مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-04-2022
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

 

 

awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

 ماہِ رواں میں جو کچھ ہمارے ملک میں ہوا، خاص طور سے مدھیہ پردیش، گجرات، کرناٹکا، جھارکھنڈ، راجستھان اور دہلی میں، وہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے اور شرمندہ کرنے والا بھی۔سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ مریادا پروشوتم رام کے نام پر اکثر جگہوں پر یہ کھیل کھیلا گیا۔ اگر کچھ لوگ اس بھول میں ہیں کہ وہ اس ملک کو مسلمانوں کے لئے اسپین بنا سکتے ہیں تو وہ اس غلط فہمی سے جتنی جلدی نکل آئیں بہتر ہے۔

اسی طرح اس ملک کو اسرائیل بنانے اور فلسطینیوں کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی ہر کوشش ناکام ہی ہونی ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور ایک دفعہ پھر کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو بظاہر مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں وہ نہیں جانتے کہ وہ مسلمان کا نہیں ہندوستان کا نقصان کر رہے ہیں۔ دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغدار ہو رہی ہے انہیں اس کا خیال نہیں ہے۔

جس ملک میں اس طرح کا فرقہ وارانہ تناؤ اور تشدد سامنے آتا ہو، جہاں ٹکراؤ کی صورتحال روز بروز کہیں نہ کہیں سامنے آتی ہو وہاں باہر کی دنیا سے کون اِنویسٹ کرے گا؟ خود ملک کی صنعت اور کاروبار متاثر ہوں گے۔ ہندوستان جو دنیا میں اپنی سیکولر جمہوریت، غیرجانبداری اور حق پسندی کے لئے جانا جاتا تھا وہ کس طرح اپنی اس پہچان کو کھو سکتا ہے اس کی کسی کو فکر نہیں۔

 کھرگون سے کرناٹکا، گجرات سے دہلی تک جو کچھ ہوا اس میں بھی سب اندھیرا ہی اندھیرا نہیں ہے۔ کرولی (راجستھان) میں ایک بہادر خاتون مدھولکا سنگھ راجپوت نے جس طرح ہمت و جرأت سے فسادیوں کا سامنا کیا، پندرہ مسلمانوں کو اپنے یہاں پناہ دی، ان کی جان بچائی اور ساتھ میں ان کے بھانجے نے بعد میں ان کا ساتھ دیا وہ غیرمعمولی بات ہے۔ مدھولِکا نے بتایا کہ وہ صحیح معنوں میں شری رام کی ونشج ہیں اور انہوں نے اپنے جدّاعلیٰ کے نام پر اپنے بھر جتنے لوگوں کی جان بچا سکتی تھی، بچائی اور انہیں بچا کر یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک کی اکثریت مدھولکا سنگھ راجپوت کی طرح ہے، مٹھی بھر فسادیوں اور فسطائیوں کی طرح نہیں۔

اسی طرح کٹیہار میں خود ہندوؤں نے رام نومی کے جلوس کے درمیان انسانی زنجیر بناکر کٹیہار کی جامع مسجد کی حفاظت کی۔ اسی طرح مسلمانوں نے کئی جگہوں پر رام نومی کے جلوس میں شریک ہونے والوں کو گرمی کے موسم میں پانی پیش کیا، ان پر پھول برسائے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے بھوپال کے بدّھا دھام مندر کے ذمہ داران نے کورونا قہر میں اپنے سرپرستوں سے محروم ہوگئے بچوں کو عید کے موقعے پر نئے کپڑے تقسیم کئے۔ خود جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے موقعے پر جو دو جلوس شروع میں نکلے ان کا مسلمانوں نے استقبال کیا۔ ان تمام باتوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہندوستان اسی سے بنتا ہے۔ فرقہ پرستی کے اندھیرے میں یہ دیئے بھر روشنی تاریکی کو دور کرنے کے لئے ایک مثبت کوشش ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے یہ اعلان کیا کہ بغیر اجازت کے کسی جلوس کو نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نئے جلوس نکالنے کی بھی کوئی اجازت نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسجددوں میں لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی کی مسجد کے اندر ضروری ہے۔ ہمیں خو شی ہے کہ فرنگی محل کے چشم و چراغ اور لکھنؤ کی عیدگاہ کے امام و خطیب مشہور زمانہ نوجوان عالم دین مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے وزیر اعلیٰ کے ان فیصلوں کی تائید کی ہے۔

اس دیش میں اذان ہی لاؤڈ اسپیکر سے نہیں دی جاتی بلکہ ہر طرح کے بھجن، ست سنگ، شبد کیرتن، راس لیلا اور رام لیلا سب میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہوتا ہے اور ان پر بلاوجہ کی پابندیاں لگانے کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ صوتی آلودگی نہ پھیلے اس کی فکر کرنی چاہیے۔ہمیں ہندوستان کی سول سوسائٹی کے ساتھ مسلمانوں کو بھرپور اشتراک و تعاون کرنا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے کہ انہیں کوئی مطعون کر سکے۔

ہمیں اپنے ردعمل میں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ یہ لوگ ہماری وجہ سے شرمندہ نہ ہوں اور کمزور نہ پڑ جائیں۔ ہم نے پہلے بھی بارہا کہا اور لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کی تمام جماعتیں اور افراد مسلکوں اور جماعتی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ایک جُٹ ہو جائیں اور مل جل کر غیرمسلموں سے مکالمے کا آغاز بھی کریں، مظلوموں کی مدد کے لئے ضروری اقدامات کریں، قانونی لڑائی اور دستوری جدوجہد کے لئے ایک پائیدار حکمت عملی طے کریں تاکہ بے قصوروں کو جیلوں میں پڑے رہنے سے بچایا جا سکے، ظالموں کے خلاف جرأت و ہمت کے ساتھ ایف آئی آر کرائی جا سکے اور وہ لوگ جو بے قصور جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں ان کے خاندانوں کی معاشی کفالت کا انتظام بھی کرنا چاہیے اور ساتھ میں سرکار سے بھی پوچھنا چاہیے کہ اس کی خاموشی کے کیا معنی ہیں اور وہ کیا چاہتی ہے؟

ساتھ ہی ہمیں عام مسلمانوں سے آخر میں یہی عرض کرنا ہے کہ وہ حالات سے د ل برداشتہ نہ ہوں بلکہ ہمت کے ساتھ خود اور خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ جو فسادی ہیں وہ ہمارے اور ہمارے ہم وطنوں کے بیچ میں دوری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں انہیں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔

ہمیں بتا دینا چاہیے کہ ہم وحدت الہ کے ساتھ وحدت آدم کے بھی ماننے والے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سینکڑوں سال سے رہتے چلے آئے ہیں اور آگے بھی رہتے رہیں گے۔ ہمارا ہندوستان سے محبت اور تعلق کسی کے سرٹیفکیٹ کا محتاج نہیں۔ ہم کل بھی ہندوستان سے محبت کرتے تھے اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ ہم جس طرح اپنے مذہب پر عمل کرتے رہنے کے خواہاں ہیں اسی طرح ہر ہندوستانی کے اس حق کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرتا رہے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دھرم میں کوئی زور زبردستی نہیں اور جو آپ کا مذہب ہے وہ آپ کے لئے ہے اور جو میرا مذہب ہے وہ میرے لئے ہے اور علامہ اقبالؔ کے بقول:

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا 

ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)