دینی مدارس ، علمائے کرام اور جماعت اسلامی ہند

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-02-2022
دینی مدارس ، علمائے کرام اور جماعت اسلامی ہند
دینی مدارس ، علمائے کرام اور جماعت اسلامی ہند

 


ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، نئی دہلی

ایک ہفتہ (23 تا30 جنوری 2022) میں نے گجرات میں گزارا ، وہاں کے تقریباً 15 بڑے مدارس میں جانا ہوا اور ان کے ذمے داروں ، اساتذہ اور سینیئر طلبہ سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔اس دورہ سے وہاں کے مدارس کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں اور بڑے خوش گوار تجربات ہوئے۔

جماعت اسلامی ہند نے اصلاحِ معاشرہ کے لیے جو پروگرام ترتیب دیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ دینی مدارس اور ان کے ذمے داروں سے قریبی روابط رکھے جائیں اور علمائے کرام سے دعوت و اصلاح کے کام میں تعاون حاصل کیا جائے۔  اس کے لیے ریاستی سطح پر مجلس العلماء ، اتحاد العلماء ، تنظیم العلماء ، علماء فورم جیسے ناموں سے علماء کی جمعیتیں بنائی گئی ہیں اور انہیں مل جل کر آزادانہ کام کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔

مرکزِ جماعت میں ہر دو برس پر ہفتہ عشرہ پر مشتمل اجتماع منعقد کیا جاتا ہے ، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے نوجوان علماء شرکت کرتے ہیں اور ان کے سامنے عصری اہمیت کے حامل موضوعات پر تقاریر اور مذاکرے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پورے ملک میں مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے اور ان کے ذمے داروں سے خوش گوار شخصی روابط استوار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی منصوبے کے تحت میرے دورۂ گجرات کو طے کیا گیا تھا۔اس دورہ کا حاصل ذیل میں نکات کی شکل میں پیشِ خدمت ہے :

(1) گجرات میں دینی مدارس بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ بعض قدیم ہیں اور بہت سے دس بیس برسوں کے اندر قائم ہوئے ہیں۔ ان میں عموماً درس نظامی کا نصاب رائج ہے۔ دورہ تک تعلیم ہوتی ہے۔اس کے بعد مزید تعلیم کے خواہش مند طلبہ شمال کا رخ کرتے ہیں اور دار العلوم دیوبند ، مظاہر علوم سہارن پور ، ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بعض مدارس نے اپنے یہاں اختصاص کے شعبے ، مثلاً تدریبِ افتاء اور تعارفِ اسلام ، بھی قائم کر رکھے ہیں۔

(2) مدارس کے ذمے داروں کی توجہ دینی تعلیم کی فراہمی کے ساتھ جدید علوم پر بھی ہے۔ کچھ مدارس عالمیت کے کورس کے ساتھ دسویں اور بارہویں کا امتحان بھی دلا دیتے ہیں۔کچھ مدراس کے ذمے داروں نے الگ سے اسکول بھی قائم کر رکھے ہیں۔ کچھ ادارے فارغینِ مدارس دینیہ کو جدید علوم و فنون سے بہرہ ور کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

(3) گجرات کے مدارس عمومی چندہ کے علاوہ مُحسنین کے خصوصی تعاون سے چلتے ہیں۔ وہاں کے خاصے لوگ ملک سے باہر ہیں ، یا اندرونِ ملک اچھی تجارت کرتے ہیں۔ یہ حضرات دل کھول کر مدارس کو چندہ دیتے ہیں۔ اس کا اثر ان مدارس کی عظیم الشان عمارتوں اور وہاں اساتذہ اور طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے ظاہر ہوتا ہے۔

(4) مدارسِ گجرات کے ذمے داروں میں ذہنی و فکری توسّع کا مشاہدہ ہوا۔ وہ ہر مکتبِ فکر کے علماء سے روابط رکھتے ہیں ، انہیں اپنے مدارس میں مدعو کرتے ہیں اور ان سے استفادہ میں انہیں کوئی تکلّف نہیں ہوتا۔

(5) جماعت اسلامی ہند کے ریاستی ذمے دار وقتاً فوقتاً مدارس کا دورہ کرتے رہے ہیں اور ان کے ذمے داروں سے انھوں نے ملاقاتیں کی ہیں۔اس کی وجہ سے بھی تعلقات میں خوش گواری آئی ہے۔پہلے شفیع مدنی صاحب امیر حلقہ گجرات تھے ، اب شکیل احمد راجپوت صاحب ہیں۔ مدارس کے ذمے داروں نے دونوں کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا۔

(6) جماعت اسلامی ہند دینی مدارس کے لیے اب نامانوس نہیں رہی ہے۔اس کی خدمات اور اس کے کاموں سے مدارس کے وابستگان اچھی طرح واقف ہیں۔ گجرات کے 2002 کے فسادات میں جماعت نے بڑے پیمانے پر ریلیف کا کام کیا تھا اور ان کے متاثرین کی اب تک امداد کررہی ہے۔ان کاموں نے لوگوں کے دلوں میں جماعت کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا ہے۔

(7) ایک زمانے تک روایتی علماء اور دینی مدارس کے ذمے داران مولانا سید ابو الاعلی مودودی سے توحّش محسوس کرتے تھے ، ان کے بعض خیالات پر سخت تنقیدیں کرتے تھے اور چوں کہ مولانا جماعت اسلامی کے بانی ہیں ، اس لیے جماعت اسلامی ہند سے بھی وہ فاصلہ رکھتے تھے۔ لیکن اب یہ بات باعثِ اطمینان و تشکّر ہے کہ ان کی منافرت اور دوری کم بلکہ ختم ہورہی ہے۔

میں اپنے دورے میں گجرات کے 15 بڑے مدارس میں گیا۔ہر جگہ وہاں کے ذمے داروں نے میرا استقبال کیا ، میری باتیں بہت توجہ اور اشتیاق سے سنیں ، مجھے اساتذہ اور سینیئر طلبہ سے گفتگو کا موقع دیا اور کہیں بھی مجھے ان کے کسی رویّے سے اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ محسوس ہوا کہ مدارس کے وابستگان ، اساتذہ اور فارغین خارجی مطالعہ کرتے ہیں اور صرف اپنے حلقے کے علماء کی کتابیں ہی ان کے مطالعہ نہیں آتیں ، بلکہ دوسرے حلقوں کے علماء کی تصنیفات سے استفادہ میں انہیں تکلّف نہیں ہے۔

میں جہاں بھی گیا ، مجھے معلوم ہوا کہ اساتذہ اور بعض طلبہ بھی میری طبع زاد تصانیف اور تراجم سے واقف ہیں۔ سوشل میڈیا نے تو فاصلے اور بھی سمیٹ دیے ہیں۔ چنانچہ فیس بک اور واٹس ایپ پر عام ہونے والی میری بہت سی تحریریں بھی ان کے مطالعے میں آتی رہی ہیں۔

(9) میں نے اپنی گفتگو میں جب دعوت کے میدان میں جماعت کی سرگرمیوں کا تعارف کرایا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے میل جول رکھنے کے لیے جماعت کی اختیار کردہ تدابیر پر روشنی ڈالی ، خاص طور سے 'مسجد پریچے' اور' مدرسہ پریچے' کے پروگراموں کا تعارف کرایا تو اسے انھوں نے بہت غور اور توجہ سے سنا _ ایسے کاموں کی ستائش کی اور ان کی تفصیلات جاننے کی خواہش کی۔

(10) یہ مشاہدہ کرکے بہت اطمینان اور خوشی ہوئی کہ مختلف مکاتبِ فکر ، مختلف مسالک اور مختلف دینی مدارس کے فارغ علماء جماعت اسلامی ہند سے قریب ہورہے ہیں ، اس کی خدمات کو تحسین و ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے کاموں میں اپنا تعاون پیش کررہے ہیں۔خاص طور پر نوجوان علماء پیش پیش ہیں ، وہ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے ہوں ، یا ندوۃ العلماء کے ، یا جنوبی اور مغربی ہند کے مدارس کے۔سب جماعت کی قائم کردہ علماء کی تنظیم سے جڑ رہے ہیں اور الگ سے بھی مل جل کر اصلاحِ معاشرہ کا کام کررہے ہیں۔یہ بہت خوش آئند پہلو ہے ، جو لائق ستائش اور قابلِ تحسین ہے۔