جسٹس آغا حیدر: جنہوں نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-03-2022
  جسٹس آغا حیدر: جنہوں نے  بھگت سنگھ کی پھانسی کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا
جسٹس آغا حیدر: جنہوں نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے حکم پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا

 

 

awazthevoice

 ثاقب سلیم،نئی دہلی

 ''میں ملزم (بھگت سنگھ اوران کے ساتھیوں) کو جیل لے جانے کے عدالتی حکم کا فریق نہیں تھا اور میں بہرحال اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اس حکم کے نتیجے میں آج جو کچھ ہوا اس سے میں خود کو الگ کر رہا ہوں۔''(جسٹس سید آغا حیدر، 12 مئی 1930)

بارہ مئی1930 کوجسٹس سیدآغاحیدرنےبھگت سنگھ، سکھ دیو،راج گرواوردیگرہندوستانی انقلابیوں کے خلاف ایک مقدمہ پر فیصلہ سنایا۔ ان انقلابیوں پر برطانوی حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ اس کے لیے برطانونی حکومت نے ایک خصوصی ٹریبونل (لاہور) میں قائم کی۔ اس کے رکن کی حیثیت سے جسٹس آغا حیدر نے 12 مئی 1930 کو جو فیصلہ دیا تھا، وہ ہندوستانی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ بھگت سنگھ اور بٹوکیشوردت ہندوستانی انقلابی نوجوانوں کے ہروبن گئے۔ ان دونوں نے اپریل1929میں سنٹرل اسمبلی، دہلی کے اندر بم پھینکا تھا۔ اسی وجہ سے ان دونوں پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا سنائی گئی۔ بھگت سنگھ کوانگریز پولیس افسرسانڈرز کے قتل میں شریک ملزم بنایا گیا تھا۔

برطانوی حکومت قوم پرست نوجوانوں کو انقلابی سرگرمیوں سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ اور انہیں وہ خوفزدہ کرنا چاہتی تھی۔اس لیے اس معاملہ میں بھی برطانوی حکومت کی جانب سے ایک افسانہ بنایا گیا اور اس کی تشہیر کی گئی۔ اس ضمن میں وائسرائےنے1930کا لاہور آرڈیننس نمبر III متعارف کرواکرایک خصوصی ٹربیونل بنایا۔ ان کا مقصد بھگت سنگھ اوران کے ساتھیوں کو 'عدالتی طریقہ کار' کے بغیرطاقتور برطانوی ولی عہد کو چیلنج کرنے کے الزام میں سزائے موت دینا تھا۔

یہ آرڈیننس یکم مئی کو متعارف کرایا گیا تھا اور وائسرائے نے چیف جسٹس شادی لال کو 'خصوصی ٹربیونل' کے لیے تین ججوں کا 'مناسب انتخاب' کرنے کا اختیار دیا تھا۔ شادی لال کو پورا یقین تھا کہ جسٹس سید آغا حیدر، دو انگریز ججوں، کولڈ ڈریم اور ہلٹن کے ساتھ خصوصی ٹربیونل کے اصل مقاصد کو سمجھ کربرطانوی حکومت کی منشا کے مطابق انصاف کریں گے۔اس ٹربیونل نے 5 مئی کو اپنا 'کام' شروع کیا اور اسی دن انقلابیوں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم اس مضحکہ خیز شو میں فریق بننے سے انکار کرتے ہیں اور ہم عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔

بہت کم لوگ یہ بات جانتے تھے کہ جسٹس آغا حیدر کے سینے میں بھی ہندوستانی دل دھڑک رہا تھا۔ انقلابیوں کو 12 مئی کو ٹریبونل کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان انقلابیوں نوجوانوں نےانقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے اور 'سرفروشی کی تمنا' گانے لگے۔ جس کے بعد جسٹس کولڈ اسٹریم کے حکم پرپولیس نےانہیں عدالت کے اندر ہی مارا پیٹا جس کی وجہ سے وہ بری طرح زخمی ہوگئے۔

آغا حیدر برداشت نہ کر سکے اورانہوں نے اس پر فوراً اپنا احتجاج درج کرایا۔ وہ اپنی کتاب(The Execution of Bhagat Singh : Legal Heresies of the Raj, Satvinder Singh ) میں لکھتے ہیں کہ وہ (آغا حیدر) کمرہ عدالت میں ہونے والے تشددسے خود کو بالکل الگ کر لیا۔ جو ٹریبونل کے چیئرمین جسٹس کے حکم پر جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ان کا یہ طرزعمل دوسرے ججوں کے لیے ایک صدمہ سے کم نہ تھا۔انہوں نے لاہور کے چیف جسٹس شادی لال کوبھی حیرت میں ڈال دیا۔ جنہوں نے جسٹس آغاحیدر کو ایک کٹھ پتلی کے طور پرمقررکیا تھا۔ لیکن وہ ان کےجال میں نہیں پھنسے۔

بارہ مئی کےتشدد کے بعد انقلابیوں اور ان کے وکلاء نے ٹربیونل کی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ کیوں کہ برطانوی حکومت کی جانب سےانصاف کے نام پر محض دکھاوا کیا جا رہا تھا۔ خصوصی ٹریبونل نے'ملزم' یا 'دفاعی وکیل' کی غیر موجودگی میں اپنی کارروائی شروع کی۔ جسٹس آغاحیدربرداشت نہ کر سکےاورجج کی کرسی سے 'دفاع' کا کردار ادا کیا۔انہوں نے پولیس کی طرف سے پیش کیے جانے والے تمام گواہوں پر جرح شروع کردی۔ پولیس نے جئے گوپال، پوہندرا ناتھ گھوش، منموہن بنرجی اور ہنس راج ووہرا کو بطور گواہ پیش کیا۔ جسٹس آغا حیدر نے دیگر دو انگریز ججوں کے برعکس براہِ راست ان کی گواہی قبول نہیں کی۔ انہوں نے ان بیانات میں تضاد پایا جو پولیس نے خصوصی ٹربیونل کے سامنے پیش کیے تھے۔

جسٹس آغا حیدر لکھتے ہیں کہ ملزم کی جانب سے قانونی نمائندگی کی عدم موجودگی میں بھی انہوں نے قانون کی بالادستی برقرار رکھی۔ انہوں نے ہر حالت میں قانون کے مطابق انصاف کیا۔ خصوصی ٹربیونل کا سارا ڈرامہ جسٹس آغا حیدرنے30 مئی کو اس وقت بے نقاب کیا جب انہوں نے رام سرن داس سے جرح شروع کی تھی۔ رام سرن داس کو خصوصی ٹربیونل کے سامنے تسلیم کیا کہ میرے پاس ایک دستاویزہے،جس میں دکھایا گیا ہے کہ گواہ کو کیسے پڑھایا جاتا ہے۔ میں دستاویز حوالے کرتا ہوں۔ میں پولیس کی تحویل میں نہیں رہنا چاہتا۔ یہ دستاویز مجھے ایک پولیس افسر نے دی تھی۔ مجھے کس طرح عدالت میں بات کرنی ہے، یہ بات میرے ساتھ آنے والے افسر نے مجھے بار بار بتائی ہے۔ جیسے جیسے پولیس بدلتے، یہ دستاویز ایک افسر سے دوسرے افسر کو منتقل ہوتا ہے۔

جسٹس آغا حیدر کے مقدمے کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عدالت میں پیش کیے گئے سات عینی شاہدین میں سے چھ جرح کا سامنا کرنے کے بعد مخالف ہو گئے۔ خصوصی ٹریبونل کا آخری دن 20 جون تھا اور یہ پہلے ہی واضح تھا کہ جسٹس آغا حیدر ہندوستانی انقلابیوں کو موت کی سزا دینے والے نہیں ہیں۔برطانوی حکومت مخمصے کا شکار تھی۔ خصوصی ٹربیونل کے نام پرانہوں نے جوڈرامہ تیار کیا تھا،وہ اب ناکام ہو رہا تھا کیونکہ قانون کے مطابق اگر تینوں جج مقدمہ پر متفق نہ ہوتے تو انقلابی نوجوانوں کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی۔ برطانوی حکومت یہ چاہتی تھی کہ جسٹس آغاحیدرحکومت کی منشا کے مطابق فیصلہ سنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے مقدمے کے فیصلے سے قبل جسٹس آغا حیدر کے پاس اپنا ایک نمائندہ بھیجا، تاکہ وہ ان کی بات مان لیں، مگر جسٹس آغا حیدر نےاس شخص کو اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ میں جج ہوں، قصائی نہیں۔

اس کے بعد جسٹس آغا حیدر کو چیف جسٹس شادی لال نے ٹربیونل سے'صحت کی وجوہات' کی بنا پر برخاست کر دیا گیا اور خصوصی ٹریبونل کی تشکیل نو کر دی گئی۔ اس بار جج کے پاس برطانونی حکومت  کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ اس طرح بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو سزائے موت سناکر گویا 'انگریزی انصاف' کیا گیا۔پھر جسٹس آغا حیدر نے نوکری چھوڑ دی۔ وہ سہارنپور (اترپردیش) آگئے اور 1937 کے صوبائی انتخابات کے بعد اپنے حلقے کی نمائندگی کی۔

اب بھی ان کے پڑپوتے انہیں اس طرح یاد کرتے ہیں: میرا تعلق اس خاندان سے ہے جس کے انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔