وہ مسلم خواتین جو سماج کے لیے مثالی بنیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
وہ مسلم خواتین جو سماج کے لیے مثالی بنیں
وہ مسلم خواتین جو سماج کے لیے مثالی بنیں

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم،نئی دہلی

 سنہ 1975 سے اقوام متحدہ کی جانب سے ہر برس 8 مارچ کو 'یوم عالمی خواتین' کے طور پر ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اِس دن کی ابتدا یو ایس ایس آر(USSR) اور کمیونسٹوں کی طرف سے خواتین کارکنوں کی جدوجہد کی یاد میں یوم کام کاجی خواتین (Working Women’s Day) کے طور پر منائے جانے کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہ ضروری ہے کہ اس دن ہم ان مثالی خواتین کی قربانیوں کو یاد کریں،جنہوں نے دوسری خواتین کے لیے کام کرنے کا موقع فراہم کیا اور جو دیگر خواتین کے لیے محرک بنی تھیں۔ 

اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی مسلمان مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم اور ترقی کے معاملے میں دیگر کمیونٹی سےپسماندہ رہے ہیں۔ اور وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلم خواتین ملک کی سب سے پسماندہ کمیونٹی میں سے ایک ہیں۔ جو مسلسل ترقی کر رہی ہیں۔ تاہم عام تصور کے برعکس مسلم خواتین نے پچھلی ایک صدی کے دوران مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

 یوم عالمی خواتین کے دن سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان خواتین کو یاد کیا جائے جنہوں نے پدرانہ معاشرے کے اس تصور کو توڑنے میں اہم کردارادا کیا جہاں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مرد ہی سب کچھ کر سکتے ہیں اور خواتین کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ آئیے ان ہندوستانی مثالی خواتین میں سے کچھ کا تذکرہ یہاں کرتے چلیں:

فاطمہ شیخ: یہ حقیقت ہے کہ انیسویں صدی میں ہندوستان میں تعلیم چند مراعات یافتہ طبقوں تک محدود تھی۔مگراسی صدی نے ذات پات، معاشی طبقے اور سماجی ڈھانچے نے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی ممکن بنا دی تھی۔

 اب مذکورہ شناختوں کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ طبقاتی باتیں اب تعلیم کی نظر میں قابل مذمت ہوچکی تھیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انیسویں صدی عیسوی سے قبل سماج کے سبھی طبقوں میں خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ ان دنوں کسی خاتون کا تعلیم حاصل کرنا برا سمجھا جاتا تھا۔

مگر انیسویں صدی عیسوی کا زمانہ بالکل نیا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں خواتین نے معاصرتی حصار کو توڑ کر نکلنا شروع کر دیا تھا۔ فاطمہ شیخ نے ساوتری بائی پھولے کے ساتھ مل کر خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا خواب دیکھا اور 1840 کی دہائی کے آخر میں ملک میں خواتین کے لیے پہلا جدید اسکول قائم کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ 

فاطمہ اسکول کی پہلی خاتون ٹیچر بن گئیں اور گویا انہوں نے دیگر خواتین کے لیے ایک شاندار مستقبل کی راہ ہموار کردی۔ جہاں اب ایک خاتون ملک کے اندر کسی بھی اعلیٰ عہدے کی خواہش کر سکتی تھیں۔

 سلطان جہاں بیگم: سلطان جہاں بیگم بھوپال کی تخت پر بیٹھنے والی چوتھی خواتین تھیں۔ اس سے قبل قدسیہ بیگم، سکندر بیگم اور شاہ جہاں بیگم بھوپال کے تخت پر بیٹھ چکی تھیں۔ سلطان جہاں نے خواتین کی آزادی میں خاص دلچسپی لی۔

انہوں نے نہ صرف اپنی ریاست میں تعلیمی ادارے قائم کیے بلکہ ملک کے اندر متعدد جگہوں پر خواتین کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ادارے بھی قائم کئے۔انہوں نے پردہ کے دقیانوسی تصور کے خلاف مہم چلائی۔ سلطان جہاں کا خیال تھا کہ خواتین کے لیے تعلیم ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی جہاں آنے والی نسلیں اپنے مساوی حقوق پر زیادہ زور دیں گی۔

آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس (All India Muslim Ladies Conference) میں ان کا کردار تقریباً انقلابی رہنما جیسا تھا کیونکہ اس کانفرنس نے ہی خواتین کے اسکولوں کے قیام، خواتین مخالف روایات کے خلاف تنظیم اور خواتین کو اپنی سرپرستی میں سیاسی آواز بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

سنہ1920 میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی چانسلر بنیں۔اسی کے ساتھ وہ کسی بھی ہندوستانی یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر بنیں تھیں۔

راشد النساء: ایک وقت تھا جب خواتین کو لکھنے کا فن سیکھنے کی اجازت اس خوف سے نہیں تھی کہ کہیں وہ دیگر مردوں کو خط نہ لکھنے لگیں۔ حقوق نسواں کی علم بردار شاعرہ کشور ناہید نے لکھا کہ ایک عورت کے لیے لکھنا اور پھر اسے شائع کرنا اپنے آپ میں ایک انقلابی قدم تھا۔

یہ انقلاب 1894 میں اس وقت آیا جب ایک اردو ناول اصلاح النساء پٹنہ سے شائع ہوا۔ مصنف کے نام کی جگہ لکھا ہو اتھا: بیرسٹر سلیمان کی والدہ، سید وحید الدین خان بہادر کی بیٹی اور امداد امام کی بہن۔

جب کہ مصنفہ ایک خاتون تھیں، مگر یہ وہ وقت تھا جب کہ کسی خاتون کا نام نہیں لیا جا سکتا تھا کیونکہ ان کی عزت کے محافظ، معاشرے کے مرد، کتاب پر لکھی ہوئی خاتون کا نام برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

یہ اردو کا پہلا ناول تھا جو کسی خاتون نے لکھا تھا۔ وہ خاتون راشد النساء تھیں۔ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور راشد جہاں جیسی حقوق نسواں کی علم بردار خواتین مصنفین کا جشن مناتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ’بیرسٹر سلیمان کی والدہ‘ تھیں جنہوں نے دوسری خواتین کے لیے پرانی بیڑیاں توڑنے، لکھنے، شائع کرنے اور قدامت پسندی کو چیلنج کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔

محمدی بیگم: یکم جولائی 1898ء کو لاہور میں اردو کا ہفتہ وار رسالہ 'تہذیب نسواں' شائع کیا گیا۔ میگزین کی مفت کاپیاں کئی پڑھے لکھے لوگوں کو بھیجی گئیں جن کے جواب میں گالیوں سے بھرے خط موصول ہوئے۔ میگزین نے اس معاشرے کی بنیاد ہی ہلا دی جس کا تصور 'تعلیم یافتہ' نے کیا تھا۔ اگرچہ خواتین کو پڑھنے لکھنے کی اجازت بھی ہو تو انہیں مضامین لکھنے اور رسالوں کی ادارت کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی۔ تہذیب نسواں کی تدوین سیدہ محمدی بیگم نے کی تھی۔

معاشرے کے معزز یا تعلیم یافتہ مردوں کو مشتعل کرنے کے لیے یہ ایک بڑی وجہ تھی۔ محمدی کے والد سید شفیع محمد وزیر آباد (پنجاب) کے ایک اسکول کے پرنسپل تھے اور انہوں نے محمدی بیگم کو لکھنا پڑھنا، گھوڑے کی سواری اور کرکٹ کھیلنا سکھایا۔ محمدی بیگم نے کی شادی ایک پرنٹراور پبلیشر سید ممتاز علی سے ہوئی۔ اپنے شوہر سے انہوں نے اشاعت کا فن سیکھا اور شادی کے ایک سال کے اندر ہی اپنی ادارت میں ایک نئے رسالہ تہذیب نسواں کا اجرا کر دیا۔

ایک رسالہ کی تدوین اور مضامین لکھنے کے علاوہ محمدی نے خاص طور پر خواتین کے لیے اسکول قائم کیا اور لاہور میں خواتین کے زیر انتظام ایک مارکیٹ بھی قائم کیا۔

بیگم حجاب امتیازعلی:1939میں اخبارات نے لاہور کی بیگم حجاب امتیاز علی کے بارے میں ایک خبر شائع کی کہ وہ برطانوی سلطنت کی پہلی مسلمان خاتون بنیں جنہوں نے بطور ایئر پائلٹ لائسنس اے(A) حاصل کیا تھا۔

آج حجاب کواردو داں طبقہ ایک مصنف اور ایڈیٹر کے طور جانتا ہے۔ ان کے شوہر امتیاز علی ایک اعلیٰ درجے کے مصنف تھے۔ اب خود مصنفہ اور ان کی ساس محمدی بیگم ہندوستان کی پہلی خاتون ایڈیٹر تھیں۔ اور ایک ترقی پسند خاندان کا جھنڈا تھامے وہ 1936 میں پائلٹ بنیں۔ ان دنوں جن خواتین نے پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا تھا ، ان میں جے آر ڈی ٹاٹا کی بہنیں یعنی سیلی ٹاٹا (Sally Tata) اور رودابہ ٹاٹا(Rodabeh Tata) کے نام اول اول لیے جاتے ہیں۔

ان کے علاوہ ارمیلا پاریکھ (Urmila Parikh) نے بھی یہ لائسنس حاصل کیا تھا۔ مگرغلط طور سرلہ ٹھکرال (Sarla Thakral) کو اکثر اسکالرز نے پہلی ہندوستانی خاتون پائلٹ کے طور پر دعویٰ کیا ہے۔ جب کہ سرلہ ٹھکرال نے اسی کے آس پاس پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا تھا۔

فاطمہ بیگم: ہندوستان میں پہلے بننے والی فلموں میں بہت کم خواتین معاشرے کے خوف سے اداکاری کرنے کی ہمت کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ خواتین کے لیے لکھے گئے کردار بھی اکثر مرد ادا کرتے تھے۔ یہ ایسا وقت تھا جب فاطمہ بیگم نے فلم انڈسٹری میں ایک خاموش فلم ویر ابھیمنیو( Veer Abhimanyu) کی مرکزی اداکارہ کے طور پر قدم رکھا تھا۔  اور فاطمہ بیگم نے 1926 میں اپنا پروڈکشن ہاؤس، فاطمہ فلمز شروع کرکے مردانہ تسلط کو چیلنج کیا تھا۔ اورتواور انہوں نے ایک  فلم بلبلِ پرستان کا اسکرپٹ لکھا اور خود ہی اس کی ہدایت کاری کی۔

ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آرا کے ریلیز کیے جانے کے چار سال بعد فاطمہ نے اپنی بیٹی زبیدہ کےساتھ ایک فلم میں اداکاری کی تھی۔ فاطمہ پہلے ہی ہندوستانی سنیما کی پہلی خاتون اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹرکی حیثیت سے معروف ہو چکی تھیں۔ فاطمہ نے آئندہ چار سالوں تک کئی فلموں کی ہدایت کاری کی پھر انہوں نے رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے لی۔

گوہر جان: اپریل 1903 میں ہندوستانیوں نے اپنے میوزک مارکیٹ میں جرمنی کی گراموفون کمپنی کے بنائے ہوئے ریکارڈ دیکھے ۔ اس سے وہ متاثر ہوئے۔ اس وقت تک ہندوستانی گراموفون ریکارڈز سے نفرت کرتے تھے، کیوں کہ ان میں صرف مغربی موسیقی پیش کی جاتی تھی۔ لیکن یہ ایک مختلف قسم کا ریکارڈ تھا جہاں ایک خاتون تین منٹ کی ریکارڈنگ میں جوگیا راگ (Jogia Raga) گا رہی تھی۔

ریکارڈ نے ہندوستانیوں کے گراموفون کو سمجھنے کے انداز میں انقلاب برپا کردیا اور ہندوستان میں موسیقی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ یہ پہلا ریکارڈ جس لڑکی نے ریکارڈ کیا وہ کولکتہ کی گوہر جان تھیں۔ وہ پہلی ہندوستانی موسیقار تھیں جن کی آواز کوالیکٹرانک طور پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اس میدان میں وہ دروازے کھولے جن کے ذریعے بعد میں محمد رفیع، لتا منگیشکر، اے آر رحمان اور دیگر فن کاروں کے لیے کام کرنا آسان ہوگیا۔ 

فاطمہ بیوی: ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون فاطمہ بیوی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ججوں میں سے ایک جج کا عہدہ 6 اکتوبر 1989، کو سنبھالا تھا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ پہلی بار کوئی خاتون اس مردانہ قلعے میں گھس رہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ فاطمہ بیوی نے سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بن کر تاریخ رقم کی ہے۔

تاریخ سازی کے اس کاروبار میں وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے 1950 میں وہ بار کونسل آف انڈیا کے امتحان میں ٹاپ کرنے والی پہلی خاتون بنیں تھیں۔ انہوں نے خود اپنی تقرری کو اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کے لیےدروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

یوم عالمی خواتین کے موقع پر ان مسلم خواتین کو یاد رکھنا چاہیے اور ان سے تحریک لینا چاہیے؛جنہوں نے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور تمام دقیانوسی تصورات کو اپنےعمل اورعلم وفن سےغلط ثابت کردکھایا۔ انہوں نے سماج کی روایتی شیشے کی چھت توڑ دی تاکہ دوسرے بھی اوپر پہنچ سکیں۔