'ہندوستان میں مسلمانوں کو باعزت زندگی کےلئے دوسری قوموں کا اعتماد حاصل کرنا ضروری'

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-02-2021
مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی

 

 

                 جمعیة علماءہند کے صدرمولاناارشد مدنی کا اکیس مارچ1948 کے تاریخی اجلاس کی قراردادوں کو دہرانے کی تلقین         

     جمعیة علماءہند انگریز کے تسلط کے زمانے میں ملک کی آزادی کے لئے کسی بھی دوسری جماعت سے آگے بڑھ کرکام کررہی تھی؛ ملک کی آزادی کے بعد تقسیم وطن کے باعث اپنے آپ کو ملکی سیاست سے علیحدہ کرلیا اورملک وقوم کی خدمت کے لئے اس کو مذہبی جماعت قرار دے دیا،جس کا مقصد اپنی تمام سرگرمےاں تعلےمی اداروں ، فلاحی سرگرمےوں اور مسلمانوں کی راحت رسانی اور بازآبادکاری پر مرکوز کرنا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج جمعیة علماءہند ملک کی سب سے بڑی فلاحی ، راحت رسانی ، بازآبادکاری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پررفاہی کاموں میں حصہ لینے والی سب سے بڑی تنظےم ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد کس وقت اور کس طرح جمعیة علماءہند کو خالص مذہبی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا تھا آپ بھی اس کو پڑھ لیں اور واقف ہو جائیں۔

مدینہ اخبار28مارچ 1948 کے مطابق دہلی میں 21 مارچ 1948دن کے تین بجے جمعیة علماءہند کا اجلاس منعقد ہوا جس میں جمعیة کے آئندہ پروگرام پر روشنی ڈالتے ہوئے اکابر جمعیة نے اعلان کیا کہ آئندہ سے جمعیة علماءہند اپنے سیاسی پروگرام کو ختم کرتی ہے، اور اب مسلمانوں کی مذہبی سماجی اور تعلیمی وغیرہ رہنمائی اس کے پروگرام میں داخل ہوگی۔ کے مطابق اجلاس مذکورہ میں گاندھی جی اور مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے انتقال پُر ملال پر تعزیتی تجاویز پیش ہوئیں۔

جمعیة علماءہند کا اجلاس زیر صدارت حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ منعقد ہوا شرکاءاجلاس میں مولانا نور الدین بہاری، مولانا احمد سعید، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کچلو قابل ذکر ہیں مولانا حفظ الرحمان صاحب ناظم جمعیة علماءنے گاندھی جی کے درد ناک قتل اور مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے انتقال پُرملال پر تعزیتی تجویزیں پیش کیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

تجویز: مرکزی جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس مہاتماگاندھی کے درد انگیز اور وحشتناک حادثہ قتل پر اپنے انتہائی غم واندوہ کا اظہار کرتا ہے۔

آپ نے تحریک آزادی کے لئے صداقت، صبر وضبط وتحمل، پر امن سول نافرمانی اور عام تشدد کے بہترین اعمال کے ذریعہ ایثار وخلوص کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو کر تحریک آزادی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا، آپ جمہوریت مساوات اور ہندو مسلم اتحاد کے ہمیشہ حامی رہے، آپ نے بارہا جان کی بازی لگائی۔

مرکزی جمعیة علماءکا یہ اجلاس آپ کی عظیم الشان تاریخی خدمات کا اعتراف کرتا ہے اور آپ کو پورے ہندوستان کا بہت بڑا محسن تصور کرتا ہے اور تمام جمہوریت پسند آزادی وطن کی حامی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے اس نازک ترین مرحلہ پر پوری سرگرمی اور اتحاد عمل کے ساتھ ہندوستان کو صحیح جمہوریت اور ترقی کی منزل مقصود تک پہنچائیں اور جان کی بازی لگاکر مہاتما گاندھی کے مقاصد کو کامیاب کریں۔

تجویز : مرکزی جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس حضرت مولانا ابو الوفاءثناءاللہ صاحب امرتسری رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات پر دلی رنج وغم کا اظہار کرتا ہے۔

اس نازک دور میں حضرت مولانا کی ذات والا صفات ممتاز علم وفضل کی حامل تھی، مولانا موصوف نے ہندوستان میں اسلامی اشاعت وتبلیغ میں جس گرمجوشی کا ثبوت دیا وہ اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔

یہ اجلاس حضرت مولانا کی اعزاءواقربا کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے درگاہ الہٰی میں مغفرت کی دعا کرتا ہے۔

مذکورہ بالا تجویزیں باتفاق رائے منظور ہوئیں، ان کے بعد ناظم اعلیٰ مولانا حفظ الرحمان صاحب نے جمعیة کے آئندہ پروگرام اور اس کے دستور اساسی میں بنیادی تبدیلی کے متعلق مندرجہ ذیل تجویز پیش کی۔

تجویز: جمعیة علماءہند نے پچھلے تیس سالہ دور تاریخ میں ملک وطن کی آزادی کے لئے جو جد وجہد کی اور ملک کی مشترکہ مجلس انڈین نیشنل کانگریس کے تعاون اور اشتراک سے اس راہ میں جو کامیابی حاصل کی وہ تاریخ ماضی کا ایک روشن واقعہ ہے۔

گذشتہ دور میں جمعیة علماءہند کو مذہبی وملی خدمات کے ساتھ ساتھ ملک ووطن کی آزادی کے لئے جو جد وجہد کرنی پڑی اس میں جداگانہ انتخاب کی وجہ سے الیکشن اور اس سے وابستہ سیاسیات میں بھی پیش پیش رہنا پڑا تاکہ غلط فرقہ وارانہ روش کا مقابلہ کیا جا سکے۔

لیکن اب جبکہ ہندوستان آزاد ہو چکا ہے اور ملک کی سیاسی زندگی کو فرقہ وارانہ حلقوں میں تقسیم کرنے کی جگہ ایک عام اور مشترک قومی حلقہ کو پیدا کرنا ضروری ہے اس لئے مرکزی جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس ضروری تصور کرتا ہے کہ جمعیة کے نظام عمل کا مستقبل بھی اسی لحاظ سے قرار دیا جائے اور اس بارے میں جو فیصلے لکھنو ¿ کانفرنس میں ہو چکے ہیں ان کی تائید کی جائے۔

چنانچہ مرکزی جمعیة علماءہند کا یہ اجلاس اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ جمعیة کا دائرہ عمل آئندہ صرف مذہبی تمدنی اور تعلیمی حقوق وفرائض کے دائرے میں محدود رہے اور جہاں تک مسلمانوں کے سیاسی حقوق وفرائض کا تعلق ہے ، مسلمانوں کو غیر فرقہ وارانہ اور مشترک طریقہ ¿ عمل کی دعوت دینی چاہئے۔

تجویز مذکورہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا حفظ الرحمان نے گذشتہ لیگی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کی آزادی کے بعد اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ کسی ایک مخصوص فرقہ کی جماعت اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے، اس لئے یہ طے پایا کہ آئندہ سے جمعیة علماءہند کی سیاسی سرگرمیوں کو ختم کر دیا جائے اور اس کے پروگرام میں صرف مسلمانوں کی مذہبی سماجی وغیرہ اصلاح رکھی جائے۔

تجویز مذکورہ کی تائید مولانا احمد سعید رحمہ اللہ نے بھی فرمائی آپ نے فرمایا کہ سیاسی بنیاد پر فرقہ وارانہ تنظیم جس طرح خطرناک ثابت ہوئی اسی طرح آئندہ بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے مسلمان اس وقت تک انڈین یونین میں باعزت زندگی بسر نہیں کر سکتے جب تک کہ دوسری قوموں کا اعتماد حاصل نہ ہو جمعیة علماءآج تک ایک سیاسی جماعت بھی تھی اور مذہبی بھی یہ صحیح ہے کہ مذہب اور سیاست دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں ہیں پھر بھی آپ کو اختیار ہے کہ آپ دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیں چونکہ فرقہ پرست سیاست مسلمانوں کے لئے خطرناک ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ کسی غیر فرقہ پرست جماعت میں شریک ہو ۔

مولانا ابو الکلام آزاد:

مولانا آزاد نے تجویز کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اجلاس کی غرض وغایت تو آپ کے علم میں آچکی ہے گذشتہ چند سال میں ملک کے سیاسی حالات بڑی تیزی سے چل رہے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک تقسیم ہوگیا، اب موجودہ حالات میں وہ آپ کے سامنے ہیں اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انڈین یونین میں جو مسلمان رہ گئے ہیں وہ کیا کریں؟ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ اب تک الگ الگ گروہ بندیاں رہیں مسلم لیگ نے جس نفرت وحقارت کی تلقین کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے فرقہ کے لوگوں میں بھی فرقہ پرستی پیدا ہوگئی، لیکن اب جبکہ حالات بدل گئے ہیں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس گروہ بندی کو ختم کر دیا جائے اس وقت بھی جب کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست زوروں پر تھی لیگی لیڈروں سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ سیاسی معاملات میں فرقہ بندی کو ختم کر دیا جائے، البتہ دوسرے معاملات میں فرقہ وارانہ گروہ بندی قائم رہ سکتی ہے لیکن اس آواز پر کوئی اعتبار نہیں کیا گیا، سیاسی معاملات میں بہت سی چیزیں داخل ہیں، مثلاً مشترکہ انتخاب وغیرہ مشترکہ انتخاب سے باہمی اعتماد پیدا ہوگا اسی طرح دوسری چیزیں ہیں جو سیاست کے دائرہ میں داخل ہیں، اس کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ سیاسی معاملات میں فرقہ وارانہ جماعتیں بنائی جائیں۔

یہ فیصلہ لکھنو ¿ کانفرنس میں کیا گیا تھا آج تمام ملک اسی رہنمائی میں چل رہا ہے، کانگریس چل رہی ہے، مرکزی حکومت چل رہی ہے اس کے بعد بھی کیا اس کی ضرورت رہتی ہے کہ آپ سیاسی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی علیحدہ جماعتیں بنائیں سیاست سے ہٹ کر بھی بہت سے میدان ہیں تعلیمی میدان ہے سماجی میدان ہے، معاشی میدان ہے، اور انھیں میدانوں کے لئے اس کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی طاقتور جماعت بنائی جائے ظاہر ہے کہ اسی مقصد کے لئے جمعیة علماءسے بڑھ کر کون سی جماعت ہو سکتی ہے۔

جمعیة کو اب سیاست کی ضرورت نہیں، اسی لئے جمعیة کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی سیاسی سرگرمیوں کو ختم کر دیا جائے، اب اس کی منظوری جلسہ ¿ عام سے لینا ہے اسی مقصد کے لئے یہ اجلاس منعقد کیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ سیاست سے ہٹ جانے سے ہمارا بوجھ ہلکا ہو گیا واقعہ یہ ہے کہ اب ہمارا بوجھ دُگنا ہوگیا ہے اور ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، اب جمعیة کا میدان سیاسی نہیں بلکہ تعلیمی ہے، سماجی ہے، معاشی ہے، حکومت ان معاملات میں جمعیة کے ساتھ تعاون کرے گی اور حکومت جمعیة کے ساتھ، اب حالات بدل گئے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس نئے سانچے میں ڈھال لیں، موجودہ حکومت قومی ہے وہ چاہتی ہے کہ مسلمان اپنی بہتری کے کام خود انجام دیں، ان الفاظ کے بعد میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں۔

مولانا آزادرحمہ اللہ کے بعد مولانا نور الدین بہاری اور مولانا بشیر احمد نے تجویز کی تائید کی اور آخر میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے تجویز کی تائید میں تقریر فرمائی۔

ڈاکٹر کچلو: ڈاکٹر کچلو نے تقریر کرتے ہوئے کہا مجھے اس تجویز سے مسرت حاصل ہوئی، جمعیة نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جو جد وجہد کی وہ ایک طویل داستان ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی ایک جماعت نے آزادی حاصل کی، واقعہ یہ ہے کہ سب نے مشترکہ متحدہ طور پر آزادی کی جد وجہد کی اور کامیابی حاصل کی جمعیة نے کانگریس کے ساتھ تعلق رکھا، اگر کانگریس میں جمعیة شامل نہ ہوتی تو سخت مشکل پیش آتی لیگی لیڈروں نے مجھے لیگ میں شامل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن میرا ان سے ایک ہی سوال تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ان مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا جو انڈین یونین میں رہ جائیں گے، اب پاکستان بن چکا ملک تقسیم ہو چکا مسلمان تقسیم ہو چکے لیگی لیڈر انڈین یونین کے مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر فرار ہوگئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان والے پاکستان میں خوش رہیں ہمیں تو اب ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق غور کرنا ہے، جہاں تک میں امید کر سکتا ہوں وہ یہی ہے کہ انشاءاللہ حالت بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے گی، ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد اجلاس ملتوی ہوگیا۔