کیفی اعظمی: مدرسہ کا ہڑتالی’طالب علم’ جو فلموں کا ’نغمہ نگار ‘ بنا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-01-2023
کیفی اعظمی: مدرسہ کا ہڑتالی’طالب علم’ جو فلموں کا ’نغمہ نگار ‘ بنا
کیفی اعظمی: مدرسہ کا ہڑتالی’طالب علم’ جو فلموں کا ’نغمہ نگار ‘ بنا

 

 

علی احمد : نئی دہلی

مشہور شاعر کیفی اعظمی کے سریلے گیتوں، غزلوں‌ اور لطیف جذبات سے آراستہ نظموں کے دیوانے آج ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔سید اطہر حسین رضوی ان کا اصل نام تھا۔ وجہِ شہرت شاعری اور قلمی نام کیفی اعظمی سے معروف ہیں۔اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے کیفی اعظمی نے 11 برس کی عمر ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔ زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تو سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اس دور میں‌ یہ شعر ان کی شناخت بنا۔

مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظر کی

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیق کو اہمیت دی۔ جلد ہی اشتراکیت اور کارل مارکس سے شناسائی ہو گئی۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

کیفی اعظمی کی غزلیں اور نظمیں جہاں انھیں اردو زبان کے ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کرواتی ہیں، وہیں ان کی شاعری میں انسان دوستی کا رنگ بھی ہے اور ان کے کلام سے ان کی انقلابی فکر کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

وہ ظلم و جبر کے خلاف اپنی تخلیقات ہی کے ذریعے آواز نہیں اٹھاتے رہے بلکہ میدانِ عمل میں بھی پیش پیش رہے۔ کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصہ بنے، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر سرگرم رہے اور صحافت بھی کی۔

فلم کے لیے گیت نگاری کے علاوہ صحافت بھی کیفی اعظمی کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ جذبات کی فراوانی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کا انتخاب اور منفرد لہجہ ہے جس میں انقلابی فکر اور باغیانہ ترنگ بھی شامل ہے۔ کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

تم  اتنا  جو مسکرا  رہے  ہو

کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو

آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے، کیا  دکھا رہے ہو

بن جائیں گے زہر پیتے پیتے

یہ  اشک جو پیتے  جا رہے ہو

ریکھاؤں  کا  کھیل  ہے  مقدر

ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو


یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔


جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا  سہی دل میں پیار  ہے کہ نہیں

تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا

مری طرح ترا دل بے قرار  ہے کہ نہیں

وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے

اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

مدرسے سے مشاعروں تک

بالی ووڈ کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔ کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے۔

ریسرچ اسکالر الیاس کرگلی کہتے ہیں کہ  ۔۔۔۔۔ والد کے کل گیارہ بچے ہوئے۔ جن میں کیفیؔ تین بھائیوں اور چار بہنوں سے چھوٹے تھے۔ بدقسمتی یہ کہ ان کی چاروں بہنیں یکے بعد دیگردق کے مرض سے انتقال ہو گئیں ۔ اس کا اثر ان کے والد پر بہت گہرا پڑا۔ انھوں نے سوچا کہ کیفیؔ کو مذہبی تعلیم دلائی جائے تاکہ بعد وفات ان کے لئے فاتحہ پڑھے۔

ادبی دنیا میں کیفی ؔ کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ کیفیؔ کو ان کے بزرگوں نے اس لئے مذہبی درس گاہ ’’سلطان المدارس‘‘میں داخل کیا تھا کہ وہاں فاتحہ پڑھنا سیکھ جائیں ،لیکن کیفیؔ صاحب اس درس گاہ سے مذہب پر ہی فاتحہ پڑھ کر نکل آئے۔ بہرحال کیفیؔ کو سلطان المدارس کی فضاراس نہ آئی اور وہاں سے باہر نکل آئے۔ یہیں سے ہی ان کی باغیانہ فطرت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ وہ ایک آزاد خیال کے انسان تھے۔ 11سال کی ہی عمر میں ایک غزل کہی جس کا مطلع دیکھئے۔

 اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لئے ان کے والد نے انہیں ایک ’مصرعہ طرح‘ دیا اور اس پر غزل لکھنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور یہی  پوری غزل لکھ ڈالی۔ ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔

کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا‘‘۔

مدرسے میں کی ہڑتال

کیفی آعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کی خواہش مند نہیں تھے۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیرمنظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی لیکن اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کے لئے مشکل بن گئے جس کی وجہ سے ہڑتال کے خاتمہ کے بعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔

اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔ اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہر حسین میں ایک شاعر نے کیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔

سال 1942 میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے لکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر ’بھارت چھوڑو‘ تحریک میں شامل ہو گئے۔

اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل ہو گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

اردو صحافت میں پہلا قدم 

شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کے لیے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں 150 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘ لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔

کیفی اعظمی نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘ کے لئے دو نغمے لکھے جس کے عوض انہیں 1000 روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے 1959 میں آئی فلم ’کاغذ کے پھول‘ کے لئے ’وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم‘ جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔ اس کے بعد 1965 میں فلم ’حقیقت‘ کے نغموں بالخصوص ’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ کے ساتھ وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

قیام ممبئی کے دوران کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے اور مکالمے لکھے، جن میں بزدل، کاغذ کے پھول، ہیر رانجھا، گرم ہوا، سات ہندوستانی، پاکیزہ، ہنستے زخم اور ارتھ کے نام سرفہرست ہیں ۔

ان کے مقبول گیتوں میں فلم کاغذ کے پھول کا گیت “وقت نے کیا کیا حسیں ستم

پاکیزہ کا گیت “یونہی کوئی مل گیا تھا، سر راہ چلتے چلتے،

ہیر رانجھا کا گیت’’یہ دنیا یہ محفل‘‘

اور ارتھ کا گیت “تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘‘ شامل ہیں ۔

ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔

اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ اکیڈمی فیلوشپ، پدم شری ، نیشنل فلم ایوارڈ اور فلم فئیر ایوارڈ سے نوازا گیا، کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے

کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔ وہ ممبئی میں آسودہ خاک ہیں۔تقریباً 75 برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجواں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔