سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات (دوسری اور آخری قسط )

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2021
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ترقی اور فروغ کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ترقی اور فروغ کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں رہا

 

 

ڈاکٹرعبیدالرحمن ندوی،استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء

مسلمانوں کی کچھ سائنسی تصنیفات مغربی تعلیمی اداروں میں پوری پڑھائی گئیں جس نے یورپ میں سائنسی ترقی میں بڑا گہرا اثر ڈالا۔ ابن سینا کی ”القانون“، ابن ہیثم کی ”کتاب المناظر“اور الزہراوی کی ”کتاب التصریف“ بطور مثال قابل ذکر ہیں۔”کتاب القانون“ جو ایک جامع طبی تصنیف ہے اور جسے مغرب میں کینن کہاجاتاہے کا 1270ء میں عبرانی زبان میں ترجمہ ہوا۔ دو مصنفین نے اس کا ترجمہ لاطینی میں بھی کیااور یورپ میں اس کے تقریبًا تیس ایڈیشن شائع ہوئے۔ پندرہویں صدی میں اس کی متعدد شروحات لکھی گئیں۔ اس تصنیف کاایک خوبصورت عربی ایڈیشن روم میں ۳۹۵۱ء میں شائع ہوا۔پندرہویں صدی کے نصف آخر میں یورپی یونیورسٹیوں کا نصف طبی نصاب اس میں شامل تھااور مونپللئیر اور لووائیں کی یونیورسٹیوں میں یہ 1950ء تک بطور ایک نصابی کتاب کے جاری رہی۔کتاب کی پہلی جلد کا ترجمہ، بجز اس کے تشریحی حصہ کے، 1930ء میں انگریز ی میں ہوا۔ ”کتاب المناظر“ کا بھی ترجمہ لاطینی میں کیاگیا۔

اس کتا ب کے مصنف ابن الہیثم کو ”الحزن “ کہاجاتاہے، ایک ایسا نام جو یورپ میں آج تک یادکیاجاتاہے۔ جارج سارٹن کے مطابق اس کتاب نے یورپی سائنسدانوں پر گہرا اثرڈالا ہے (روجر بیکن سے لے کر کیپلر تک یعنی تقریبًا چھہ سو سال)۔ کتاب التصریف بارہویں صدی کی طب اور جراحی سے متعلق ایک ہمہ گیر تصنیف ہے۔کتاب التصریف کا ترجمہ کریمونا کے جیرارڈ نے لاطینی زبان میں کیااور اس کے متعدد ایڈیشین وینس میں 1497ء میں اور بیسل میں 1541ء میں شائع ہوئے۔ یہ 1778ء میں آکسفورڈ میں اصل عربی متن کے ساتھ شائع ہوئی۔اس ایڈیشن کا ایک نسخہ برٹش میوزیم میں اور ایک باڈیلین لائبریری میں موجود ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1961ء میں شائع ہوا، اور ایک فرانسیسی ترجمہ 1880ء میں ظہورپذیر ہوا۔ زہراوی کے اس شاہکار کی اہمیت صدیوں تک بطور جراحی کے دستور العمل کے سالیرنو ،مانٹپیلئر اوریورپ کے دوسرے شروعاتی اسکولوں میں قائم رہی۔عظیم یورپی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ فن جراحی میں یورپ اپنی ابتدائی ترقی کے لئے زہراوی کا مقروض ہے۔

ڈاکٹر جوزف ہیریس نے ابو القاسم زہراوی کی شناخت بطور ایک ممتاز جراح کے کی ہے۔ڈاکٹر ارنالڈ کیمپبل نے اپنی کتاب میں زہراوی پر ایک بڑا مقالہ تحریر کیاہے جو مغرب میں اس نام کی اہمیت کا انکشاف کرتی ہے۔ انہوں نے عالم آشکارا کیا ہے کہ مغربی سائنسداں جیسے راجر بیکن نے طب اور جراحی کا علم الزہراوی اور ابن رشد کی کتابوں سے حاصل کیاہے۔ متعدد عربی الفاظ اور سائنسی اصطلاحات جو آج کل یورپی زبانوں میں مستعمل ہیں مسلمانوں کی جدید سائنس کے تئیں خدمات کی زندہ یادگاریں ہیں۔علاوہ ازیں، ایشیا اور یورپ کی لائبریریوں میں کتابوں کی ایک بڑی تعداد، مختلف ملکوں کے عجائب خانوں میں محفوظ سائنسی آلات، صدیوں پیشتر تعمیر مساجد اور محلات بھی تاریخ عالم کے اس اہم مظہر کی واضح گواہی دیتی ہیں۔

آج کل کچھ یورپی زبانوں میں مستعمل کچھ عربی الفاظ اور اصطلاحات کا ذکردلچسپ ہوگا۔لاطینی، انگریزی اور فرانسیسی میں سیفر اصطلاحات عربی لفظ ”صفر“ سے مشتق ہے (جس کے معنی خالی یا عدم کے ہیں)۔ صفر ایک گنتی ہوتی ہے جو دوسری گنتی کے داہنی جانب لکھی جاتی ہے جس سے اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس اصل حقیقت کے باوجود جب ہم لفظ سائنس سنتے ہیں تو ہمارا دھیان یقینی طور پر مغرب کی طرف چلاجاتاہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ۱۔ متعصب مؤرخین نے مسلمان سائنسدانوں کے بہت سے نام نظرانداز کردئیے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ کا تذکرہ کرتے بھی ہیں تو مسخ شدہ شکل میں۔ غیر مسلموں کی کیابات کریں، پڑھے لکھے مسلمان بھی نہیں جانتے کہ بوعلی سینا، رازی اور جابر مسلمان تھے۔

ایسے کچھ نام درج ذیل ہیں: 

 لاطینی نام   عربی نام 

ابو القاسم الزہراوی    Albucasis

محمد ابن جابر ابن سنان البطانی   Albetinius

ابو علی ابن سینا    Avicenna

محمد بن زکریا الرازی       Rhazes

ابن رشد      Averroes

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی      Alkindus

ابو علی بن الحسین بن الہیثم       Alhazen

عبدالعزیز بن عثمان بن القبیصی    Alcabitius

عبدالملک بن ابی العلا زہر     Avenzoar

یہی مناسب وقت ہے کہ ہم مسلم سائنسدانوں کی خدمات اور انکے کارناموں کو سامنے لائیں تاکہ ہماری نئی نسل ان کے کارنامے جان سکے اور سائنس کے ان پیشواؤں کی خدمات سے مستفید ہوسکے۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے آج مسلمان تعلیم پر بہت کم توجہ دے رہے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ ہمارے پیشرو سائنسدانوں کی خدمات اور کاموں سے مستفید ہورہے ہیں۔ وقت کی یہ ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کواچھی تعلیم دیں اور انہیں اچھی صفات اور عمدہ معیار سے متصف کریں تبھی ہماری گزشتہ شان دوبارہ لوٹ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک نئے تمدن کی تشکیل کے لئے ہم اس پہلی وحی پر عمل کرسکتے ہیں جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل کیاتھا۔ارشاد خداوندی ہے: ”اے محمد! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے عالم کو پیداکیا، جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، اس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا“۔ (سورۃ العلق: ۵-۱)

(ختم شد )

 پہلی قسط   سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات