!سری لنکا : شدت پسندی کےنام پربرقع اورمدارس پرنشانہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-03-2021
سری لنکا
سری لنکا

 

 

منصور الدین فریدی۔نئی دہلی

 سری لنکا سے خبر آئی ۔۔ اب برقع پر لگے گی پابندی اور مدرسوں پر پڑیں گے تالے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا ہے اس کی وجہ؟ اگر سری لنکا کے ایک وزیر کے اس اعلان پر توجہ دیں تومعلوم ہوگا کہ سری لنکا کی حکومتکی نظرمیں برقع اورمدرسے شدت پسندی کی علامت ہیں۔لنکائی حکومت کا ماننا ہے کہ پچھلے چند سال کے دوران مسلمانوں کے لباس اور رہن سہن میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا سبب مذہب سےبے جا قربت یا شدت پسندانہ نظریات کا مقبول ہونا ہے۔یہی نہیں حکومت نے ایک ہزار مدرسوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔جو اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دن لنکا کے مسلمانوں کےلئے سخت ہونے والے ہیں۔حالانکہ اس بیان یا اعلان کے بعد سری لنکا نے تنقید اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق ووٹنگ کے پیش نظر اپنے مؤقف کو تبدیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ برقعے پر پابندی 'صرف ایک تجویز' ہے۔لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ لنکا کی حکومت کب اس سے پلٹ جائے۔ممتاز دانشور اور اسلامی اسڈیز کے پروفیسراختر الواسیع نے کہا ہے کہ یہ صرف اسلامو فوبیا ہے اور کچھ نہیں۔اس کا تار افغانستان سے جڑے ہیں  کیونکہ جب سے بامیان میں گوتم بدھ کا مجسمہ تباہ کیا گیا ہے تب سے بدھسٹوں کا رویہ خراب ہوا ہے۔خواہ سرکار کا ہو یا عوام کا۔

کیا ہے معاملہ

دراصل اس خبر نے اس وقت بجلی گرا دی جب سرلنکا کے پبلک سیکیورٹی کے وزیر رئیر ایڈمرل سراتھ ویراسیکارا نے کہا کہ حکومت نے ملک میں مسلمان خواتین کے برقع پہننے اور مدارس پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کرلی۔اب وزیر کی زبانی سنئیے اس فیصلے کی کہانی اور جوا۔’’۔ ابتداء میں مسلمان خواتین برقع نہیں پہنتی تھیں لیکن اب برقع مذہبی انتہاپسندی کی علامت ہے اور اس پر جلد پابندی لگانے والے ہيں۔ مدارس بند کرنےکی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، نئی قومی تعلیمی پالیسی کے بعد سری لنکامیں کوئی اپنا اسکول نہیں کھول سکے گا۔سری لنکا کی جانب سے مدارس پر پابندی کے باعث ایک ہزار سے زیادہ مدارس بند کئے جائیں گے۔

رئیرایڈمرل سراتھ ویراسیکارا نے مزید بتایا تھا کہ میں نے پابندی کے دستاویزات پر دستخط کردئیے ہیں جس کی اب کابینہ سے منظوری لی جائے گی جبکہ یہ پابندی ‘قومی سلامتی’ کے تحت عائد کی جائیں گی۔ بات واضح ہے کہ یہ تو آغازہے۔مشکلات کا پٹارا کھلنے کے قریب ہے۔برقع پر پابندی کوئی نئی نہیں ہے۔یوروپ کے کئی ممالک اس پر پابندی عائد کرچکے ہیں اور ہرکسی نے اس کوسیکیورٹی کی بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔جس نے یوروپ میں بھی مسلمانوں کےلئے مشکلات کا سامنا کیا ہے۔

نفرت کی تجدید

دو سال قبل جب کولمبو میں ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا تو و مسلم اقلیت میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔کیونک اس میں 350 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ایک لنکائی مسلم شہری زہران ہاشم کو حملوں کا سرغنہ قرار دیا گیا تھا۔ زہران ہاشم نے 2014 میں نیشنل توحید جماعت بنائی تھی، جن پر الزام تھا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے شدت پسندی پھیلاتا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے جس تنظیم کا نام آیا تھا وہ’’نیشنل توحید جماعت‘‘تھی۔

ابھی یہ کشیدگی کم نہیں ہوئی تھی کہ گذشتہ دسمبر میں مرکزی سری لنکا میں بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مجسموں کی بے حرمتی کرنے کے واقعے میں ملوث تھے۔ اسی واقعے کے بعد ملک میں مسلمان اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔شدت پسندی کی راہ میں ایک غلط قدم نے سری لنکا کی اقلیت کو پریشانی کا شکار کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی مخالفت کی جاتی بہے کیونکہ اس کا ردعمل مہنگا پڑ جاتا ہے۔قیمت وہ ادا کرتا ہے جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔

اب کارروائی کا آغاز

دراصل ایسٹر کے موقع پر دھماکوں سے قبل سری لنکا میں مسلمانوں اور بدھسٹوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے تھے۔جس کے سبب ان دھماکوں کو انتقامی کارروائی مانا گیا تھا۔حکومت نے اس کے بعد لنکا کے مسلمانوں کے مذہبی نظام پر نظر رکھنی شروع کی تھی۔ اب ستمبر 2019 تک 24 سال جماعت اسلامی تنظیم کی سربراہی کرنے والے رشید حجازال اکبر کی گرفتاری کے ساتھ ہی سری لنکا کی حکومت مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے۔ اسلامی تنظیم کے 60 سالہ سابق رہنما کوملک میں انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔وہ سری لنکا میں وہابیت اور جہادی نظریہ کو فروغ دینے کے لئے تنظیم کے ذریعہ شائع کردہ ایک رسالے میں مضامین شائع کررہے ہیں۔۔

سری لنکا کی ڈیلی نیوز نے کہا ہے کہ یہ گرفتاری 2019 کے ایسٹر سنڈے بم دھماکوں کے تفتیشی پینل کے طور پر سامنے آئی ہے "جزیرے میں ایک خاص مذہبی سوچ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ اس سے مسلمان مذہبی انتہا پسندی کو متاثر کرتے ہیں۔ 21یاد رہے کہ  اپریل ، 2019 کو ، نومسلم خود کش حملہ آور نے ، جس نے دولت اسلامیہ گروپ سے بیعت کی تھی اور ایک مقامی اسلام پسند انتہا پسند گروپ سے تھا ،سری لنکا میں تین گرجا گھروں اورہوٹلوں کے ذریعہ کئی دھماکے کیے تھے ، جس میں 270 افراد ہلاک اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

مدارس پر تالے

حکومت نے مساجد اور مدارس کو مل رہی غیر ملکی امداد پر بھی شکنجہ کسا کیونکہ اس بات کے ثبوت مل رہے ہیں کہ جو شدت پسند گروپ سرگرم ہیں انہیں بیرون ملک سے مد د مل رہی ہے۔ جس کے بعد مدارس بھی اس  کارروائی کی زد میں آئے۔حکومت کا ماننا ہے کہ مدارس میں اب سرکاری نصاب کا استعمال ہوگا۔حکومت نے ایک ہزار سے زیادہ اسلامی اسکول یعنی مدارس کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ مبینہ طور پر قومی پالیسی  کے خلاف کامکررہے ہیں ۔وزیر کے مطابق  ’’ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی اسکول کھول دے اور جو چاہے پڑھا سکتا ہے۔ یہ حکومت کی تعلیمی پالیسی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بہت سارے غیر رجسٹرڈ مدارس عربی اور دینی تعلیم دے رہے ہیں جو منا سب نہیں ہے۔

مسلمانوں کی چتائیں

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب دنیا کورونا کےعذاب کو جھیل رہے تھے اور زندگی کےلئےدعا کررہے تھے اس وقت سری لنکا کے ممسلمانوں کےلئے دوہراعذاب تھا۔کیونکہ لنکا کی حکومت نے کورونا میں مرنے والوں کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا حالانکہ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا تھا ۔ نہ ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایسا کوئی حکم دیا تھا۔مگر لنکا میں ایسا ہوا جس نے مسلمانوں کی روح کو ہلا دیا۔ اس بدترین بحران کے دوران لنکا کے مسلمانوں کے درد کا علاج دنیا کے پاس بھی نہیں تھا کیونکہ سب اپنی اپنی جنگ لڑ رہے تھے۔ایک ممتاز دانشور پروفیسر اختر الواسیع نے کہا کہ’’۔سری لنکا میں جو کچھ ہوا ،وہ بہت دردناک تھا،اسلامو فوبیا کی شکل تھا ۔ان حالات میں ہندوستان ایک مثال بن کر اگر ابھرا تھا۔۔

 بحرانی حالات میں ہندوستان میں سب کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا گیا۔جمہوری قدروں کا احترام کیا گیا تھا۔مذہبی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا گیا تھا۔تمام بین الاقوامی قوانین کو احترام کیا گیا۔ مصیبت کی گھڑی میں سب ایک دوسرے کے دکھ دردمیں کھڑے تھے۔کیا ہندو اور کیا مسلمان سب ایک  دوسرے کے ساتھ تھے اورایک دوسرے کا ساتھ دے رہے تھے۔ کوئی کسی کو قبرستان پہنچا رہا تھا تو کوئی شمشان۔ساتھ میں حکومت کا ساتھ تھا مگر سری لنکا میں جو ہوا ،اس نے لنکا کے مسلمانوں کےلئے موت کسی سزا سے کم نہیں بنا دیا تھا۔اب جبکہ کورونا کا زور کم ہوا اور عالمی برادری نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو اب سری لنکا نے مسلمانوں کی لاشوں کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس سلسلے میں امریکا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید اور احتجاج کے بعد فیصلہ بدلا گیا ہے۔

 مسلمانوں کا درد

سری لنکا کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نےکرونا وائرس کی وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مردوں کو دفنانے کی بجائے غیر اسلامی طریقے سے جلانے پر مجبور کیا گیا جو بدترین امتیازی سلوک ہے۔۔سری لنکا کے ایک سابق وزیرعلی ظاہر مولانا کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے 182 رکن ممالک میں سے سری لنکا واحد ملک تھا جہاں کرونا سے انتقال کرنے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلایا جا رہا تھا۔ سری لنکا کے سرکاری ماہر وبائی امراض ڈاکٹر سوگت سماراویرا نے کہا تھا کہ یہ حکومت کی پالیسی ہے کہ تمام وہ لوگ جو کرونا وائرس سے ہلاک ہوئے یا جن پر شبہ ہو کہ ان کی موت اس وائرس کی وجہ سے ہوئی ہوگی،ان سب کی لاشوں کو جلایا جائے گا کیونکہ تدفین سے زیر زمین پانی آلودہ ہو سکتا ہے۔

دنیا میں مسلمانوں یا اسلام کے خلاف بدھسٹوں کا منظم ہونا یا نفرت کرنے کے بارے میں پروفیسر اختر الواسیع کا کہنا ہے کہ ۔۔۔

دنیا میں اسلام اور بدھسٹ ٹکراوکبھی نہیں رہا تھا۔مگر یہ طالبان اور ملا عمر کی مہربانی ہے جو بامیان میں گوتم بدھ کا مجسمہ تباہ کیا جس نے بدھسٹوں کو مسلمانوںکے خلاف کردیا۔ بہتر یہ ہوتا کہ اس واقعہ کے بعدعالم اسلام کی سر کردہ شخصیات اکٹھا ہوتیں۔جن میں سعودی عرب کے مفتی اعظم ،امام حرم،شیخ االاظہر،آیت اللہ سیستانی وغیرہ ہوتے اور اس واقعہ کےلئے بدھسئوں سے افسوس کا اظہار کرتے یا معذرت کرتے۔تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔

حقیقت یہی ہے کہ  ہندوستانی مسلمانوں کےلئے اپنی جمہوریت کی روایات اور قدروں کا احساس پیدا کررہا ہے۔اس بات کااحساس کسی بڑی خوشی کی طرح ہے کہ ہندوستان میں کورونا کے بحرانی دور میں بھی ملک کی حکومت اور عوام نے سب کا خیال رکھا ۔ہر کسی کی مذہبی نزاکت کو قبول کیا اور ساتھ ہی مسلمانوں نے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہر ممکن مدد اور تعاون کیا ۔جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی مانی جاسکتی ہے۔