مولاناآزاد:عالم دین جس نے ہندوستان کو جدیدتعلیم کے راستے پرڈالا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مولاناآزادجوآج بھی سبھی طبقوں کے لئے قابل احترام ہیں
مولاناآزادجوآج بھی سبھی طبقوں کے لئے قابل احترام ہیں

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

مولانا ابوالکلام آزاد 1947 سے 1958 تک پنڈت جواہر لال نہرو کی کابینہ میں وزیر تعلیم رہے۔ ان کا انتقال 22 فروری 1958 کو دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ یہ جاننادلچسپ ہوگا کہ جس شخص نے اپنے دورطالب علمی میں کبھی کالج،یونیورسٹی کا منہ نہیں دیکھا،اس نے آزادہندوستان کو تعلیمی میدان میں اپنے پائوں پر کھڑاکردیا۔ آج جو ہم ملک میں جدیدتعلیمی ادارے دیکھ رہے ہیں،یہ انھیں کی دوراندیشی کا نتیجہ ہیں۔ مولاناآزاد نے آئی آئی ایم،آئی آئی ٹی اور یوجی سی(یونیورسٹی گرانٹ کمیشن) جیسے اداروں کے قیام میں قابل ذکر کردار ادا کیا۔ ان کی شراکت کے پیش نظر، انہیں 1992 میں بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا گیا اور ہندوستان میں ان کی سالگرہ کو ’’قومی یوم تعلیم‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

awaz

مہاتماگاندھی اورپنڈت جواہرلعل نہروکے ساتھ مولاناآزاد

مولاناآزادکون؟

مولانا آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ، میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابوالکلام غلام محی الدین احمد تھا لیکن وہ مولانا آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ جدوجہد آزادی کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی اور ادیب بھی تھے۔ ان کے والد کا نام مولانا سید محمد خیر الدین تھا۔ ان کے والد عالم و صوفی تھے اور12 کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ مدرس بھی تھےاوران کے سینکڑوں شاگردتھے۔ آزاد کی والدہ کا نام عالیہ تھا۔1890 میں ان کا خاندان مکہ سے کلکتہ(ہندوستان) منتقل ہو گیا۔اس دور کے رواج کے مطابق 13 سال کی عمر میں ان کی شادی زلیخا بیگم سے ہوگئی۔حالانکہ وہ لاولدرہے۔ان کے بچے نہیں ہوئے اور انھوں نے اپنی زندگی ملک کے نام کردی۔

ماہرتعلیم جوکبھی اسکول نہیں گیا

 آزاد نے اپنے خاندان کی روایت کے مطابق روایتی اسلامی تعلیم حاصل کی۔ پہلے انھیں گھر میں پڑھایا گیا اور بعد میں ان کے والد نے پڑھایا۔ پھر دوسرے اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ آزاد کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا، اس لیے ابتدا میں انھوں نے صرف اسلامی مضامین ہی پڑھے مگربے حدذہین تھے اوران کے اندرگہراعلمی شغف تھا جس کے سبب انھوں نے گئی زبانوں میں مہارت حاصل کرلی تھی جن میں اردو، ہندی، فارسی، بنگالی، عربی اور انگریزی جیسی کئی زبانیں شامل تھیں۔وہ انگریزی پڑھتے اورسمجھتے تھے مگر بولنے کی مشق نہیں تھی۔

انہوں نے مغربی فلسفہ، تاریخ اور عصری سیاست کا بھی گہرامطالعہ کیا۔علاوہ ازیں افغانستان، عراق، مصر، شام اور ترکی جیسے ممالک کا سفر کیااور بہت کچھ سیکھا۔ اپنی تعلیم کے دوران، وہ ایک بہت ہونہار اور مضبوط ارادے والے طالب علم تھے۔خود سے دگنی عمروالے طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ 16 سال کی عمر میں انھوں نے روایتی مضامین کی تعلیم مکمل کر لی تھی۔

awaz

سردارولبھ بھائی پٹیل اوراپنےعہدکی تاریخ سازشخصیات کے ساتھ مولاناآزاد

قوم پرست آزاد

افغانستان، عراق، مصر، شام اور ترکی کے دوروں کے دوران انھوں نے ان انقلابیوں سے ملاقاتیں کیں جو اپنے ملک میں آئینی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اور اسی وجہ سے انھیں ملک بدر کردیا گیا تھا۔ ان انقلابیوں سے انھیں ملک کے حقیقی حالات کا علم ہوا اور وہ قوم پرست انقلابی بننے کی تحریک میں آگئے۔

قیام پاکستان کے خلاف

مولاناآزادنے جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیااورمتعددبارجیل گئے۔ تب تمام ہندوستانی، انڈین نیشنل کانگریس کے پرچم تلے آزادی کے لئے جدوجہدکر رہے تھے مولاناکو اس پارٹی کا صدر بھی بنایاگیا۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کو بھی مسترد کر دیاتھا۔ یعنی انہوں نے مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ملک پاکستان بنانے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ان مسلم سیاستدانوں سے اپیل کی کہ وہ قوم کے مفاد میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

ناقابل فراموش

آزاد ہندوستان میں بیشتر مجاہدین آزادی کو فراموش کردیا گیامگر مولانا ابولکلام آزاد کو نہیں بھلایا گیا۔ مولانا کے نام پر کانگریس عہد حکومت میں سڑکوں اور اسکیموں کے نام رکھے گئے۔ اسکولوں،کالجوں اور اداروں کے نام منسوب کئے گئے۔مرکز میں جب غیر کانگریسی سرکاریں آئیں توانھوں نے بھی مولانا کو نظر انداز کرنے کی جرأت نہیں کی اور موجودہ سرکار میں بھی مولانا آزاد کا نام زندہ رکھا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مولانا آزاد کو کیوں فراموش نہیں کیا گیااور کانگریس سے لے کر بی جے پی تک کیوں انھیں یاد رکھنے پر مجبور ہیں؟ مولانا آزاد کا علمی اور سیاسی وارث کون ہے؟ نہرو کی وراثت صرف کانگریس تک محدود ہے یا دوسروں کو بھی اس پر حق جتانے کا اختیار ہے؟ ڈاکٹر امبیڈکر، صرف بہوجن سماج پارٹی کے ہیں یا ان پر کسی دوسری سیاسی پارٹی کا بھی حق بنتا ہے؟حالانکہ اس قسم کے سوالات کے پیچھے گھٹیا سیاست کے سوا کچھ نہیں۔

بابائے قوم مہاتما گاندھی ایک بڑے لیڈر گزرے ہیں جن کے نظریات نے ایک دنیا کو روشنی دکھائی اور اہنسا کا پیغام دے کر انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ تشدد سے زیادہ طاقت ور، عدم تشدد کا ہتھیار ہے۔ گاندھی نے بے سروسامانی کے عالم میں جدوجہد کا راستہ دکھایا اوردنیا کو سمجھایا کہ اسلحے سے زیادہ خطرناک ہتھیار، آندولن ہے۔ آج اسی گاندھی کی وراثت کے لئے نیتائوں میں جنگ چل رہی ہے۔ وہ نیتا ،لڑرہے ہیں جن کا گاندھی کے افکار وخیالات سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ خود گاندھی کی جماعت، کانگریس نے بار بار اقتدار کے لئے ان کےنظریات کا قتل کیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہی حال پٹیل ، آزاد اور نہرو کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

سب کے لئے قابل قبول

مولانا ابولکلام آزاد مجاہدآزادی تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ وسال جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزارے تھے۔وہ کانگریس کے صدر رہے اور ہندوستان کے اولین وزیرتعلیم بھی بنے۔وہ ان شخصیات میں شامل ہیں جن کا احترام کانگریس سے لے کر بی جے پی تک کرتی ہیں۔ ان کے نام کو سرکاری اسکیموں کے ساتھ جوڑ کر بھی زندہ رکھا جا رہا ہے اور اقلیتوں سے جڑی یوجنائوں میں ان کا نام اب بھی باقی رکھا گیا ہے۔ مثلاً مولانا آزاد مائناریٹی فائونڈیشن ایک سرکاری ادارہ ہے جو مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کے تحت چلتا ہے۔ اس کے تحت اقلیتوں کو تعلیمی اسکالرشپ وغیرہ دیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے نام کو اب تک نہیں بدلا گیا ہے جب کہ موجودہ سرکار نہرو،اندرا اور راجیو کے نام پر چلنے والے کئی اداروں اور اسکیموں کے نام بدل چکی ہے۔