قومی اتحاد کے لیے نواب سید محمد بہادرکی جدوجہد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 12-02-2022
قومی اتحاد کے لیے نواب سید محمد بہادرکی جدوجہد
قومی اتحاد کے لیے نواب سید محمد بہادرکی جدوجہد

 


awazthevoice

 ثاقب سلیم، نئی دہلی

 موہن داس کرم چند گاندھی عرف مہاتما گاندھی کو اکثرایک ایسے شخص کے طور پر منسوب کیا جاتا ہے جنہوں نے ہندوستانی جدوجہد آزادی کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کیا۔ موجودہ ہندوستان میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ نواب سید محمد بہادر وہ شخص تھے جنہوں نے گاندھی کو قوم سے باضابطہ طور پر متعارف کرایا اور جنوبی افریقہ سے واپسی کی راہ ہموار کی۔

نواب سید محمد بہادر، جوکہ ٹیپو سلطان کے براہ راست اولاد میں سے ہیں۔ وہ بیسویں صدی کے اوائل کے سرکردہ قوم پرستوں میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق قوم پرست رہنماؤں کی اس نسل سے تھا جو نوآبادیاتی حکمرانوں سے مراعات حاصل کرنے کے لیےآئینی طریقوں اور درخواستوں پر یقین رکھتے تھے۔

خیال رہے کہ گوپال کرشن گوکھلے، دادا بھائی نوروجی وغیرہ کو مضبوط قومی آزادی کی جدوجہد کی بنیاد ڈالنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔

قوم کی خدمت سید محمد بہادر کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ان کے والد میر ہمایوں بہادر نے انڈین نیشنل کانگریس کے ابتدائی اجلاسوں کی مالی اعانت فراہم کی اور ایک نئی آزادی کی جدوجہد کو پروان چڑھانے میں مدد کی۔ ان کے پردادا ٹیپو سلطان کی بہادری مشہور ہے۔ سنہ 1894ء میں نواب سید محمد بہادر نے کانگریس کی رکنیت اختیار کی۔

نواب سید محمد بہادر بتدریج قومی جدوجہد میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ وہ سیکولر قومی وژن کے حامل آدمی تھے. پتھابھی سیتارامیا نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ نواب سید محمد بہادر بہرحال پہلے کانگریسی تھے اور بعد میں مسلمان۔

سنہ 1898 میں وہ مدراس کانگریس کمیٹی کے رکن بنے اور تین سال بعد انڈین کانگریس کمیٹی کے لیے منتخب ہوئے۔کانگریس کا 19واں اجلاس سنہ 1903میں منعقد ہوا۔ انہوں نے استقبالیہ کمیٹی کی صدارت کی اوراس کے آئندہ برس کانگریس کے لیے آئین تیار کرنے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ سنہ 1913 میں کراچی میں منعقدہ انڈین نیشنل کانگریس کے 28ویں اجلاس میں نواب سید محمد بہادر کو اجلاس کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس طرح وہ اس وقت تک کانگریس کے صرف تیسرے مسلمان صدر بنے۔

ان کی صدارت میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں برطانوی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ غلامی کی ایک ایک دوسری شکل یعنی بندھوا مزدور(indentured labour) پر پابندی عائد کرے۔ اس کےعلاوہ ایک قرارداد منظور کی گئی؛جس میں مسٹر گاندھی اور ان کے پیروکاروں کی بہادرانہ کوششوں کی تعریف کی گئی۔ اور ہندوستان کی عزت نفس کو برقرار رکھنے اور ہندوستانی شکایات کے ازالے کے لیے ان کی جدوجہد میں ان کی بے مثال قربانیوں کو سراہا گیا۔

سیتارامیا کے الفاظ میں اگر کوئی ایسا کہہ سکے تو یہ ہندوستانیوں شہریوں کے درمیان مسٹر گاندھی کا حقیقی تعارف تھا۔

اس واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد گاندھی ہندوستان واپس آئے اور مظلوم لوگوں کے چیمپئن کے طور پر ان کا استقبال کیا گیا۔ اگر یہ تعارف کافی نہیں ہے تو سنیئے کہ نواب سید محمد بہادر نے اپنی بعد کی سیاسی کوششوں کے لیے ایک روڈ میپ بھی فراہم کیا۔

یاد رہے کہ گاندھی خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں کے نتیجے میں مہاتما بن گئے۔

جہاں ہندو اور مسلمان ترکی کی سالمیت کو بچانے کے لیے متحد ہو گئے تھے،جنگ کے بعد گاندھی جی نے جو کچھ کیا ان سب کے بارے میں نواب سید محمد بہادر نے جنگ سے پہلےہی بتا دیا تھا۔

اپنے خطاب میں نواب نے یورپ میں سلطنت عثمانیہ کی بغاوت اور فارس کا گلا گھونٹنے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے حاضرین سے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس مسئلے پر اکٹھے ہو کر برطانوی سلطنت کے آمرانہ طریقوں کو چیلنج کرنا ہوگا۔

صدارتی خطاب کے بارے میں سیتارامیا نے لکھا کہ یہ ہمیں 1921 کی تحریک خلافت اور ہندوستان میں ہندو مسلم تعلقات پر اس کے اثرات کی یاد دلاتا ہے۔

’یورپ کا بیمار مریض‘ (جیسا کہ ترکی کو 19ویں صدی میں کہا جاتا تھا) نے ہندوستانی سیاست کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

انہی حالات میں کراچی کانگریس (1913) میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنی صفیں بند کر دیں۔ فرقہ وارانہ تقسیم کے خلاف انتھک جنگ لڑنے والا یہ عظیم محب وطن، مذہبی تعصب اور استعماری حکمرانوں کے خلاف مستقبل کی جنگ کے لیے قوم کو متحد کرنے کی کوششوں کو بڑی حد تک بھلا دیا گیا ہے۔

وہ 12 فروری 1920 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ ہندوستانی اس مٹی کے بیٹے کو ان کی برسی پر خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔