رحم: ایک عظیم نعمتِ خداوندی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 18-12-2021
رحم: ایک عظیم نعمتِ خداوندی
رحم: ایک عظیم نعمتِ خداوندی

 

 

awazthevoice

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

 استاد دار العلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ

آج سائنس اور ٹکنالوجی کی حیران کن خدمات اور کارناموں کے باوجود پورا عالم ایک تذبذب کی حالت میں ہے۔یہ کہنے کہ ضرورت نہیں کہ ہم نے رواداری،امن اور سکون کے تمام اصولوں کو فرقہ وارانہ اور غیر انسانی اعمال میں ملوث ہوکرتار تار کردیاہے۔ عفت وعصمت سے روگردانی،بدعنوانی اور ملاوٹ ہمارے خون میں داخل ہوچکی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کرنا ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ خوفِ خداہمارے اندرختم ہوچکاہے گویا کہ ہم نے خود کو درندوں کے رنگ میں ڈھال لیاہے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم انسان کی اصل قیمت اور عظمت بھول چکے ہیں۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:”یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اورانہیں خشکی وتری میں سواریاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سے مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی“۔(الاسراء:70)یہی وجہ ہے کہ قرآن مجیدبنی نوعِ انسان کو قتل کرنے کی سختی سے ممانعت کرتاہے۔”اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ”جس نے کسی انسان کو خُون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیااس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیااور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی“۔ (المائدہ: 32)۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سکندر، چنکیز،ہٹلر جیسے بڑے ظالمین جنہوں نے لوگوں کاقتلِ عام کیا وہ انسانی اقدار سے بالکل نابلدتھے۔ ذہن کو جھنجھوڑدینے والی موجودہ صورتِ حال میں یہی مشکل ہے کہ ہم ایسی گھناؤنی سرگرمیوں کو کیسے روکیں۔

اس تناظر میں ہم معروف عالم دین مولاناسید ابو الحسن علی حسنی کے فکرانگیزاقوال کا استحضار کرسکتے ہیں:”انسان کے پاس سب سے انمول چیز یہ ہے کہ وہ دوسرے کے درد سے متأثر ہوتاہے، کسی کے تلوے میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک اپنے دل میں محسوس ہوتی ہے۔ انسا ن کے پاس جو سب سے بڑا سرمایہ ہے وہ رحم کا سرمایہ ہے، وہ محبت کا سرمایہ ہے، وہ ایک آنسو ہے جو انسان کی آنکھ سے کسی بیوہ کے سرکو ننگا، کسی غریب کے چولہے کو ٹھنڈا، کسی مریض کی کراہ سن کر ٹپک پڑتاہے، آنسوکا وہ قطرہ جو سمندر میں ڈال دیاجائے تو اسے پاک کردے، گناہوں کے جنگل میں ڈال دیاجائے تو سب کو جلاکر نور سے بدل دے۔

فرشتے سب کچھ پیش کرسکتے ہیں لیکن آنسو کاوہ قطرہ نہیں پیش کرسکتے، جس کی قیمت آپ نے بھی نہیں پہچانی، جوایک انسان دوسرے انسان کے لئے بہاتاہے۔فرشتے اپنے مالک کو دیکھ کر اور اس کی ذات وصفات کو پہچان کرنہیں سوسکتے، لیکن وہ انسان جو کسی انسان کی مصیبت ودرد کی وجہ سے نہیں سوسکتا اس کے جاگنے کو فرشتوں کی بیداری نہیں پہونچ سکتی۔انسان کے پاس سب سے انمول چیز یہ ہے کہ اس کے اندر محبت کا مادّہ ہے، اس کو حرکت دینے والی کوئی چیز مل جائے تو وہ حرکت میں آجاتاہے، پھر وہ نہ مذہب دیکھتاہے، نہ ملت کو، نہ فرقے کو، نہ علاقے کو، نہ وطن کو دیکھتاہے، نہ ملک کو دیکھتاہے، انسان،انسان کا دل دیکھتاہے، اس کے درد کو محسوس کرتاہے، جس طرح مقناطیس لوہے کو کھنچتاہے اور وہ کھنچنے پر مجبور ہے، اسی طرح انسان کے دل کا مقناطیس انسان کے دل کو کھنچتاہے۔

مولانامزید فرماتے ہیں:”اگر انسان سے یہ دولت چھن جائے تو وہ دیوالیہ ہوجائے گا۔ اگر کوئی ملک اس سے محروم ہوجائے۔ اگر امریکہ کی دولت، روس کا نظام، عرب ممالک کے پٹرول کے چشمے ہوں،ہن برستاہو،سونے اور چاندی کی گناجمنا بہتی ہولیکن اس ملک میں محبت کا چشمہ خشک ہوچکاہو تووہ ملک کنگال ہے۔ اس ملک پر اللہ کی رحمتیں نازل نہ ہوں گی۔ابھی انسان کی آنکھ آنسو بہانے کے قابل ہے،ابھی انسان کا دل تڑپنے، سلگنے اور چوٹ کھانے کے قابل ہے۔ جودل اس قابل نہیں ہے، ایسے دل کو دل نہیں کہتے بلکہ پتھرکی سِل کہتے ہیں۔جو خدا کی بارگاہ میں کوڑی کے قابل نہیں،مسلمان کا دل ہویا ہندو،سکھ،عیسائی کا دل ہو، دل تو اس لئے ہے کہ وہ تڑپے، لرزے، روئے، اس میں زمین سے زیادہ شادابی، آبشار سے زیادہ سیرابی، کائنات سے زیادہ وسعت اور بادلوں سے زیادہ برسنے کی صلاحیت ہو ؎

کوئی جاکر کے کہہ دے ابر نیساں سے کہ یوں برسے

کہ جیسے مینھ برستاہے ہمارے دیدہئ تر سے

وہ آنکھ انسان کی آنکھ نہیں نرگس کی آنکھ ہے جس میں نمی نہ ہو، وہ دل انسان کا دل نہیں چیتے کا دل ہے، جس پر کبھی دردکی چوٹ نہ لگے، جو کبھی انسانیت کے غم میں رونا تڑپنا نہ جانے، وہ پیشانی جس پر کبھی ندامت کاپسینہ نہ آئے وہ پیشانی نہیں بلکہ کوئی چٹان ہے۔جوہاتھ انسانیت کی خدمت کے نہیں بڑھتا وہ مفلوج ہے۔ وہ ہاتھ جو انسان کی گردن کاٹنے کے بڑھتاہے، اس سے شیر کا ہاتھ بہتر تھا۔ اگر انسان کاکام کاٹناتھاتو قدرت اس کو بجائے ہاتھوں کے تلواردے دیتی۔ اگر انسان کا مقصدِ زندگی صرف مال جمع کرناتھا تو اس کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کے بجائے ایک تجوری رکھ دی جاتی۔ اگر انسان کا کام صرف تخریب کے منصوبے بناناتھا تو اس کے اندر انسان کا دماغ نہ رکھاجاتا بلکہ کسی شیطان،کسی راکشس کا دماغ رکھ دیاگیاہوتا“۔ (اسلام کا تعارف:157-159)

یہ لازمی ہے کہ ہم دہشت گردی کے غیر انسانی حرکات سے دور رہیں۔ کوئی بھی مذہب اس قسم کی زیادتیوں اور جرائم کی اجازت نہیں دیتا۔ اورجو کوئی ان بھیانک جرائم اور برے اعمال کا ارتکاب کرتاہے،تو وہ اپنے مذہب کا صحیح پیروکار نہیں ہے۔ وہ ایک بدنما دھبہ ہے، ایک بدتہذیب اور اپنے دین کا غیر مخلص ہے۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کی پوری طرح پیروری کریں۔ مزید برآں، بلا تفریق ذات پات، مسلک، رنگ علاقہ ہمیں انسانی برتاؤ کو فروغ دیناچاہئے اور غریبوں اور سماج کے دبے کچلے طبقے کے لئے رفاہی اور خیراتی خدمات انجام دینی چاہئے۔اس دعویٰ کو مختصرًا بیان کرنے کے لئے مناسب ہوگا کہ نبی پاک ﷺ کے اس قول کو نقل کردیاجائے کہ ”اللہ انہیں پر رحم کرتاہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں“۔ مولانا الطاف حسین حالی نے نہایت خوبصورت اور مناسب انداز میں نبی کریم ﷺ کی مذکور بالا حدیث کو اس شعر میں نظم کردیاہے:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر