ماہ مبارک کو الوداع کہتے ہوئے کیا ہم نے روزے کے مقاصد حاصل کر لیے ہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
 مولانا سراج الدین ندویؔ
مولانا سراج الدین ندویؔ

 

 

 مولانا سراج الدین ندویؔ

رمضان کا مبارک مہینہ اپنے آخری لمحات میں داخل ہوچکا ہے۔اب ایک سال بعد ہی یہ مبارک ساعتیں ہمیں حاصل ہوں گی۔ان شاء اللہ اس موقع پر ہمیں احتساب کرنا چاہئے کہ روزے کے جو مقاصد قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں کیا وہ ہم نے حاصل کر لیے ہیں۔روزہ کا مقصد قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے شاید کہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے (البقرۃ: 183)“۔

تقویٰ اُس جوہرِ اخلاق کا نام ہے جو خدا کی محبت اور خدا کے خوف سے مل کر پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی رحمت اور اس کے بے شمار احسانات کے حقیقی شعور سے انسان کے اندر خدا سے محبت کاجذبہ ابھرتاہے، خدا کے قہر وغضب اور اخروی سزاؤں کے تصور سے خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے، حق و باطل کے درمیان تمیزپیدا ہوجاتی ہے۔ اس جذبہئ محبت و خوف سے مل کر دل میں جو کیفیت پیداہوتی ہے اس کا نام تقویٰ ہے۔ یہ قلبی کیفیت روزہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان جب شدید پیاس کے وقت میٹھے اور ٹھنڈے پانی کو دیکھتاہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ چند گھونٹ ضرور پی لے مگر وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کے قہر سے بچنے کے لیے ایسا نہیں کرتابکہ اس حلال اور جائز پانی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے بھلا وہ مومن شخص کسی حرام چیز کی طرف کیسے ہاتھ بڑھا سکتاہے۔ پورے ایک مہینے کی یہ مشق مومن کے اندر صفت ِ تقویٰ پیدا کردیتی ہے۔ اس طرح تقویٰ تمام نیکیوں کاسرچشمہ اور تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کا یقینی ذریعہ ہے۔

تقویٰ کی صفت کیوں پیدا کرائی جارہی ہے، یہ بھی غور کرنے کی بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا اور قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بنیادی صفت جو ضروری ہے وہ تقویٰ ہے۔ سورہ بقرہ کے ابتدا میں کہا گیا ”ہُدیً للمتَّقِینَ“ یہ قرآن متقیوں کے لیے رہ نمائی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور تقویٰ روزے سے حاصل ہوتاہے۔

روزے کاایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر جذبہٗ شکر پیدا ہو۔اس لیے کہ قرآن میں فرمایا گیا:رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے سامانِ ہدایت ہے، اس میں ہدایت کے واضح دلائل اور حق و باطل میں امتیاز کے واضح ثبوت ہیں (البقرۃ: 185)۔

رمضان کے مبارک مہینے میں قرآن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا اور بنی نوعِ انساں کو قیامت تک کے لیے ایک نسخہئ کیمیا عطا کیا گیا۔ اس نعمت ِ ہدایت کا شکریہ ہم روزہ رکھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں تک بھی قرآن کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے اندر صفت ِ شکر پیدا ہوتی ہے، ہر نعمت اور احسان کی قدر کرنے اور اس پر شکر گزار ہونے کی عادت پڑتی ہے۔ روزے کا یہ مقصد و فائدہ بھی قرآن پاک میں بیان کیاگیا۔ قرآن پاک میں یہ بتانے کے بعد کہ رمضان کے مہینے میں قرآن اتارا گیا ہے اور جو رمضان کا مہینہ پائے وہ ضرور روزہ رکھے، فرمایا گیا: ”تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، ہوسکتاہے کہ تم شکر گزار ہوجاؤ“ (البقرۃ: 185)۔

روزے کے ذریعہ نفس کو کھانے پینے اور خواہشوں سے باز رکھ کر اسے صبر کا عادی بنانا بھی مقصود ہے۔ اس لیے طاعات پر جمے رہیے اور معاصی سے مکمل اجتناب کیجیے۔ کوئی شخص آپ کے ساتھ برا سلوک کرے یا آپ کو مشتعل کرنا چاہے تو اپنے جذبات کو برانگیختہ نہ ہونے دیجیے۔ اگر کوئی آپ کی تحقیر و تذلیل پر آمادہ ہو تو آپ جواباً حقارت آمیز رویہ نہ اپنائیے بلکہ صبر و تحمل سے کام لے کر انظر انداز کردیجیے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ”تم میں سے جو کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزے دا رکو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزے دار ہوں، میں کیسے گالم گلوچ اور لڑائی کرسکتاہوں “ (بخاری)۔

روزے سے صبر کی صفت پروان چڑھتی اور پائے دار ہوتی ہے۔ انسان بھوک پیاس کو برداشت کرکے راہ ِ حق میں مختلف مصائب و مشکلات کوبرداشت کرنے کا عادی ہوجاتاہے۔ شدید گرمی میں بھوک اور پیاس کی شدت مومن کے روزے میں کوئی خلل نہیں ڈال پاتی، ٹھیک اسی طرح نرم و گرم حالات میں بھی مومن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آسکتی۔ چنانچہ حضور ؐ نے فرمایا: ”رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے “ (بیہقی)۔

روزے کے مقاصد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان بھوک اور پیاس کی حالت میں ان لوگوں کی کیفیت کااندازہ کرسکے جو ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں تاکہ انسان میں دوسروں کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کا جذبہ پیداہوسکے۔ رمضان المبارک میں جذبہئ غم خواری کو پروان چڑھائیے، باہم الفت ومحبت، رحم دلی ونرم خوئی، نصح وخیر خواہی، ہمدردی و دل جوئی، اخلاص و مروت اور اخوت و بھائی چارگی کاماحول پیدا کیجیے۔ بیواؤں، یتیموں او رغریبوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور سب کے لیے غم گساربن کر اس ماہ کے فیوض و برکات سمیٹنے کی کوشش کی کیجیے۔پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”رمضان غم خواری کا مہینہ ہے “ (متفق علیہ)۔

 حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ فیاض تھے۔ رمضان آتے ہی آپ سب سے زیادہ فیاض ہوجاتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:”جب رمضان کامہینہ آتا تو آپؐ پہلے سے زیادہ سخی ہوجاتے۔“ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے:”جب رمضان کا مہینہ آتاتو پیارے نبیؐ ہر قیدی کو آزاد کردیتے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے“ (بیہقی)۔

روزہ کا مقصدجائز خواہشوں پر کنٹرول کرنا بھی ہے۔ جو انسان دن بھر جائز طریقے پر بھی نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے رُکا رہتا ہے، بھلا وہ ناجائز طریقے سے کس طرح اپنی خواہشیں پوری کرسکتاہے۔ بھوک اور پیاس سے انسان کو ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا ضرورت مند ہو مگر اس کے معاشی حالات اجازت نہ دیتے ہوں تو اسے روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور روزے کو اس کے حق میں تریاق بتایا گیاہے۔

روزہ نہ صرف نفسانی خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت عطا کرتا ہے بلکہ جملہ برائیوں سے محفوظ رکھتاہے۔ روزے دار کو ہر آن یہ شعور ہوتاہے کہ نہ صرف کھانا پینا اس کے روزے کو فاسد کرسکتاہے بلکہ وہ ہر آن احتساب کرتا رہتاہے اور ہر برائی سے اجتناب کی کوشش کرتاہے،کیوں کہ وہ جانتاہے کہ کسی بھی برائی کے ارتکاب کی صورت میں اسے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور اس کے سامنے ہر وقت پیارے نبیؐ کا یہ ارشاد رہتاہے: ”کتنے ہی روزے دار ہیں جنھیں اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

روزے کامقصد انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے بلکہ معصیت ونافرمانی سے بچنے اور طاعت و فرماں برداری کا عادی بنانا ہے۔ اگر روزہ رکھ کر بھی انسان برائیوں سے نہ بچ سکے تو ایسے روزے سے بھوک پیاس کے سوا آدمی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو ورزہ دار ہو نہ وہ بدکلامی و فضول گوئی کرے اور نہ شور شرابا۔ اگر کوئی اس کو گالی دے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں (متفق علیہ)۔

رمضان کے آخری لمھات سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کی بھر پور کوششیں کریں۔تاکہ ہماری زندگی اسلامی زندگی کا نمونہ بن سکے۔