سر سید ڈے اسپیشل: سرسید کی یاد میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-10-2021
سرسید کی یاد میں
سرسید کی یاد میں

 

 

awaz

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

آج 17 اکتوبر ہے۔ یہ تاریخ بھی دوسری تاریخوں کی طرح ہر سال آتی ہے اور گز رجاتی ہے۔ کچھ لوگ اس کو یاد بھی کرتے ہیں۔ اس تاریخ کے نام پر دعوتیں بھی اڑاتے ہیں، اس کو منانے کے لیے جلسے اور محفلیں بھی منعقد کرتے ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو 17/اکتوبر کی تاریخ دیتی ہے۔

دراصل یہ تاریخ اس عظیم ہستی کا یوم پیدائش ہے جو 19ویں صدی کی نہایت متنازع فیہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ ساز، ہمہ گیر، عہد آفریں اور عبقری شخصیت ہے۔ یعنی سرسید احمد خاں 17/اکتوبر کو ہم ان کے یوم پیدائش کے طور پر مناتے ہیں۔

سرسید کسی ایک فرد یا ادارہ کا نام نہیں ہے۔ سرسید ایک پوری قوم اورایک ملت کے لئے مسیحا نفس کا نام ہے۔ یہ سرسید تھے جنہوں نے نہایت قدامت پرستی اور نابینا دقیانوسیت کی کوکھ میں پرورش پائی اور پھر اپنی مجتہدانہ بصیرت اور روشن خیالی سے ایک نیا جنم لیا۔ اور انہوں نے اپنے لیے ایک نیا جہاں، ایک نئی دنیا، اور نئے زمین و آسماں پیدا کیے۔

سرسید کا ایک رنگ گردش زمین سے متعلق ان کے رسالے میں نظر آتا ہے تو دوسرا رنگ جدید علوم کے تجرباتی منہاج کی وکالت میں نظر آتا ہے۔ ان کی زبان کا ایک اسلوب آثار الصنادید میں نظر آتا ہے تو دوسرا رنگ تہذیب الاخلاق کے صفحات میں نظر آتا ہے۔

ان کی فکری جولانیاں خطبات احمدیہ میں نظر آتی ہیں تو ان کی وسیع المشربی تبیین الکلام میں نظر آتی ہے۔ ان کی مجتہدانہ بصیرت رسالہ طعام اہل کتاب میں نظر آتی ہے تو روایت پسندی عہد وسطیٰ کی میراث کے احیاء کی کوششوں میں نظرآتی ہے۔ سرسید کو کسی ایک سمت یا ایک پہلو میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔

انہوں نے اگر سرکشی ضلع بجنور لکھی تو اسباب بغاوت ہند بھی لکھی۔ وہ نہ سلطان جابر سے ڈرے اور نہ جمہور جائر سے۔ ان کی اولوالعزمی نے ان کو وہ حوصلہ دیا کہ ایک طرف وہ ہم وطنوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کرتے رہے تو دوسری طرف غاصب قوتوں کو بھی برابر ان کی زیادتیوں سے ٓاگاہ کرتے رہے۔

انہوں نے اپنے حالات و ظروف کو سامنے رکھتے ہوئے انگریزوں سے تعاون و تعامل کا راستہ اختیار کیا۔ اس سے ایک بار نہیں سو بار اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن ہندوستان کے لیے اورقوم کے لیے ان کے خلوص کو کسی شک و شبہ کی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔

انہوں نے 1857ء میں ہندوستان کی زبوں حالی اور بے کسی کو دیکھا انگریزوں نے ان کی خدمات کے صلے میں ان کو جاگیر دینی چاہی لیکن ان کی طبعیت نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ اپنے بھائیوں کی چھینی جاگیریں خود قبول کرلیں۔ سرسید کوئی سیاسی مدبر نہیں تھے لیکن قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے واقف تھے۔

انہوں نے چشم بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ ہماری قوم زوال پذیر ہے۔ اس مرحلہ پر ایک عام آدمی کے لئے دو طریقے تھے یا تو اسلاف کے ناموس کے نام پر حالات سے ٹکرا جائے اور مر مٹے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ حالات کا جائزہ لے کر اپنی پستی کے اسباب و علل کو تلاش کر کے ان کا حل تلاش کیا جائے۔

سرسید نے یہی راستہ اختیار کیا۔ قوم کے مرض کی شناخت کی اور اس کے لیے دواء شافی تجویز کی۔ سرسید کا مطالعہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم کی کمی ہے۔ اس لیے انہوں نے تعلیم کو عام کرنے کی جدوجہد کی۔

یورپ جاکر وہاں کے طریقہ تعلیم کا مطالعہ کیا اور اس کی اشاعت کے لیے باضابطہ ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ جس کی ضیاء باری آج بھی جاری ہے اور ہندوستان کے باہر بھی اس کا فیضان پہنچا ہوا ہے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں میں سماجی اصلاح کی ضرورت ہے اس کے لیے انہوں نے تہذیب الاخلاق کے نام سے ایک رسالہ نکالا جس سے نہایت آسان زبان میں اصلاحی مضامین کے ذریعے قومی بیداری کی مہم شروع کی۔

تیسرا پہلو یہ تھا کہ انہوں نے جدید علوم اور تجرباتی علوم کو ہندوستان میں عام کرنے کے لیے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مغرب میں شائع ہونے والی اعلی علمی و تحقیقی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے اور یہاں بھی تحقیق و تصنیف میں وہی معیار اختیار کیا جائے۔

سرسید احمد خاں کی تحریک نے بلاشبہ ہندوستان کے اندر اور خاص طور پر مسلمانوں میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ اہل علم و دانش کی ایک کھیپ تیار ہوگئی جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین میں اعلی درجہ کی تحقیق اور سائنٹفک رجحان کی حامل تحریریں تیار کیں۔

سرسید احمد خاں کا خواب یہ تھا کہ مسلمان تعلیم و اخلاق کے میدان میں ترقی کریں۔ وہ تعلیم کو اخلاق سے وابستہ کرتے تھے معاش سے نہیں، ان کا خیال تھا کہ اعلی تعلیم سے انسان کا اخلاق اور کردار بلند ہوگا۔ معاش کے لیے ملازمت ضروری نہیں ہے معاش کے دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ اصل مسئلہ اعلی تعلیم کا حاصل کرنا ہے جو انسان کے اخلاق و کردار کو بلندی عطا کرے۔ سرسید نے قوم کی اصلاح اور اعلی تعلیم کا بیڑا آج سے کم وبیش 150 سال قبل اٹھایا تھا۔

وہ قوم کے لیے جیئے اور قوم کی فکر میں مر گئے۔ ان کے عہد میں قوم کے لیے اتنی دردمندی رکھنے والی کوئی دوسری شخصیت نظر نہیں آتی اور ان کی مساعی جمیلہ مشکور بھی ہوئیں۔ قوم نے کروٹ لی اعلی تعلیم کا رجحان پیدا ہوا۔ ذوق تحقیق نے جلا پائی، چراغ سے چراغ جلے اور مسلمانان ہند کے افق پر علی گڑھ ایک انقلاب آفریں آغاز بن کر طلوع ہوا۔ لیکن منزل ہنوز دور ہے۔

سرسید تھے تو ہم یہاں ہیں اور اگر سرسید بھی نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے؟ یہ کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں سرسید اوران کے نامور رفقاء نے بیسویں صدی میں ہمارے داخلے کی ساری تیاریاں کردی تھیں اور اس صدی میں جو تھوڑی بہت عزت عافیت اور فراخی ہمارے پاس آئی ہے یہ دراصل ان ہی کے فیض اور صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے، لیکن آج جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے خود ہم نے کیا تیاریاں کی ہیں؟

اپنی آنے والی نسلوں اور ان کے خوش آیند مستقبل کے لیے کون سے منصوبے بنائے ہیں؟ یہ سوالات اس لیے بھی اہم ہیں کہ غربت، جہات اور اجتماعی سطحوں پر وہ تمام خرابیاں اب بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جن کو دور کرنے کے لیے سرسید اور علی گڑھ تحریک میں شامل ان کے ساتھیوں نے جدوجہد کی تھی۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز)ہیں۔