خواجہ غریب نوازؒ تصوف کی کہکشاں کے درخشندہ ستارے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 05-02-2022
خواجہ غریب نوازؒ تصوف کی کہکشاں کے درخشندہ ستارے
خواجہ غریب نوازؒ تصوف کی کہکشاں کے درخشندہ ستارے

 


awazthevoice

 پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

ہندوستان کی سر زمین پرمسلمانوں کی آمد کے بعد سے ثقافتی اتحاد کا جو عمل شروع ہوا ، صوفیا کرام اسے تحریک اور فروغ دینے کے عوامل میں سر فہرست تھے ۔ ثقافتی و تہذیبی میل جول کے اس عمل نے وقت گزرنے کے ساتھ ترقی کر کے ہند — اسلامی تہذیب کی شکل اختیار کرلی۔ یہ ہندوستانی اور اسلامی روایات کے باطنی حسن کے درمیان ایک ایسا رشتہ تھا ، جس نے دونوں تہذیبوں کے چہرے اور روح دونوں کو متاثر کیا ۔اس کے سبب نئی روح ‘ اخلاقی اور جمالیاتی طاقتیں رونما ہوئیں ‘ جن کے ذریعے ایک نیا نظریہ حیات وجود میں آیا ‘ جس نے ہندوستان کی شاعری ‘ موسیقی‘ مصوری اورطرزتعمیر پر گہرے ا ثرات مرتب کیے۔

صوفیا کرام اسلام کے باطنی پہلو کے نمائندے اور ترجمان تھے ‘ جو مکاشفہ حق ‘ صفات باطن اور خدا کی تمام مخلوقات کے لیے بے پناہ محبت پر زور دیتا ہے۔ وحدت الٰہی اور وحدت آدم ان صوفیا کرام کے دوبنیادی اصول تھے ۔ بیشتر چشتی سلسلے سے وابستہ یہ صوفی بزرگ تبدیلی مذہب کے آلہ کار نہیں تھے‘ بلکہ روحانی و اخلاقی رابطہ کارتھے ‘ جنھوں نے عقیدے اور رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر مقامی لوگوں کے ساتھ ایک ذہنی و روحانی مکالمہ قائم اور انسانوں کوروحانی مسرت اور نجات کی راہوں پر گامزن ہونے کی دعوت دی ۔ خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز ؒ‘ تصوف کی کہکشاں کے وہ درخشندہ ستارے تھے جنھوں نے اہل ہند کے دلوں میں سچی روحا نیت اور بے لوث خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا ۔

وہ 18 اپریل 1143ءکو ایران کے صوبہ سیستان کے گاؤں سنجر میں پیدا ہوئے تھے۔ جب وہ 13سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ خواجہ صاحب کم عمری ہی سے روحانی صدق و صفا اور دنیا ناطلبی کی طرف مائل تھے ۔ انہیں اپنے والد کے ترکے میں ایک چھوٹا سا باغ اور ایک آٹے کے چکی حاصل ہوئی تھی‘ جسے انھوں نے فروخت کر دیا اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ غریبوں میں تقسیم کر دیا ۔ اس طرح جو بھی دنیاوی مال و متاع ان کے پاس تھا اس سے گلو خلاصی کے بعد انہوں نے حصول علم کے لئے بخارا و سمر قند کا قصد کیا جو ان دنوں اسلامی علوم کے بڑے مراکز تھے ۔ راستے میں ان کی ملاقا ت عظیم صوفی بزرگ خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی اور وہ ان کے مرید ہوگئے ۔خواجہ عثمان ہارونی چشتی سلسلے سے وابستہ تھے ۔

اس لئے خواجہ غریب نواز نے بھی اس سلسلے کو اختیار کر لیا ۔ خواجہ صاحب کا دل انسانی محبت اور شفقت کا خزانہ تھا ۔ وہ بچپن میں ہی کسی روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے تھے اور اس کی ماں سے اسے فوراً دودھ پلانے کو کہتے تھے وہ تین چار سال کے تھے تب سے وہ اپنے کھانے میں دوسرے بچوں کو بھی شامل کر لیا کرتے تھے ۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ ایک عید کے روز بہت اچھے کپڑے زیب تن کئے ہوئے عید گاہ جارہے تھے ۔

راستے میں انہیں پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک بچہ نظر آیا ۔ وہ آب دیدہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے کپڑے اس بچے کوپہنادئیے اور اسے اپنے ساتھ عید گاہ لے گئے ۔ تقریباً 20 برس اپنے مرشد کی خدمت میں کرنے کے بعد خواجہ غریب نواز نے ان سے رخصت چاہی۔ان کے مرشد نے انہیں تلقین کی ’’اے معین الدین اب جب کہ تم نے فقر اختیار کر لیا ہے تو فقیروں ہی کی طرح عمل کرنا۔ یہ اعمال ہیں غریبوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا ‘ ناداروں کی خدمت کرنا ‘ برائیوں سے بچنا اور ابتلا و مصائب میں ثابت قدم رہنا۔‘‘

اس طرح دینی و روحانی علوم میں منتہی ہونے کے بعد خواجہ صاحب پھر ایک سفر پر چل پڑے جس کی منزل ہندوستان میں اجمیر کا مقام تھا‘ جہاں وہ 1195 میں وارد ہوئے ۔ یہ ایک اجنبی جگہ تھی مگر جلد ہی انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ گہرا ربط قائم کر لیا اور ایک مناسبت پیدا کر لی۔ خاص طور پر یہاں کے دبے کچلے طبقوں میں ان کے اثرات تیزی سے پھیلنے لگے ۔ کچھ دنوں بعد خواجہ صاحب نے یہیں ایک خانقاہ قائم کی جوان کے انسانی محبت اور بھائی چارے کے پیغام کی اشاعت کا مرکز بن گئی ۔ انہوںنے قوالی کی صورت میں ایک نئے طرز کی روحانی مو سیقی کو رواج دیا اور اسے باطنی بیداری کا ذریعہ بنایا ۔ خواجہ معین الدین نے سخت ریاضت و عبادت کی زندگی گزاری اورتمام دنیاوی لذتوں سے بہت دور رہے۔

انہوں نے کبھی بھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا ۔ کئی کئی روز کچھ نہیں کھاتے تھے اور کچھ کھاتے تھے تو وہ پانی میں بھگوئی ہوئی سوکھی روٹی ہوتی تھی ۔ انھوں نے ساری زندگی صرف ایک کپڑے میں گزاری ۔ وہ پھٹ جاتا تو اسے خود سی لیتے اور اس طرح پیوند لگتے لگتے اس کا وزن اصل سے کئی گنا ہو جاتا تھا ۔ وہ ساری رات عبادت اور یاد الہی میں غرق رہتے تھے۔ ان کے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مطابق ‘‘20 برس خواجہ کی خدمت میں رہا اور انہیں کبھی بھی اپنی صحت کی دعا مانگتے نہیں دیکھا ۔ اس کی بجائے وہ مصائب اور تکلیفوں کی دعا مانگتے تھے۔

ایک دن میں نے مرشد سے پوچھا کہ وہ اس طرح کی دعا کیو ں مانگتے ہیں ؟ دہ بولے کہ تکلیفوں سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور انسان اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے ابھی پیدا ہوا ہو ‘‘ اس روحانی جدوجہد کے طفیل خواجہ صاحب میں ایسی جاذبیت اور مقناطیسی قوت آگئی تھی کہ ہر ذات ‘ہر طبقے اور مذہب کے لوگ دور و پاس سے جوق در جوق ‘ سکون و پناہ کی تلاش میں ان کے پاس آنے لگے اور اس طرح أپ غریب نواز کہلانے لگے ۔

ایک رات خواجہ غریب نواز اپنے حجرے میں داخل ہوئے ‘ دروازہ حسب معمول اندر سے بند کرلیا اور یاد الہی میں غرق ہوگئے ۔ وہ لگاتار پانچ روز تک باہر نہیں نکلے ۔ یہاں تک کہ مریدوں اور عقیدت مندوں کو تشویش ہوئی اور چھٹے روز جب انہوں نے دروازہ توڑا تو دیکھا خواجہ صاحب کا وصال ہو چکا تھا۔ یہ 11 مارچ 1233ء ‘ مطابق 6 رجب633 ہجری کی تاریخ تھی ۔ انہیں انہی کے حجرے میں سپرد خاک کردیا گیا ‘ جہاں بعد میں ان کا مزار تعمیر کیا گیا ۔ خواجہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے ان کی یاد میں ایک سالانہ عرس کا اہتمام شروع کیا ‘ جو یکم رجب سے 6رجب تک ہوتا ہے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔