ہماری جدوجہد آزادی، آزادی کا امرت مہوتسو اور مسلمان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-08-2022
ہماری جدوجہد آزادی، آزادی کا امرت مہوتسو اور مسلمان
ہماری جدوجہد آزادی، آزادی کا امرت مہوتسو اور مسلمان

 

 

awaz

پروفیسر اخترالواسع

ہماری آزادی کو 75 سال ہو گئے۔ آزادی کا امرت مہوتسو اور جشن منانے کا ہمیں موقعہ ملا، اس بات پر ہم جتنا خوشی کا اظہار کریں وہ کم ہے۔ سارے ہندوستانی ایک دوسرے کو دلی مبارکباد دیں کیوں کہ آزادی کی لڑائی سب نے مل کر لڑی اور انگریزوں کے سامراج کو ختم کرنے کے لیے نہ جانے کتنے ہندوستانیوں نے اپنے خون سے اس کہانی کو سرخی عطا کی۔ 1757 میں پلاسی میں سراج الدولہ کی شہادت، 1799میںسرنگاپٹم میں شیرِ میسور ٹیپو سلطان کی قربانی، 1831 میں بالا کوٹ میں جماعت مجاہدین کی قربانی، 1857 میں آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر کی علامتی ہی سہی، سربراہی میں تقریباً سارے ہندوستانیوں کا انگریزوں کے خلاف ایک جُٹ ہو جانا، دلّی، میرٹھ اور شاملی میں علماء حق کا انگریزوں کے خلاف فتویٰ دینا، ان کے خلاف جنگ کرنا، رانی جھانسی، بیگم حضرت محل، تانتیہ ٹوپے، منگل پانڈے، جنرل بخت خاں اور مولوی احمد اللہ کا جوش اور جذبہ ہی تھا جس نے انگریزی سامراج کے جمتے ہوئے قدموں کو تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی اکھاڑ پھینکا تھا۔

یہ دوسری بات ہے کہ بالآخر فتح انگریزوں کے حصے میں آئی اور انہوں نے انتقام لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کتنے ہزار علماء اور عام ہندوستانیوں کوتہہ تیغ کر دیا۔ کتنے اپنے مخالف امراء اور رؤسا کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔

مولوی فضل حق خیرآبادی سمیت نہ جانے کتنے مجاہدین آزادی کو کالے پانی کی سزا دے کر انڈمان نکوبار میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ وقتی طور پر آزادی کے لیے جنگ کا جذبہ بظاہر سرد ہوتا نظر آ رہا تھا لیکن آزادی کے لیے تڑپ اور انگریز سامراج کے خلاف مخالفت کا جنون ختم نہیں ہوا تھا، یہ دوسری بات ہے کہ وہ دبا ہوا تھا۔

بیسویں صدی کے آغاز سے اس جذبے نے ایک نئی انگڑائی لی۔ بال گنگا دھر تلک، گوپال کرشن گوکھلے، دادا بھائی نوروجی اور سریندر ناتھ بنرجیجیسے لوگ اگر ایک طرف آزادی کے میرِکارواں تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نئی نسل میں مولانا حسرت موہانی، خان عبدالغفار خاں، ڈاکٹر سید محمود، مولانا عبیداللہ سندھی، برکت اللہ بھوپالی اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اس جدوجہد آزادی کو نیا رخ دے رہے تھے۔

ریشمی رومال تحریک کے کارواں سالار شیخ الہند مولانا محمود حسن نے ہماری تحریک آزادی میں ایک نئے انقلابی عنصر کو داخل کیا۔ اُدھر نوجواں فکر، جواں ہمت اور شعلہ فگن امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال اور البلاغ کے ذریعے حریت کو وہ صور پھونکا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے لفظوں میں جس نے سوتوں کو جگا دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب کابل میں پہلی جلا وطن آزاد ہند حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

یہ حکومت ایک مسلم ملک میں اگرچہ علماء کی کوششوں کا نتیجہ تھی جس کے وزیراعظم برکت اللہ بھوپالی تھے تو وزیر داخلہ اور خارجہ مولانا عبیداللہ سندھی تھے لیکن ان لوگوں نے اس حکومت کا صدر ایم اے او کالج کے پروردہ راجہ مہیندر پرتاپ کو بنایا۔

 1919میں جلیاں والا باغ میں انگریزوں نے جس بربریت اور بہیمیت کا مظاہرہ کیا وہ آج بھی دردمند دلوں میں لرزہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ جلیاں والا باغ کا بیساکھی کے موقعے پر یہ احتجاج صیف الدین کچلو کی صدارت میں ہونا تھا جنہیں انگریزوں نے پہلے ہی گرفتار کر لیا اور پھر لوگوں نے ان کی تصویر مسندِ صدارت پر سجا کر یہ جلسہ کیا، اپنی جانیں دیں لیکن آزادی کے جذبے کا زندہ رکھا۔

یہی وہ وقت تھا جب جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی شناخت قائم رکھنا، ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار نہ ہونا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد کو کمزور نہ پڑنے دینا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب تحریکِ خلافت اور تحریکِ عدم تعاون کے باہمی تال میل سے انگریز تلملا گئے اور انہوں نے ہندو، مسلمانوں، سِکھوں اور دیگر ہندوستانیوں کے اس باہمی اتحاد کو تار تار کر دینے کے لیے ہر حکمتِ عملی اپنائی۔ مہاتما گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آچکے تھے اور انہوں نے عملی طور پر سیاسی اقدامات کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ وہ ہندوستان کے اور ہندوستانیوں کے حالات سے پہلے بخوبی واقفیت حاصل کر لیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد انہوں نے شخصی، فکری اور عملی طور پر جو کچھ کیا وہ اب کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔

مہاتما گاندھی کا غربت کی آخری سطح پر زندگی گزارنے کا عملی نمونہ، عدم تشدد کو کمزوروں کا مؤثر ہتھیار بنا دینا اور باوجود ایک راسخ العقیدہ ہندو کے جو سناتن پرمپرا پر پوری طرح عمل پیرا تھا انہوں نے جس طرح دیگر مذاہب کے احترام کے جذبے کو فروغ دیا اس نے انگریزوں کو حواس باختہ کر دیا، ان کے ہوش اڑا دیے اور وہ ہندوستان کی آزادی کو تو نہ روک پائے لیکن چلتے چلتے تقسیم اور تفریق کے وہ بیج بو گئے جس سے آزادی کا جب سورج طلوع ہوا تو ہندوستان فرقے وارانہ بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور ہندوستانی آج تک تقسیم کے اس ناگہانی صدمے سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا پائے ہیں۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمرٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)