نواب فیض النساء : 19 ویں صدی کی انقلابی بنگالی خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2021
نواب فیض النساء
نواب فیض النساء

 

 

ثاقب سلیم ۔نئی دہلی

مشہور ماہر نسواں اور اردو کی ادیب کشور ناہید لکھتی ہیں کہ ہمارے زمانے میں کسی عورت کی لکھی ہوئی تحریر کا شائع ہونا ایک انقلابی عمل تھا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں تہذیب کے اس مقام پر لانے کے لئے جو کچھ بھی کیا تھا، ہم شاذ و نادر ہی اس حقیقت کی تعریف کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے کہ پیش رفت

ایک سفر ہے اور ہم سے پہلے کے لوگوں نے اس کے لئے ایک ایسی جدوجہد کی ہے جس کی قدر و منزلت کا ہمیں ادراک نہیں ہے ۔

انیسویں ویں صدی کے نوآبادیاتی نظام کے ماتحت بنگال میں ایک مسلمان خاتون زمیندار فیض النساء چودھرانی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ڈگلس نے ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے ان فلاحی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازنے کی سفارش کی تھی۔ لندن میں عہدیداروں کو لکھے گئے ایک خط میں ، ڈگلس نے ذکر کیا ہے کہ نواب کا لقب فیض النساء کے لئے موزوں ہے ۔ایک مسلمان عورت کو مذکر کے لقب سے نوازے جانے کی سفارش کی خبر نے بنگال میں قدامت پسندوں اور نام نہاد آزاد خیال مسلمان طبقوں کو مشتعل کردیا۔

بنگال کے مسلمانوں نے ملکہ وکٹوریہ کو ایک درخواست لکھی اور مطالبہ کیا کہ کسی عورت کو نواب کے لقب سے نوازا نہیں جانا چاہئے کیونکہ یہ صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ اس عرضی پر غور کرتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ نے فیض النساء کو بیگم کے لقب سے نوازا جو ایک نسائی لقب ہے اور عام طور پر یہ نواب کی بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

 یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس وقت کا مسلم معاشرہ کسی عورت کے لئے مذکر کا لقب قبول نہیں کرتا تھا ، یہاں تک کہ نوآبادیاتی ہندوستان کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک بھوپال کی خواتین حکمرانوں نے بھی اپنے لئےنواب کے بجائے بیگم کے لقب کو استعمال کیا۔

اس کہانی میں سب سے دلچسپ موڑ تب آتا ہے جب جب فیض النساء نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ کے ذریعہ تفویض کیا گیا بیگم کا لقب مسترد کردیا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ ایک کامیاب حکمران اور تاج برطانیہ کو ٹیکس ادا کرنے والی ایک شہری کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ ایک عورت ہے، امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ معاملہ ایک بڑے تنازعہ کا شکار ہوگیا۔

فیض النساء مذہبی ، معاشرتی اور ثقافتی روایات کے سامنے سر جھکانا نہیں جانتی تھیں ۔ بنگالی مسلمان حکومت کو انھیں نواب کا لقب نہ دینے پر مجبور کر رہے تھے۔ آخر میں برطانوی پارلیمنٹ کو مداخلت کرنا پڑی اور فیصلہ فیض النساء کے حق میں کیا گیا ۔ اس طرح ، 1889 میں فیض النساء نواب فیض النساء بن گییں ۔ پدرشاھی سے متصف بنگالی مسلم معاشرے کے مد مقابل یہ ایک غیر معمولی کارنامہ اور ایک بہت بڑی سعادت کا کام تھا جو فیض النساء کے حصہ میں آیا ۔ 

 فیض النساء نے شادی کے پانچ سال بعد 1865 میں محمد غازی چودھری سے ان کے متعدد نکاح کی وجہ سے طلاق لے لی۔ انیسویں صدی کے وسط کی مسلمان عورت کے لئے دوسری بیوی کا درجہ قبول نہ کرنا سرکشی کا قدم تھا۔ ان سب پر مستزاد وہ اپنے سابقہ ​​شوہر سے نان و نفقہ وصول کرنے کے لئے اسے عدالت میں لے گئیں۔ اپنے والد اور سابقہ ​​شوہرسے فیض النساء کو ایک ایسی اسٹیٹ ورثہ میں ملی جس میں وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں ۔

فیض النساء نے 1873 میں مسلم لڑکیوں کے لئے بنگال کا پہلا اسکول قائم کیا جہاں درس و تدریس کا کام بنگالی زبان میں ہوتا تھا - یہ اس بنگالی سماج کے لئے ایک انقلابی قدم تھا جو فارسی اور اردو کو اعلی زبان سمجھتے تھے۔ بنگالی ثقافت ان کے دل کے قریب تھی اور وہ مسلم اشرافیہ کے حلقوں میں معاشرتی قبولیت حاصل کرنے کے لئے فارسی سے متاثرہ ثقافت کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں ۔

سن ​​1876میں انہوں نے مسلمان عورت روپ جلال کی لکھی ہوئی پہلی مکمل بنگالی کتاب شائع کی۔ اس کے تعارف میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ یہ ’افسانہ‘ ان کی اپنی زندگی سے متاثرہے ۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک شہزادہ ہے جو دو خواتین سے شادی کرتا ہے۔ روپ جلال کتاب میں ایک عورت کی اس وقت کی جسمانی اور جذباتی خواہشات کی ترجمانی کرتی ہیں جب اس کا شوہر اس کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان عربی ، فارسی ، سنسکرت اور بنگالی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد ، لکھنے اور پڑھانے کے لئے بنگالی زبان کا انتخاب بنگالی ثقافت سے ان کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔

فیض النسا کی زندگی موجودہ دور کی خواتین کے لئے ایک ترغیب ہے۔