نظر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پولس اور انتطامیہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔

یہ باتیں شب برأت کی حرمت ہی نہیں بلکہ اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔ راجدھانی میں اس رات سینکڑوں بائیکرس کو سر پر اسلامی ٹوپیاں رکھے ہوئے اسٹنٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ایک بائک پر چار چار جوانوں کی سواری عام بات ہوتی ہے، جن کے سر پر ہلمٹ نہیں ہوتے۔

ظاہر ہے کہ بغیر ہلمٹ کے گاڑی چلانا اور اسٹنٹ کرنا ،دونوں خود کو خطرے میں ڈالنے کے ہم معنیٰ ہیں اور خود کشی کے مترادف ہیں جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ ملکی قانون کی دھجیاں اڑانا بھی اسلام کی نظر میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔

دلی کے تمام ٹی وی چینل شب برأت کے دوسرے دن یہ خبر دکھاتے ہیں کہ رات بھر بائکرس نے شہر میں ہنگامہ مچایا اور پولس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ اسی کے ساتھ اسلامی ٹوپی سر پر ڈالے ہوئے، مسلم نوجوانوں کی ویزول دکھائے جاتے ہیں جو مسلمان اور اسلام دونون کی تصویر کو مسخ کرنے والی بات ہوتی ہے مگر اس کے لئے ذمہ دار بہرحال ہمارے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ وہ مبارک رات جو عبادت کی رات ہے، جو تلاوت قرآن کی رات ہے، جو قبولیت دعاء کی رات ہے، جس میں تجلیات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور جس میں اللہ کی رحمت بندوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اس میں دعاء و درود سے غافل ہوکر فضول کاموں میں وقت گذارنا کس قدر محرومی اور بد قسمتی کی بات ہے؟