مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات: گھنی چھاؤں سے محرومی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات: گھنی چھاؤں سے محرومی
مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات: گھنی چھاؤں سے محرومی

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، نئی دہلی

" آپ ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں _ ڈاکٹر بن جائیں گے _ خوب کمائیں گے _ لیکن ہزاروں ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر ہوں گے _ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ میں لکھنے کی اچھی صلاحیت ہے _ آپ دین کی خدمت کرسکتے ہیں _ اس صورت میں آپ زیادہ مال دار تو نہیں بن سکیں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کا درجہ بہت بلند ہوگا اور امّت بھی آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی_"

چار دہائیوں قبل کسی موقع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے ، جو اُس وقت ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے سکریٹری تھے ، مجھے مخاطب کرکے یہ جملے کہے تھے ، جنھوں نے میری زندگی کا رخ بدل دیا _ میں علی گڑھ طبِ یونانی کی تعلیم حاصل کرنے گیا تھا _ پڑھنے میں ٹھیک ٹھاک تھا _ بہت سے خواب سجا رکھے تھے _ لیکن بہت جلد مولانا نے اپنا گرویدہ بنالیا _ میری تعلیم تو جاری رہی ، لیکن زیادہ تر اوقات ادارۂ تحقیق میں گزرنے لگے _

کالج میں جب بھی کوئی پیریڈ خالی ہوتا میں سائیکل سے 5 منٹ میں ادارہ پہنچ جاتا _ 1986 میں مولانا سید احمد عروج قادری کا انتقال ہوا اور مولانا سید جلال الدین عمری جماعت کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کے مدیر بنائے گئے تو انھوں نے مجھے مولانا عروج قادری کی تحریریں جمع کرنے کا حکم دیا _ میں نے تقریباً ایک درجن مجموعے تیار کردیے _ دورانِ طالب علمی ہی میرے مضامین ادارۂ تحقیق کے ترجمان سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ میں شائع ہونے لگے _ بی یو ایم ایس کے بعد میرا ایم ڈی میں داخلہ ہوگیا _ مولانا سے میری قربت میں بھی اضافہ ہوتا گیا _ چنانچہ مولانا کے کہنے پر میں ایم ڈی کے امتحان سے فراغت کے اگلے دن ادارۂ تحقیق سے وابستہ ہوگیا _

مولانا نے مجھے ادارۂ تحقیق میں روکے رکھنے کے لیے کتنی تدبیر کی ، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے _ ادارہ میں میرا ایک سال پورا ہوا تو مولانا نے مجھے بلاکر کہا: " ادارہ میں مستقل ہوجانے سے سہولیات میں اضافہ ہوجاتا ہے _ یہ لکھ کر دے دیجیے کہ آپ ادارہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے _ اس کی بنیاد پر ادارہ کی مجلسِ منتظمہ آپ کو مستقل کردے گی _" میں نے برجستہ جواب دیا :" مجھے یہ لکھ کر دے دیجیے کہ چاہے میں ٹھیک سے کام کروں یا نہ کروں ، مجھے کبھی ادارہ سے نہیں نکالا جائے گا _" مولانا کو میری جانب سے اس جواب کی امید نہیں تھی _ وہ کسمسائے _

اسی بات کو انھوں نے دو تین بار دہرایا ، لیکن میرے جوابی الفاظ بھی نہیں بدلے تو مولانا نے عاجز آکر کہا :” اچھا ، جو کہہ رہے ہو ، وہی لکھ دو _“ ظاہر ہے ، اس اندازِ تحریر کی وجہ سے میرے مستقل تقرّر پر غور ممکن تھا نہ مجھے اس کی توقّع تھی ، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ادارہ کی مجلسِ منتظمہ کے اجلاس کے بعد مولانا نے میرے ہاتھ میں مستقل تقرّر کا اطلاع نامہ تھما دیا_

ادارۂ تحقیق سے میری وابستگی مئی 1994 میں ہوئی تھی ، جو بہ حیثیت رکن اگست 2011 تک جاری رہی _ اس کے بعد مولانا نے مجھے مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی بلا لیا_ میں 1998 سے تحقیقات اسلامی کی ادارت میں تعاون کرنے لگا تھا ، البتہ بہ حیثیت مدیر معاون اس پر میرا نام 2003 سے طبع ہونے لگا _ میری خوش قسمتی ہے کہ میری تقریباً تمام تحریریں مولانا کی نظر سے گزری ہیں اور ان کے قلم سے نوک پلک کی درستی کے بعد ہی طبع ہوئی ہیں _ میں کہہ سکتا ہوں کہ مولانا نے مجھے قلم پکڑ کر لکھنا سکھایا ہے _ میرے تمام موضوعات مولانا کے تجویز کردہ ہیں _

اگرچہ مجھے قرآنیات پر لکھنے کا شوق تھا ، لیکن مولانا سے اثر پذیری کے نتیجے میں دھیرے دھیرے 'نسائیات' میرا موضوعِ اختصاص ہوتا گیا _ تحقیقات اسلامی کی ادارت کے دوران میں مولانا سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا _ میں مضامین حاصل کرتا ، ان کی ایڈیٹنگ کرتا ، کمپوزنگ کرواتا ، پروف ریڈنگ اور تصحیح کے بعد مولانا کی خدمت میں پیش کرتا تو وہ اس کا ایک ایک لفظ پڑھتے ، تصحیحات کرتے اور بعض مضامین پر ضروری نوٹ لگاتے _ جولائی - ستمبر 2022 کے شمارے کو بھی ، جسے 10 روز پہلے پریس کے حوالے کیا گیا تھا ، انھوں نے مکمل دیکھا تھا_

مولانا مجھے بہت قریب رکھتے تھے _ مجھے ان کے ساتھ متعدد اسفار کرنے کا موقع ملا _ ایک یادگار سفر وہ تھا جب مولانا پچاس برس کے بعد اپنے وطن پتّگرام (تامل ناڈو) تشریف لے گئے تھے _ 1954 میں جب وہ جامعہ دار السلام عمر آباد سے فراغت کے بعد اُس وقت کے مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور تشریف لائے تھے ، اس کے بعد سے انھوں نے کبھی اپنے وطن کا رخ نہ کیا تھا _ اس موقع پر ان کے گاؤں والوں نے ، جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے ، ان کا بڑا والہانہ استقبال کیا تھا _ میں نے اس سفر کی روداد لکھی ، جو پہلے سہ روزہ دعوت میں ، پھر تحقیقات اسلامی میں شائع ہوئی تھی _

مولانا کے ساتھ مجھے دو مرتبہ پاکستان کا سفر کرنے کا موقع ملا : پہلی مرتبہ 2012 میں ادارۂ نور حق کراچی کی جانب سے منعقدہ 'قرآن نمائش' میں شرکت کرنے کے لیے ، جب لاہور ، حیدر آباد اور اسلام آباد بھی جانے کا موقع ملا تھا (اس سفر کی روداد میری مرتّب کردہ ' خطباتِ پاکستان' میں شامل ہے ) اور دوسری مرتبہ 2014 میں جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ عام میں شرکت کرنے کے لیے ، جو مینارِ پاکستان کے قریبی میدان میں منعقد ہوا تھا_

مولانا نے مجھے اپنے بیٹے کی طرح سرپرستی عطا کی _ ان کے قریبی تعلقات میری چار نسلوں سے تھے _ میرے علی گڑھ قیام کے دوران والد محترم وہاں تشریف لاتے تو ادارۂ تحقیق حاضر ہوتے اور مولانا ان سے بہت محبت سے ملتے _ میرے بیٹے پر شفقت فرماتے _ آخری دنوں میں ، جب وہ ہاسپٹل میں داخل تھے ، اس سے کہا : " تم تو اسی ہاسپٹل میں کام کرتے ہو ، آجایا کرو ، چنانچہ وہ صبح شام ان کے پاس جاتا اور خیریت دریافت کرتا رہا _ میرا پوتا ابراہیم 4 برس کا ہے _ رات اسے مولانا کا فوٹو دکھاکر پوچھا :" انہیں پہچانتے ہو ؟" کہنے لگا :" ہاں ، میں ان کے گھر گیا تھا تو انھوں نے مجھے جوس پلایا تھا _" میری اہلیہ سے بھی انسیت رکھتے تھے _

میرے علی گڑھ میں دورانِ قیام میری بچی کا پیدائش کے دو دن کے بعد انتقال ہوگیا _ مولانا ان دنوں دہلی میں تھے _ انھوں نے اطلاع ملتے ہی علی گڑھ کا سفر کیا ، نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور مجھ سے تعزیت کی _ مولانا سے انٹریو لینے والے اور صحافی حضرات ان کے حالاتِ زندگی دریافت کرتے تو وہ کہہ دیتے : " رضی الاسلام کو سب معلوم ہے ، ان سے رابطہ کر لیجیے _" آخری دنوں میں مولانا کا معمول بن گیا تھا کہ روزانہ صبح دفتر آتے ہی فوراً مجھے طلب کرتے اور اپنی زیرِ ترتیب کتابوں کے سلسلے میں گفتگو کرتے _ مولانا کو دس دن قبل اسپتال میں داخل کیا گیا تھا _

اسی دوران میں مجھے جماعت کی طرف سے جھارکھنڈ کا دورہ کرنا پڑا_ 24 اگست کی شب میں میری واپسی ہوئی _ مولانا کی نقاہت بہت بڑھ گئی تھی _ میں فوراً اسپتال پہنچا _ مولانا آنکھ بند کیے ہوئے تھے _ تھوڑی دیر کے بعد ان کی آنکھ کھلی _ مجھے دیکھتے ہی بولے : " کب آئے؟" میں نے جواب دیا : " بس چلا آرہا ہوں _" پھر دریافت کیا : " کہاں گئے تھے؟" میں نے جواب دیا : "جھارکھنڈ " _ یہ میری ان سے آخری گفتگو تھی _

لوگو!مولانا جماعت اسلامی ہند کے امیر تھے ، جماعت کو ان کا جانشین مل گیا _ مولانا مختلف اداروں کے ذمے دارانہ مناصب پر فائز تھے _ ان میں بھی دوسرے لوگ ان کی جگہ سنبھال لیں گے _ لیکن تعزیت کا مستحق تو میں ہوں کہ میرے لیے مولانا کا کوئی بدل نہیں _ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب تک میں ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میں تھا ، اچانک یہ چھاؤں ہٹ گئی ہے اور میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑا ہوں_