خواجہ معین الدین چشتی اورعرفانِ عشق

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-02-2021
اجمیرکی مسجدڈھائی دن جھونپڑا
اجمیرکی مسجدڈھائی دن جھونپڑا

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

شریعت کیا ہے اور طریقت کیا ہے؟ کیا کوئی شخص شریعت پر عمل سے آزاد ہوسکتا ہے؟ کیا عرفان الٰہی کے لئے شریعت پر کامل عمل ضروری ہے؟ کیا طریقت تک رسائی کے بعد شریعت سے آزادی مل جاتی ہے؟ اس قسم کے سوال عام طور پر سننے کو مل جاتے ہیں۔اس سلسلے میں علماء، صوفیہ اور بزرگان دین نے بہت واضح جوابات دیئے ہیں اورحضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات میں بھی اس سلسلے میں وضاحت ملتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کوئی بھی شخص جو مسلمان ہونے کا دعویدار ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں یقین رکھتا ہو، وہ جب تک ہوش وخرد میں ہے، تب تک دین مصطفوی اور شریعت محمدی کی پیروی سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ ان صلحاءمیں سے تھے جن کا مقصد ہی شریعتِ محمدی کی دعوت دینا تھا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی احکام کو رائج کرنا تھا۔ آپ کی اسی دعوت کے نتیجے میں برصغیر میں اسلام کا پرچم لہرایا اور دین واحکام دین کا بول بالا ہوا ۔

خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ علیہ کی تعلیمات کہتی ہیں کہ طریقت، شریعت کا ہی حصہ ہے ، اس سے الگ کوئی راہ نہیں۔ مومن کے لئے ہر حال میں اس پر عمل ضروری ہے اور نماز، روزہ، حج وزکوٰة سمیت تمام احکام شریعت پر عمل لازمی ہے۔ یہی سبب ہے کہ خواجہ صاحب نے عبادت وریاضت میں کثرت کی اور اہل ایمان کو ہر حال میں احکام شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔

آپ کے ملفوظات ”دلیل العارفین“ میں ایسے اہل اللہ کے واقعات بیان کئے گئے ہیں، جنھوں نے نماز وعبادت میں خود کو اس طرح مصروف رکھا کہ دنیا کے معاملات سے بے نیاز ہوگئے۔ دلیل العارفین میں ایک بزرگ شیخ اوحد الواحد غزنوی کا ذکر ہے، جن سے خواجہ صاحب دوران سفر ملک شام کے قریب کسی شہر کے باہر ایک غار میں ملے۔یہ بزرگ عبادت الٰہی اور خشیت ربانی کی کثرت سے سوکھ کر خشک لکڑی کی طرح ہوگئے تھے اور جسم پر محض ہڈی اورجلد باقی بچی تھی۔

بزرگ نے خواجہ صاحب سے فرمایا کہ ”جب میں نماز اداکرتاہوں تو اپنے آپ کو دیکھ کر روتا ہوں کہ اگر ذرہ بھر شرط ِنماز ادا نہ ہوئی تو سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔اسی وقت یہ طاعت میرے منہ پر دے ماریںگے۔“ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز اور احکام شریعت کی خواجہ صاحب اور ان کے ممدوحین کی نظر میں کیا اہمیت تھی۔

حالانکہ اس کے علاوہ بھی آپ کے ملفوظات میں جگہ جگہ نماز اور احکام دین پر عمل کی تاکید ملتی ہے۔ شریعت پر عمل کے بغیر چارہ نہیں خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کہتی ہیں کہ شریعت پر عمل ہر حال میں لازم ہے اور اس سے کسی بھی طرح نجات نہیں۔ اس تعلیم پر آپ کے بعد آپ کے جانشینوں نے عمل کیا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، بابا فرید الدین گنج شکر، محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءاور اس سلسلے کے دوسرے بزرگوں نے ہمیشہ اور ہرحال میں شریعت کے احکام پر عمل کیا۔ شریعت پر کامل عمل کے بغیر طریقت کی منزل پر گامزن نہیں ہوا جاسکتا۔

چنانچہ دلیل العارفین میں خواجہ معین الدین چشتی کا قول درج ہے: ”راہ شریعت پر چلنے والوں کا شروع یہ ہے کہ جب لوگ شریعت میں ثابت قدم ہوجاتے ہیں اور شریعت کے فرمان بجا لاتے ہیں اور ان کے بجا لانے میں ذرہ بھر تجاوز نہیں کرتے تو اکثر وہ دوسرے مرتبے پر پہنچتے ہیں جسے طریقت کہتے ہیں۔اس کے بعد جب مع شرائط طریقت میں ثابت قدم ہوتے ہیںاور تمام احکام شریعت بلا کم وکاست بجا لاتے ہیںتو معرفت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں،جب معرفت کو پہنچتے ہیں توشناخت وشناسائی کا مقام آجاتاہے۔جب اس مقام پر بھی ثابت قدم ہوجاتے ہیں تو درجہ حقیقت کو پہنچتے ہیں۔ اس مرتبے پر پہنچ کر جو کچھ طلب کرتے ہیں پالیتے ہیں۔“ (مجلس دوم)

تصوف نام ہے عرفانِ خداوندی کے راستے کا اور اس راستے پر چلنے والوں کو ہی صوفی یا عارف کہا جاتا ہے۔راہ تصوف وعرفان کے راہی اپنے خالق ومالک کے عرفان کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ صوفیہ اس راستے کو طویل اور مشکلوں سے بھرا ہوا مانتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے والوں کو دوران سفر مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب عرفان خداوندی کی منزل ملتی ہے۔

خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں: ” عارف اس شخص کو کہتے ہیں کہ تمام جہان کو جانتا ہواور عقل سے لاکھوں معنی پیدا کرسکتاہو اور بیان کرسکتا ہو اورمحبت کے تمام دقائق(باریکیاں نکتے) کا جواب دے سکتا ہواور ہر وقت بحر باطن و نکتہ میں تیرتا رہے تاکہ اسرارِ االٰہی وانوارِ الٰہی کے موتی نکالتا رہے اور دیدہ ور جوہریوں کے پیش کرتا رہے۔ جب وہ اسے دیکھیں پسند کریں۔ ایسا شخص بے شک عارف ہے۔ بعدا زاں اسی وقت فرمایا کہ عارف ہر وقت ولولہ عشق میں مبتلارہتا ہے اور قدرتِ خدا کی آفرینش میں متحیر رہتا ہے۔اگر کھڑا ہے تو بھی دوست کے وہم میں اور اگر بیٹھا ہے تو بھی دوست کا ذکر کرتا ہے۔ اگر سویا ہے تو بھی دوست کے خیال میں متحیر ہے۔ اگر جاگتا ہے توبھی دوست کے حجاب عظمت کے گرد طواف کرتا ہے۔“ (دلیل العارفین، مجلس۔1)

عرفان و تصوف کی راہ ہی خداشناسی کی راہ ہے۔ یہاں منزل تک رسائی کے لئے کئی مشکل مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس راہ پر چلنے والے زہدوتقویٰ اور عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیتے ہیں۔ جس طرح موتی پانے کے لئے سمندر میں غوطے لگانا پڑتا ہے اسی طرح عرفان حق کے لئے بھی عبادت و ریاضت کے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

کبیرا یہ گھر پریم کا خالہ کا گھر ناہیں

جو شیش بھوئیں دھرے، سوپیٹھے گھر ماہیں

انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا عرفان حاصل کرے اور اسے پہچاننے کی کوشش کرے۔ حالانکہ اللہ کی ذات ایسی نہیں کہ وہ انسان کے وہم وگمان میں بھی آسکے مگر باوجود اس کے ،اُس کی ذات وصفات کو سمجھنے کی کوشش لازمی ہے۔ حالانکہ اس جدوجہد میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب عارف کی جانب رحمت الٰہی متوجہ ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: ”عرفان میں ایک حالت ہوتی ہے، جب اس پر یہ حالت طاری ہوتی ہے ، تو وہ ایک ہی قدم میں عرش سے حجاب عظمت تک کا فاصلہ طے کرلیتا ہے۔ وہاں سے حجاب کبریا تک پہنچ جاتے ہیں، پھر دوسرے قدم پر اپنے مقام پر آجاتے ہیں۔ (پھر خواجہ صاحب آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا) عارف کا سب سے کم درجہ یہی ہے، لیکن کامل کا درجہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک ہے۔“ (دلیل العارفین،مجلس1)