مولانا وحیدالدین خاں: ایک نابغہ عصر، جو نہ رہا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مولانا ہمیشہ حق کے متلاشی رہے
مولانا ہمیشہ حق کے متلاشی رہے

 

 

 پروفیسر اخترالواسع

مولانا وحیدالدین خاں (ولادت یکم جنوری 1925بڈھیریا، ضلع اعظم گڑھ: وفات نئی دہلی 21اپریل 2021) کا انتقال کورونا مہاماری کے اس وبائی دور میں ملت اسلامیہ کا ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کا بھی جو امن کے حامی اور متلاشی ہیں، کا بڑا سانحہ ہے۔ مولانا یوں تو اپنی عمر طبعی کو پہنچ چکے تھے لیکن ابھی تک پوری طرح اپنے ہوش و ہواس میں تھے، ذہنی طور پر پوری طرح چاق و چوبند تھے۔ لیکن بہرحال جس کے لیے جو وقت اور جگہ قضا و قدر کی طرف سے متعین ہے اس سے کوئی مفر نہیں۔ مولانا کی زندگی آخر دم تک تلاشِ حق میں بسر ہوئی۔ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری لیکن وہ لکیر کے فقیر نہ تھے۔ وہ جماعت اسلامی، دارالعلوم ندوۃ العلماء، جمعیۃ العلماء ہند اور تبلیغی جماعت سب سے وابستہ رہے لیکن پھر انہوں نے اپنے لئے اپنا ایک نیا راستہ نکالا اور امن و خیرسگالی کے قیام کے لئے اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب کے بیچ ایک مکالمے کی داغ بیل بھی ڈالی۔

انہوں نے قرآن کریم کی تذکیرالقرآن کے نام سے تفسیر بھی لکھی، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر بھی قلم اٹھایا، اسلام اور خواتین پر بھی ایک کتاب لکھی، علم جدید کا چیلینج ان کی وہ معرکۃ الآرا کتاب ہے جس نے انہیں عالمگیر شہرت عطا کی۔ یہاں یہ بات کم دلچسپ نہیں ہے کہ سوویت بلاک اور کمیونزم کا بحیثیت ایک نظریے کے زوال بیسویں صدی کے اواخر میں نوے کی دہائی کے شروع کے سالوں میں ہوا۔ لیکن مولانا وحیدالدین خاں نے اس سے کئی برس پہلے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ”ماکسزم:تاریخ جسے رد کر چکی ہے“تصنیف کی تھی۔ اس کتاب کی تصنیف کا وقت ایسا تھا کہ جب کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مولانا وحیدالدین خاں بیسویں صدی میں جنم لینے والے ان مسلمان نابغہ عصر علماء میں سے ایک تھے جنہوں نے عصری اسلام میں جدید علم کلام کی بنیاد ڈالی اور نئے زمانے میں اسلام کو درپیش چیلنجوں کا مسکت اور مثبت جواب دینے کی کوشش کی۔

مولانا وحیدالدین خاں نے اپنے انداز سے جو ایک بڑا کام کرنے کی کوشش کی وہ یہ کہ انہوں نے دینِ اسلام کی تعلیمات اور سائنس کے بیچ تطبیق کی کوشش کی اور اپنے انداز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سائنس دینیات کے تابع ہے۔ مولانا نے دین کی تفہیم میں سائنس، اصولوں اور دلائل کا استعمال کرنے کی اپنے انداز سے مستحسن کوششیں کیں ہیں۔ مولانانے اپنے قلم کی سحر آفرینی سے اردو زبان و ادب کو وہ علمی نثر عطا کی جس میں سلاست بھی ہے اور حلاوت بھی۔ جس میں دل آویزی بھی ہے اور دلکشی بھی۔ اس نثر کی خوبی یہ ہے کہ نہ اس میں مبالغہ ہے اور نہ غلو۔ مولانا نے اپنے مشہور زمانہ ماہنامے ”الرسالہ“ کے ذریعے اردو زبان کو متمول بنانے میں غیرمعمولی رول ادا کیاہے ساتھ ہی اردو زبان کے مذہبی ذخیرے کو ایک نئی پہچان عطا کی ہے۔ مولانا کا ہمہ تن لکھتے پڑھتے رہنا ہی دراصل ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور اسی لئے وہ اپنے دم سے اکیلے ہی ”الرسالہ“ کی تصنیف بھی کرتے تھے اور ترتیب بھی دیتے تھے اور اس کے علاوہ ان کے قلم سے کتنی کتابیں اور کتابچے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر ہم سب کے سامنے آئے۔ اس طرح کی کثرت اور تنوع کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے انگریزی اور ہندی سمیت دیگر کئی زبانوں میں بھی اس لٹریچر کی اشاعت کو یقینی بنایا۔

مولانا ہمیشہ حق کے متلاشی رہے اور جس کو صحیح جانا اور جب تک صحیح جانا اس کے ساتھ رہے لیکن اگر انہیں کسی سے اختلاف ہوا تو انہوں نے اس کے اظہار میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیا اور اس کے نتیجے میں مولانا کو سخت مخالفتوں کو جھیلنا پڑا لیکن انہوں نے جس چیز کو صحیح سمجھا اس پر کبھی بھی اور کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ مولانا اس کے باوجود جمہوریت پسند تھے اور جس طرح وہ اپنی رائے رکھنے اور اس کو ظاہر کرنے کو صحیح سمجھتے تھے اسی طرح دوسروں کو بھی اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کو جائز سمجھتے تھے۔

مولانا کی شخصیت کی علمی اور فکری اہمیت کو سمجھنے کے لیے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید سعادت اللہ حسینی کا خراج عقیدت اس کا سب سے بڑا گواہ ہے۔ انہوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ”مولانا وحیدالدین خاں ان مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے ہمارے زمانے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔

ملک میں مختلف مذہبی فرقوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور ان کے درمیان مکالمے و تبادلہ خیال کی فضا پیدا کرنے میں مولانا کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اسلام کو جدید اسلوب میں اور محکم سائنسی اور منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے کے لئے مولانا مرحوم کی کوششیں بھی انشاء اللہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بنیں گی۔ علم جدید کا چیلنج، مذہب اور جدید چیلنج، عظمت قرآن، اسلام دورِ جدید کا خالق، پیغمبر انقلاب وغیرہ جیسی معرکۃ الآرا تصانیف نے مولانا کو برصغیر کی اسلامی علمی روایات کا ایک اہم سنگ میل بنا دیا ہے۔

ان کی رحلت سے ملک و ملت کو بڑا خسارہ ہوا ہے۔“ مولانا وحیدالدین خاں کو امیر جماعت اسلامی ہند کا یہ خراج عقیدت اس لیے اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ مولانا جماعت اسلامی سے اصولی اختلاف کرکے برسوں پہلے نہ صرف علیحدہ ہوئے تھے بلکہ”تعبیر کی غلطی“ جیسی کتاب لکھ کر جماعت اسلامی پر سخت تنقید بھی کی تھی۔ سعادت اللہ حسینی صاحب کا یہ بیان ان کی اعلی ضرفی اور جمہوری مزاج اور اسلامی اقدار سے تو مطابقت رکھتا ہی ہے ساتھ میں مولانا کی اہمیت کا بھی آئینہ دار ہے۔

مولانا کی موت پر انہیں ایک خراج عقیدت وزیراعظم شری نریندر مودی نے بھی پیش کیا ہے جو مولانا کی قومی زندگی میں اہمیت کا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے اظہار تعزیت میں بالکل صحیح کہا ہے کہ ”مولانا کی علمی بصیرت او رروحانیت کو یاد رکھا جائے گا۔ انہیں دین اور روحانیت کے بارے میں انتہائی درجے کاکمال حاصل تھا۔“ یاد رہے کہ مولانا کو اس یوم جمہوریہ پر ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز سے سرفراز فرمایا تھا۔ مولانا کی زندگی میں اور شاید اب ان کے بعد بھی ان سے اختلاف رکھنے والوں کی تعداد شاید کم نہ ہوگی لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی مولانا کی شخصیت کی عظمت اور اہمیت کی پہچان بھی ہے۔ اختلاف اسی سے کیا جاتا ہے جو فکری اور عملی طور پر اس کا اہل ہوتا ہے اور بلاشبہ مولانا وحیدالدین خاں ہماری دینی فکر وعمل کا وہ نمونہ تھے جنہوں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں وہ پتھر پھینکے کہ جن سے اٹھنے والی موجوں کا ارتعاش ہماری سوچ کو نئی سمت اور آگہی بخشے گا۔ (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)