خود احتسابی کی سچی کوشش: دو کتابیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-09-2021
سابق رکن پارلیمان کے رحمان خان
سابق رکن پارلیمان کے رحمان خان

 


awaz

پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

کورونا وائرس کی قہرسامانی کے زمانے میں جب اس وبا نے سب کو اپنے گھروں میں محصور کر دیا تھا، تمام سرگرمیاں مسدود ہو گئی تھیں اور انسانی کارکردگیوں کو عضو معطل بنا دیا تھا ایسے میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو منزل سے آگے بڑھ کے منزل تلاش کرتے ہیں اور یقینِ کامل، جہد مسلسل اور خوابوں کی تعبیر کا بہترین نمونہ بن کے سامنے آتے ہیں۔

میری یادیں“ جو مشہور سیاست داں، سماجی بنیاد گزار، نامور پارلمنٹیرین، تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے ہمہ دم کوشاں اور مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ہر وقت فکرمند سابق مرکزی وزیر اقلیتی امور، حکومت ہند جناب کے-رحمن خاں کی خود نوشت ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے حوالے سے الامین تحریک، امانت بینک، اسلامی معاشی نظام کو رائج کرنے کے ایک تجربے ”ایفک“، سیاست سے اپنی دلچسپی ریاستی سطح پر بھی اور مرکز کی سطح پر بھی کا نہ صرف تفصیلی جائزہ لیا ہے بلکہ ساتھ میں بڑی ہمت و جرأت کے ساتھ ملک کے جمہوری نظام کا محاسبہ لینے کے ساتھ پارلمنٹ کی خصوصیت و اہمیت، کانگریس پارٹی اور سیکولرزم جیسے موضوعات پر کھل کر اپنی آراء کو قلمبند کیا ہے۔

معاندین کے ذریعے انہیں بدنام کرنے کی جو کوششیں ہوئیں ان کی حقیقت کو اپنے قلم سے واضح کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ کے-رحمن خاں صاحب نے الامین کی تحریک سے اپنے تعلق اور بعض تلخ تجربات کے ساتھ بنگلور میں ڈی پی ایس کے ساتھ تحریکِ تعلیم میں نئی شروعات کو بھی بیان کیا ہے۔

وہ بجا طور پر میثاق مدینہ کے حامی بھی ہیں اور مداح بھی اور ایک ایسی دنیا میں جو عالمی گاؤں بن گئی ہے، بقائے باہم، خیرسگالی اور باہمی اشتراک و تعاون کے لئے ان کے نزدیک مدینہ چارٹر سے بہتر کوئی منشور نہیں ہو سکتا۔

کے-رحمن خاں صاحب ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، اس کا اندازہ ان کی کتاب میں شامل اس مضمون سے ہوتا ہے جس میں وہ مستقبل کے دارومدار کو اللہ تعالیٰ پر منحصر بتاتے ہوئے رقم طراز ہوئے ہیں۔

انہوں نے سچر کمیٹی اور کنڈو کمیٹی کی سفارشات اور خلاصے کو بھی بیان کر دیا ہے اور اس کا حق بھی انہیں اس لئے بھی پہنچتا ہے کہ سچر کمیٹی کے بننے سے بہت پہلے رحمن خاں صاحب نے کرناٹک اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی ریاست میں اقلیتوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حیثیت سے متعلق ایک انوکھی اور تاریخی رپورٹ تیار کی تھی جس کے نتیجے میں کرناٹک میں مسلم اقلیتوں کو ریزرویشن مہیا کیا گیا تھا اور بحیثیت مرکزی وزیر اقلیتی امور، انہوں نے بہت کم مدت میں بہت بڑے کام اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کرنے کا بیڑا اٹھایا لیکن وقت کی تنگی اور برسراقتدار لوگوں کی عدم دلچسپی نے اکثر کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

کے- رحمن خاں صاحب نے کورونا وائرس کے حوصلہ شکن ماحول میں ایک اور کتاب ”ہندوستانی مسلمان: لائحہ عمل“ تصنیف کر ڈالی۔ یہ کتاب نہیں بلکہ رحمن خاں صاحب کے دل کے داغ ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے اس بات کی تشخیص کی ہے کہ مسلمان تمام شعبوں میں پسماندہ کیوں ہیں اور آگے بڑھنے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہیے؟ ذات پات بنیاد پر تفریق، دست کاروں کی تحقیر، مسلم سیاست میں موقعہ پرستی یا ذاتی انا، مذہبی قیادت کا ضرورت سے زیادہ ماضی گزیدہ ہونا، عام مسلمانوں کا بین المذاہب مکالمے سے گریز، غیرضروری جذباتیت کا شکار ہونا اور فرقے واریت کا جواب فرقے وارانہ لب و لہجے میں دینے کی کوششوں نے مسلمانوں کو مرکزی حیثیت سے نکال کر حاشیے پر پہنچا دیا ہے۔

مسلمانوں نے تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کا رونا تو رویا ہے لیکن اس کو دور کرنے کے لئے جو ضروری، مثبت اور منصوبہ بند اقدامات ہونے چاہیے تھے ان سے عام طور پر گریز کیا ہے۔

شمالی ہندوستان میں حالت اور زیادہ خراب ہے۔ اس کے باوجود کہ آزاد ہندوستان میں حکیم عبدالحمید مرحوم کی ہمدرد یونیورسٹی دہلی، پروفیسر وسیم اختر کی انٹیگرل یونیورسٹی لکھنؤ، جواد صدیقی کی الفلاح یونیورسٹی دھوج (ہریانہ)، مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی کے ذریعے قائم کردہ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، مولانا بدرالدین اجمل کے تعلیمی ادارے، ڈاکٹر اشفاق کریم صاحب کی کٹیہار بہار میں قائم کردہ الکریم یونیورسٹی، اسی طرح تامل ناڈو میں بی ایس عبدالرحمن یونیورسٹی ایک نئی تبدیلی کے نقیب بن کر ضرور سامنے آئے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی اب یوپی، بہار، بنگال، آسام، مدھیہ پردیش اور پنجاب میں مسلمان کچھ بیدار ہوتے نظر آ رہے ہیں، خاص طور سے خانقاہی اور درگاہی اصحاب کی تعلیم کے فروغ میں کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

قادریہ سلسلے کی سب سے بڑی خانقاہ مارہرہ کے ذمہ داروں کے ذریعے البرکات کے نام سے تعلیمی اداروں کا قیام، چشتیہ نظامیہ سلسلے کی گلبرگہ میں قائم کردہ بندہ نواز یونیورسٹی، نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کی جے پور میں جامعہ ہدایت اور اسی طرح رفاعی سلسلے کے تعلیمی ادارے نیز مولانا کلب صادق مرحوم کی تعلیمی تحریک کا ثمرہ بلند پایہ ادارے اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود کے -رحمن خاں صاحب کی یہ فکر بے جا نہیں کہ مسلمانوں کے جو پرانے ادارے ہیں وہ گروہی چپکلش کے نتیجے میں مقدمے بازیوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور ان سے جو فائدے ہو سکتے تھے وہ نہیں ہو پا رہے ہیں۔

مشہور مؤرخ، ماہر تعلیم اور منگلور و گوا یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہ چکے پروفیسر بی-شیخ علی نے ”میری یادیں“ کے مقصد تصنیف کے بارے میں بالکل صحیح کہا ہے کہ ”آنے والی نسلوں کو بتائیں کہ زندگی میں حوصلہ وار مسلسل کوشش کتنی ضروری ہیں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ وہ قوم جو بے عمل ہوگی وہ زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ جائے گی، اس لئے مسلسل زندگی کے سفر کو جاری رکھنا ہی کامیابی کی دلیل ہے۔“

اسی طرح انہوں نے دوسری کتاب ”ہندوستانی مسلمان:لائحہ عمل“ کے بارے میں کیا سچی بات کہی ہے کہ ”جناب کے-رحمن خاں نے ہندوستانی مسلمانوں کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھا کر بہت بڑی خدمت کی ہے۔

یہ کتاب بڑے پیمانے پر بحث کی مستحق ہے تاکہ اس کے نظریات کو وسعت دی جا سکے۔

کتاب ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے لہٰذا موجودہ تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔“

یہ ضروری نہیں ہے کہ کے- رحمن خاں صاحب کی ہر بات سے ہر کوئی لازمی طور پر اتفاق کرے لیکن ہمیں ان سے اختلاف کرنے سے پہلے ان کے مسلمانوں کے حالات کے تجزیے، ان کے مسائل اور مصائب کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

کے- رحمن خاں صاحب نے امام الہند مولانا ابواکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے حوالے سے ہمیں بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں ہمیں کچھ راستے دکھائے ہیں اور یہ کسی گفتار کے غازی کے مشورے نہیں ہیں بلکہ کردار کے ایک ایسے غازی کی رہنمائی ہے جس کے پاس نگاہ کی بلندی بھی ہے، سخن کی دلنوازی بھی ہے اور جو عمل کے میدان میں اپنی پرسوزی جاں کانصف صدی سے ثبوت دیتا آیا ہے۔

کیا مسلمان کے-رحمن خاں صاحب کی آواز پر ”لبیک“ کہیں گے؟

یہی وہ سوال ہے، وقت جس کے امت مسلمہ کے ذریعے جواب کا منتظر ہے۔

نوٹ: مضمون نگار مولاناآزاد یونیورسٹی جودھپو رکے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔