مہاتما گاندھی کی یاد میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-10-2021
مہاتما گاندھی کی یاد میں
مہاتما گاندھی کی یاد میں

 

 

awaz

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

دو اکتوبر1869 کو جس بچّے نے کاٹھیاواڑ گجرات کے ایک بااثر اور باعزت خاندان میں جنم لیا، جس نے اپنی ماں سے سناتن دھرم کی پرمپرا اور ہندو دھرم کے سنسکاروں کو سیکھا، جس نے بائیبل کا مطالعہ صرف مذہبی آگہی کے لئے ہی نہیں کیا بلکہ اس سے انگریزی زبان کی خوبیوں کا بھی ادراک حاصل کیا۔

جس نے جنوبی افریقہ میں اپنے مسلمان دوستوں کے ذریعے اسلام کی بنیادی اوصاف کی جانکاری حاصل کی، غلامی اور نسلی تفریق کے خلاف پہلا قدم اٹھایا اور جب وہ ہندوستان واپس آیا تو اس نے برطانوی سامراج کے تسلط کے شکار ہندوستان کا دورہ کیا۔

یہاں کے عوام کی اکثریت کی غربت، افلاس اور ناداری کے بھیانک مناظر دیکھے، انگریزوں کا جبر، استحصال اور بہیمانہ رویہ کو دیکھا اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ برطانوی استعمار کو شکست دینے کے لئے اور ہندوستان کو ان کے قبضے سے آزادی دلانے کے لئے تمام ہندوستانیوں کو بیدار کرنا چاہیے، اور وہ جانتے تھے کہ نہتے، مظلوم اور معصوم اس جنگ کو تشدد اور طاقت کے ذریعے نہیں جیت سکتے۔

اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ عدم تشدد وہ ہتھیار ہے جس کا غیرملکی حکمراں بہت دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس ہتھیار کا اگر صحیح ڈھنگ سے موثر حربے کے طور پر استعمال کیا جائے تو غیرملکی استبداد کو ایک نہ ایک دن پسپائی اختیار کرنی ہی پڑے گی۔

اب اس سب کے بعد کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس عظیم انسان کا نام موہن داس کرم چند گاندھی تھا۔ جو ایک راسخ العقیدہ ہندو بھی تھے اور فراخ دل، کشادہ ذہن، انصاف پسند، حق کے طرف دار، سچے ہندوستانی اور اپنے انہیں  اوصاف کی بنا پر انہیں ”سابرمتی کا سنت“ بھی کہا گیا اور تقریباً تمام ہندوستانیوں نے انہیں بلاشبہ راشٹرپِتا تسلیم کیا۔

موہن داس کرم چند گاندھی جنہیں ان کے ہم عصر اور آنے والی پیڑھیوں نے مہاتما کے نام سے جانا، انہوں نے ہندو دھرم کی سناتن پرمپرا پر چلتے ہوئے ایک شمولیت پسند (inclusiveness)رویہ اپنایا اور ایشور اور اللہ کی یکجائی کا پاٹھ پڑھایا۔

جنہوں نے ایک سچے سنت کے روپ میں اپنی زندگی کو اس سطح پر گزارا کہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والا بھی اپنے آپ کو ان سے ہم آہنگ کر سکے۔ انہوں  نے ایک دفعہ جب اہنسا کے نظریہ کو اپنے فکروعمل کا محور بنا لیا تھا پھر اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ایسا نہیں کہ صرف انگریزوں نے انہیں  قید و بند کا شکار کیا بلکہ ان کے اپنوں نے بھی اکثر مواقع ان کی عدم تشدد کی پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی اور انہیں برا بھلا کہنے سے بھی باز نہیں آئے۔

مہاتما گاندھی نے فرقہ واریت اور فسطائیت کو کبھی روا نہیں رکھا بلکہ اس کے خلاف وہ سینہ سپر ہوکر سامنے آئے۔ مہاتما گاندھی نے صرف ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی سربراہی نہیں کی بلکہ انہوں نے معاشی استحصال کے خلاف نمک ستیہ گرہ، کھادی کے فروغ اور سودیشی کو مقبول عام بنانے کے لئے بھی نمایاں کام کیا۔

چرخہ جس کو وہ اور ان کے ساتھی اور پیروکار سوت کاتنے اور اس سے سودیشی کپڑا تیار کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے وہ معاشی طور پر خودمختاری اور خودانحصاری کی ایک علامت تھا۔

مہاتما گاندھی نے صرف معیشت اور سیاست کے میدان میں ہی اپنے گہرے نقوش ثبت نہیں  کئے بلکہ تعلیم کے میدان میں بھی انہوں نے گراں قدر رول انجام دیا۔ خود جامعہ ملیہ اسلامیہ 29 اکتوبر 1920 کو مہاتما گاندھی کے آشیرواد سے وجود میں آئی۔گاندھی جی کی واردھا ایجوکیشن اسکیم نے عہد غلامی میں ہمیں  وہ قومی تعلیمی پالیسی عطا کی جس میں علم و ہنر کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کر دیا گیا تھا اور یہ کم دلچسپ بات نہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں یہ پالیسی وضع کی گئی تھی تو پھر فطری طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں ہی اس کا پہلا اور کامیاب تجربہ سامنے آیا۔

ایک ایسے زمانے اور سماج میں  جہاں رؤساء اور جاگیرداروں کا ایک مٹھی بھر طبقہ نہ صرف زعم کا شکار تھا اور اپنے غیرملکی آقاؤں کے بَل پر محنت کشوں اور دست کاروں کو حقارت سے دیکھتا تھا اور کمین کہہ کر پکارتا تھا وہاں علم وہنر کی اس یکجائی نے نہ صرف یہ کہ تعلیم میں کسی ثنویت (Duality)کو ختم کیا بلکہ دستکاری کی اور دستکاروں کی عظمت کو بھی بحال کرنے کی کوشش کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی نہیں بلکہ گجرات ودیا پیٹھ، کاشی ودیا پیٹھ اور نیشنل کالج لاہور جیسے ادارے اسی سوچ کے نتیجے میں وجود میں آئے۔

گاندھی جی نے ذات پات کے نظام پر بھی ضرب لگانے کی پوری کوشش کی اور ایک سناتن دھرمی روایت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے دلت جنہیں شودر کہا جاتا تھا ان کے ساتھ ایک نیا اور باوقار رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی۔ بالکل ویسا ہی رشتہ جیسا کہ شری رام نے شبری کے جھوٹے بیر کھا کر قائم کیا تھا۔

آزادی کے بعد ہندوستان میں ڈاکٹر امبیڈکر کو جو احترام دستورساز اسمبلی میں ملا اور آزادی سے قبل بھی چھوا چھوت کے خلاف بابا صاحب بھیم راوامبیڈکر کی کوششوں کو جس طرح مہاتما گاندھی نے سمجھا اور ہزاروں سال سے چلی آ رہی نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا اس میں ان کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مہاتما گاندھی ملک میں ہر طرح کی فرقہ وارانہ تقسیم کے سخت مخالف تھے۔

وہ تمام ہندوستانیوں کو یکساں طو ر پر پسند کرتے تھے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ جنون کی وہ آندھی چلی کہ 15 اگست 1947کو جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو وہ اپنے ساتھ ملک کی تقسیم کو لے کر آیا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں اپنے ہی گھروں میں بے گھر ہوکر رہ گئے۔ لیکن مہاتما گاندھی کے لئے آزادی کا یہ مژدہ، جاں  فزاں نہیں بلکہ سوہان روح تھا۔

جب ہندوستان آزادی کا جشن منا رہا تھا تو گاندھی بنگال کے نواکھالی میں مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے دیوانہ وار پھر رہے تھے اور بعد میں کلکتہ میں انہوں نے فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف اپنا انشن شروع کر دیا اور ان کی شخصیت کی مقناطیسیت اور اخلاقی اہمیت ہی تھی کہ فرقہ وارانہ جنون تھم سا گیا اور ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان کی تقسیم مذہب کے نام پر ہوئی تھی اور کچھ لوگ ہمارے یہاں بھی ایسے تھے جو چاہتے تھے کہ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔

یہ گاندھی جیسے مہاتما کی کرشماتی شخصیت کا ہی اثر تھا جس نے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر نہ بنا کر سیکولر جمہوری ہندوستان بنانے کی تائید کی اور یہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں  نے اپنے خون سے ہندوستان کی عظمت، ہندو مت کی رواداری کو نئی سرخی عطا کی۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہندوستان کو جناح کے راستے پر نہیں گاندھی کے راستے پر ہی لے جائیں گے اور کسی طرح کے تعصب، تفریق اور فرقہ واریت کو پنپنے نہیں دیں گے۔

نوٹ:مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔