مذہبی جنون: ملک دشمنی کی علامت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 مذہبی جنون: ملک دشمنی کی علامت
مذہبی جنون: ملک دشمنی کی علامت

 

 

awazthevoice

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

 گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا کی خبریں دیکھ کر دل بے چین اور پریشان ہے۔ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں کہ مذہبی تہوار کے معنی خوشی کی بجائے فساد، ہنگامہ آرائی اور نفرت بن گیا ہے۔

 کیا اسی دن کے لیے ہمارے ملک کے ہیروز نے 200 سال تک اپنی شہادتیں دے کر آزادی حاصل کی تھی۔ فرنگی سرکارکےملک سےنکلنےکے75 سال بعد بھی ہم ان کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے غلام بنے ہوئے ہیں۔آنکھیں دیکھ تورہی ہیں،مگردل اندھا ہوگیا ہے۔ یہ کیسا دل ہے،جواپنےملک کے بہن بھائیوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔ نہیں، یہ ہندوستانیوں کا دل نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ پتھر ہے جن کے بارے میں اردو زبان کے معروف شاعربشیر بدر نے لکھا تھا:

لوگ ہر دھڑکتے پتھر کو دل سمجھتے ہیں

دل کو دل بنانے میں عمریں بیت جاتی ہیں

کیا واقعی ان دلوں کو بحال کرنےمیں مزید وقت لگے گا جنہیں انگریزوں نے مذہبی جوش کے زہر سے پتھر بنا دیا۔ اور نفرت انگیز ہجوم کو کوئی کیسے بتا سکتا ہے کہ وہ کسی ایک مذہب، فرقے یا ذات کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے پیارے ہندوستان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہندوستان کوئی عام ملک نہیں ہے۔اس کی تہذیب و تثقافت ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ جیسا کہ رگھوپتی سہائےفراق گورکھپوری نے کہا تھا:

سر زمین ہند پر اقوامِ عالم کے فراق

قافلے بستے گئے، ہندوستان بنتا گیا

اس زمین پرمختلف رسوم و رواج اور مذاہب کے لوگ ہزاروں سالوں سے رہتےآرہے ہیں۔ جب انگریزوں نے اس ملک میں اپنے قدم جمانا شروع کیے تو ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ مٹھی بھر فرنگی ہندوستان جیسے بڑے ملک پر کیسے حکومت کریں گے؟ یاد رہے کہ اس وقت کا ہندوستان رقبے کے لحاظ سے آج کے ہندوستان سے بڑا تھا۔

موجودہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما ہمارے اس وقت کےغیرمنقسم ملک کا حصہ تھے۔ ایسے میں انگریزوں نے 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی پر کام شروع کیا۔ نیزانہوں نے ہندوستان کی اس عظیم تہذیب و ثقافت میں رخنہ ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ لوگوں میں یہ بابر کرانےکی کوشش کرنے لگے کہ اس ملک کے مختلف گروہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کشمکش میں رہتےآرہے ہیں۔

 سب سے پہلے انگریزوں نے تاریخ پڑھانے کا طریقہ بدلا اور قدیم دور کو ہندو دور اور قرون وسطیٰ کو مسلم دور کہا۔ تمام حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے ہندو اور مسلم کو دو متضاد گروہ قرار دینا شروع کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بتائے ہوئے مسلم دور میں ہندو حکمرانوں نے بھی ملک کے بڑے حصے پر حکومت کی۔ لیکن انہیں تقسیم کرنا تھا، سو انہوں نے کروایا۔ ان کے اس اقدام کو آزادی کے چاہنے والوں نے اچھی طرح سمجھا۔  ویرساورکرکو ہندوتوا کا بانی کہا جاتا ہے، انہوں نےاپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی مادر ہند کے بیٹے ہیں۔

وہیں اسلامی نظریات کے حامل معروف بزرگ سید احمد بریلوی نے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے انگریزوں کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس 1930 کی دہائی سے کہہ رہے تھے کہ برطانوی راج ملک میں ہندو مسلم انتشار بڑھا کرخود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہےاور جب اسے آزادی دینے پر مجبور کیا جائے گا تو وہ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی۔ نیتا جی کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے انگریزہندوستان کوایک کمزور ملک بنا دیں گے۔ کیانیتا جی کتنے درست تھے؟

نیتاجی اوردیگرقوم پرست ہیروز کا ماننا تھا کہ انگریزوں نے صرف مذہب ہی نہیں زبان اور ذات پات کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کیا ہے۔ ملک میں بہت سی زبانیں تھیں، اس سےانکارنہیں؛لیکن ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو کانپور کا رہنے والا مجنو شاہ 1760 کی دہائی میں انگریزوں کے خلاف فقیر سنیاسی کی بغاوت میں بنگال اور اڑیسہ کے کسانوں کی قیادت کیسے کرتے؟ایسی ذات پات کےنام پرجو نفرت پھیلائی جاتی ہےوہ پہلےموجود نہیں تھی۔

اس تقسیم کی وجہ سے ہمارے ہم وطن چھوٹے چھوٹےگروپ بناکرآپس میں لڑتے رہے اور برطانوی راج کا مقابلہ نہ کر سکے۔ انگریزجس طاقت سے ڈرتے تھے وہ ہندوستان کا اتحاد تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہندو، مسلمان اور سکھ متحد ہو جائیں تو ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں کہ انگریز کبھی کسی مسلم لیگ یا ہندو مہاسبھا سے نہیں ڈرے تھے لیکن وہ اس دن ڈر گئے جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان اور ہندو مل کر رام نومی منا رہے ہیں۔ محرم کے جلوس میں ہندو ایک ساتھ چل رہے ہیں۔ لاہور کی سب سے بڑی مسجد میں جمعہ کو ایک ہندو تقریر کر رہا ہے۔

اس کا جواب انگریزوں نےامرتسر کے جلیانوالہ باغ میں نہتے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں پر گولی چلا کر دیا۔ یہ انگریزوں کی فتح نہیں تھی۔ جلیانوالہ دراصل ان کے پاگلپن کی نشاندہی کر رہا تھا۔ انگریزوں کا ڈر اس وقت دکھا جب انہوں نے شنکراچاریہ کو عدالت میں گھیسٹ لایا کہ کیوں کہ شنکراچاریہ نے تحریک خلافت کے فتوے کی کھل کر حمایت کی تھی۔ اب انگریرزون کو ڈرلگنے تھا کہ کہیں ہم ایک نہ ہو جائیں۔

وہ اس مولانا ابوالکلام آزاد سے ڈرتے تھے، جنہیں ہندوستان کی سب سے بڑی جماعت کے ہندوؤں نے اپنا صدر بنا کر آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ وہ اس راجا مہندر پرتاپ اور مولانا عبید اللہ سے ڈرتے تھے جنہوں نے مل کر ہندوستان کی آزادی کے لیے جلاوطنی کے دوران حکومت بنائی تھی۔ انگریزآزاد ہند فوج سے ڈرتے تھے، جہاں نیتا جی کے ساتھ ایک مسلمان عابد حسن کام کر رہے تھے، جن کے افسر بھونسلے اور حبیب الرحمان بھی تھے۔ وہ اس نیتا جی سے ڈرتے تھے جو ٹیپوسلطان کے خواب کو پورا کرنا چاہتے تھے اور جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی شہادت کو امر کرنا چاہتے تھے۔  وہ بہادر شاہ ظفر کی دہلی کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ جس کے سپاہی ہندوستانی تھے نہ کہ ہندو، مسلم، سکھ، بنگالی، پنجابی یا مراٹھی۔ انگریز ان سب سے خوفزدہ تھے۔ انگریزوں نے ان پر سب پرجبرکیا، لیکن کیا وہ ایسا کر سکے؟

 دوسری طرف جس نے ہندو مسلم علیحدگی کی بات کی، برطانوی راج نے اسے سر پر بٹھا دیا۔ کیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ ہمیں کیسے جینا ہے؟ آج ملک میں کچھ لوگ ہندوؤں اور مسلمانوں کو بانٹ رہے ہیں۔ دلوں میں نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ کیا آپ اپنے ملک کو نیتا جی کے خوابوں کا ہندوستان نہیں بنانا چاہتے؟ آپ اسے کیا بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ملک کبھی ترقی نہیں کرے گا؟ کیا ہم انگریزوں کو ان کے منصوبوں میں کامیاب ہونے دیں گے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اردو کے مشہور شاعرعلامہ اقبال نے کیوں لکھا تھا:

 یونان ومصرو روما سب مِٹ گئے جہاں سے

اب تک مگر ہے باقی نام و نشان ہمارا

یہ تہذیب اپنی وسودھیو کٹمبکم کی روایت کی وجہ سے زندہ ہے اور اگر اس روایت کو ہماری نفرت پر قربان کر دیا جائے تو وہ ثقافت کہاں رہے گی جس پر ہمیں فخر ہے؟ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو یاد کرتے ہوئے، میں یہاں آپ سے درخواست کروں گا کہ یہ اس ملک کا وجود باقی رہنا چاہیے۔اس ملک کو اور یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو نفرت کی آگ سے بچائیں۔  یاد رکھیں جو بھی لیڈریا سیاست دان، مذہبی رہنما یا میڈیا والے آپ کو مذہب کے نام پرلڑا رہے ہیں، وہ ان انگریزوں کے ایجنٹ ہیں جو آج بھی ہمارے وطن عزیزکوعالمی لیڈر بنتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔