خسرو فاؤنڈیشن: ایک نئی پہل

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 08-10-2021
خسرو فاؤنڈیشن: ایک نئی پہل
خسرو فاؤنڈیشن: ایک نئی پہل

 

 

awaz

 پروفیسر اخترالواسع،نئی دہلی

ہندوستان، جنت نشان جس نازک دور سے گزر رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہندوستان جو مذہبی، لسانی اور تہذیبی تکثیریت کا ملک ہے اور کثرت میں وحدت سے جس کی پہچان ہوتی ہے اور اس عظیم ملک کی تاریخ کا ہر دور انسان دوستی کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے، جس میں شکتی اور شانتی بھکتوں کے گیتوں کا نتیجہ ہے اور ہندوستان ہمیشہ اس بات کا گواہ رہا ہے کہ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے۔

پتہ نہیں ہندوستان کو کس کی نظر لگ گئی کہ سماجی قربتیں، فاصلوں میں بدلنے لگیں ہیں۔ اس دیس کے باسیوں کی بڑی تعداد اگرچہ آج بھی اس عدم اتفاق اور تفریق کا حصہ بننے کو تیار نہیں لیکن غالب ترین اکثریت بھی اگر خاموش رہے تو وہ اس کے وجود کو عدم میں تبدیل کر دیتی ہے۔

اب زیادہ تر لوگ اپنی ذات کے گرد طواف کر رہے ہیں۔ غم زمانہ کی جگہ دردِ تنہا سے دو چار ہیں اور وہ انسان جو کبھی ضمیرِ دشت و دریا تھا آج اسیرِ آشیانہ بنا ہوا ہے۔

زخموں کے تاجر، نفرتوں کے بیوپاری، دہشت و وحشت کے کا روباری ہندوستانی سماج کو اپنی دانست میں چھن بھن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہا جا سکتا اور اس لئے ضروری ہے کہ ایک بار پھر ان تمام علامتوں کو زندہ کیا جائے جو ”محبتوں کی گاتھا“ اور ”پریم کے ڈھائی اکچھر“ سے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رہے جن کے نزدیک مادرِ وطن، وہاں پیدا اور بسنے والے، اس کے دریاؤں کا پانی پینے والے، اس کے کھیتوں میں پیدا ہونے والے رزق سے اپنی بھوک مٹانے والوں کو پھر اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کا مذہب، زبان اور علاقہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ماں اور ماٹی سے ان کا رشتہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے اور چلانے والے رب کی مرضی کا نتیجہ ہے اور جس میں رب راضی اس میں سب راضی رہیں، تو ہی بہتری اور بھلائی ہے۔

ہندوستان میں ایک دوسرے کو جوڑنے والوں کا اگر ذکر کیا جائے تو ان کے نام اور کام گنانے میں کوئی دیر نہ لگے گی لیکن اگر ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والوں او ربانٹنے والوں کے نام کسی سے پوچھے جائیں تو اسے ان کے نام یاد کرنے اور بتانے میں بڑی مشکل آئے گی۔

اس سب کے باوجود آج پھر یہ دوریاں، یہ ٹکراؤ اور یہ تشدد بار بار کیوں دیکھنے کو مل رہا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہم نے انہیں بھلا دیا ہے جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ دیوی دیوتاؤں، پیغمبروں، پیروں اور رشیوں مُنیوں کے تیاگ، تپسّیا، سمرپن اور سیوا بھاؤ کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے سندیش اور اپدیش ایک دفعہ پھر لوگوں تک پہنچائے جائیں۔ یہی وہ سوچ اور فکرمندی ہے کہ جس کے تحت راقم الحروف سمیت شری وہیت کھیڑا، جناب سراج الدین قریشی اور شری رنجن مکھرجی نے مل کر جنوری 2021 میں ”خسرو فاؤنڈیشن“ کی بنیاد رکھی۔ اس کا نام حضرت امیر خسرو کے نام پر اس لئے رکھا گیا کہ وہ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی وہ محبوب، دلنواز اور ہمہ گیر شخصیت ہیں جنہیں صدیاں گزر جانے کے باوجود یاد رکھا گیا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

وہ بیک وقت صوفی بھی تھے اور سپاہی بھی، وہ شاعر بھی تھے اور ماہرِ موسیقی بھی، وہ مؤرخ بھی تھے اور تاریخ ساز بھی۔ غرض ان کی شخصیت کی عبقریت نے ان کو گوں ناگوں صفات کا حامل اور ہمہ جہت پہلوؤں سے اس طرح متصف کیا کہ عہد وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ میں بڑے بڑے نامیوں کے نشان مٹ گئے لیکن جب سے آج تک نہ صرف ہماری تاریخ کے جز بلکہ انسانی ذہنوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔ مسرت کے لمحے ہوں یا یاس و غم کی گھڑیاں، خسرو کا نام اور کلام ہمہ وقت اپنی جاذبیت اور آفاقیت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت امیر خسرو سلطان المسائخ حضرت نظام الدین اولیاء کے چہیتے مریدوں میں ہیں اور حضرت نظام الدین اولیاء ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے وصل خواہی اور صلح کل کو عام کیا۔

اس”ترک نژاد“ کی وطن دوستی نہ صرف مثالی، بلکہ قابلِ رشک بھی ہے۔ خسرو کے نزدیک یہ سرزمینِ ہند، عدن کی جنت، یہاں کے لوگ ہر رنگ میں انہیں عزیز، یہاں کے درباروں کے آگے ایران، توران، خراسان کے دربار ہیچ۔

یہاں کے لوگ ہر صنعت، علم وادب کی ہر شاخ، فنونِ لطیفہ کے ہر میدان اور عسکری تربیت کے ہر انداز میں ”بے نظیر“ اہلِ ہند کا توحیدی مسلک انہیں باوجود ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے عزیز ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ (یعنی اہلِ ہند) ہمارے جیسا دین نہیں رکھتے، مگر ان کے اکثر عقیدے ہمارے جیسے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہندوستان، ہندوستان کی ہر روایت چاہے وہ مذہبی ہو چاہے تہذیبی، ثقافتی ہو یا لسانی، علمی ہو یا ادبی، اس کو خسرو کی طرح دیکھیں،اپنائیں، اس پر صدقے اور واری جائیں۔

خسرو جن کی ماں ہندی اور باپ ترک تھے، ایسے ہندوستانی ہیں جو ہندوستان کی عظمت کے ترانے ہی نہیں گاتے بلکہ وہ اپنے آپ کو اس مٹی کا اس طرح حصہ بن جانا چاہتے ہیں جیسے یہ مٹی ہی سب کچھ ہو اور جس سے تعلق اور محبت کو الطاف حسین حالیؔ نے یوں بیان کیا کہ: تیری اک مشت خاک کے بدلے لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے خسرو فاؤنڈیشن وطن دوستی، انسان دوستی، فطرت سے ہم آہنگی، ہر طرح کی تفریق چاہے وہ فرقہ وارانہ ہو یا جنسی سب سے اوپر اٹھ کر محبت کو عام کرنا چاہتی ہے۔ اس لئے کہ بقول شیخ ابراہیم ذوقؔ:

گلہائےرنگارنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔