جشن ریختہ : اردو کو خالص نہ بنائیں۔ کمار وشواس

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-12-2022
 جشن ریختہ : اردو کو خالص نہ بنائیں۔ کمار وشواس
جشن ریختہ : اردو کو خالص نہ بنائیں۔ کمار وشواس

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

 اردو  کو خالص رکھنے یا بنانے کی کوشش نہ کریں، زبان کو آسان بنائیں۔ اگر کوئی غیر اردو داں غلط تلفظ یا املا کے ساتھ پڑھ یا لکھ رہا ہے تو اس پر تنقید نہ کریں ۔اگر ہم کسی لفظ کے نیچے نقطہ نہیں لگا سکتے تو کوئی بات نہیں ۔آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم آپ کی تھالی میں اپنا کھانا کھا رہے ہیں ۔ اگر کوئی احسا س کو احساسوں کہہ رہا ہے تو کہنے دیں، اگر کوئی جذبات کے بجائے جذباتوں کہہ رہا ہے تو کہنے دیں ۔

جشن ریختہ کے آخری دن ’ محفل خانہ ‘ میں ایک مذاکرہ میں جہاں ممتاز ہندی کوی کمار وشواس نے اپنی صاف صاف اور کھری کھری باتوں سے محفل کو لوٹ لیا۔انہوں نے اپنے میزبان اور مشہور اینکر سمیت اوستھی کی رہ رہ کر زبردست کھینچائی کی ۔ ہر موضوع پر ہر کسی کو لاجواب کردیا ۔ان کو  سننے والوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی زیادہ تھی،جو کمار وشواس کی باتوں پر زوردار تالیاں بجا کر اس گنگا جمنی تہذیب کی حمایت کرتے رہے جس کو محفوظ رکھنے پر کما ر وشواس زور دے رہے تھے۔

میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں کمار وشواس نے کہا کہ میں نے اردو کسی مولوی صاحب سے نہیں سیکھی یا سمجھی۔ میرے پڑوسی تھے سبحان چاچا ۔ وہ ہمارے گھر آیا کرتے تھے میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ان کی زبان سن کر احساس ہوتا تھا کہ یہ کچھ خاص ہے۔اس وقت تو ہم صرف یہی جانتے تھے یہ ہمارے چاچا ہیں ۔ وہ مسلمان ہیں یا ہندو ہمیں نہیں معلوم تھا۔

کمار وشواس نے موجودہ حالات اور مذہبی جذبات کے استعمال پر سخت تنقید کرتے ہوئے جو دھرم دوسرے دھرم  میں رکاوٹ  ڈالے وہ دھرم نہیں ۔

ملک کے حالات اور معاشرہ میں صف بندی پرانہوں نے کہا کہ قرآن شریف میں بھی کہا کہ ۔۔۔۔لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ۔۔۔ یعنی کہ ۔۔۔ میرے لیے میرا دین. تمہارے لیے تمہارا دین ہے۔

اگر ہم بٹ گئے تو ۔۔۔

 کمار وشواس نے مزید کہا کہ موجودہ ماحول میں اگرشعر سننے والے  بٹ گئے تو مشاعرے ختم ہوجائیں گے اور شاعر بھی۔ سماج میں ایسی تقسیم نہیں ہونی چاہیے  اگر ہم رنگ اور زبان میں بٹ گئے تو نہ مشاعرہ رہے گا اور نہ ہی شاعر۔انہوں نے سیاسی نظام اور تہذیب کی زبردست مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس تصور کو توڑنا ہوگا ۔اس سے باہر آنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس زہر کا شکار کیوں ہورہے ہیں ۔

جب کوئی گاوں میں گائے کو چرانے کے لیے لے جاتا ہے تو گائے بھانگ  کے پودے نہیں کھاتی ہے، اس کو سونگھ کر چھوڑ دیتی ہے ۔اگر جانور ایسا کرسکتا ہے تو ہم اور آپ کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟

میں نے سنا کہ جاوید اختر صاحب نے اسی اسٹیج پر کہا ہے کہ ’علم کی حد ہوتی ہے لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں ۔۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور آپ بھی اس کو سمجھیں ۔

اچھی اور بری شاعری ۔۔۔

 جشن  ریختہ میں کمار وشواس نے شاعری کے معیار اور سرکاری شاعروں پر اپنی رائے رکھتے ہوئے بھی محفل کو لوٹ لیا ۔ انہوں نے کہا کہ اچھے اور برے ایک سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ دونوں کا رہنا ضروری ہے ۔ جب بری شاعری رہے گی تب ہی آپ اچھی شاعری کی تمیز کر سکیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس دور میں بری شاعری حاوی ہوگئی تو وہ کل یگ کہلائے گا اور جب اچھی شاعری کا دبدبہ رہا تو وہ سنہرا دور کہلائے گا۔

انہوں نے کہا کہ او ٹی ٹی کا پلیٹ فارم کسی بھی بنیاد پر شاعری کے لیے خطرہ یا نقصان دہ نہیں ۔ سب کو موقع ملنا چاہیے ۔اچھے اور برے کی تمیز کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر کوئی گھٹیا شاعری کرتا ہے تو اس کا فائدہ اچھی شاعری کو ہوتا ہے جسے لوگ تسلیم کرنے لگتے ہیں کہ یہ شاعری معیاری ہے ۔

کمار وشواس نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ جس شعر پر تالی نہ بجے سمجھ لیجئے کہ اچھا شعر ہے ۔

آزاد قلم  ۔۔۔۔۔۔

 ایک سوال کے جواب میں سرکاری اور غیر سرکاری کا مسئلہ الگ ہے ۔میں تو کہتا ہوں کہ اگر تعریف کرنا ہے تو سب کی کرو۔ اگر ہم گاندئی اور نہرو کی تعریف کررہے ہیں تو پٹیل اور ساورکر کی بھی تعریف کریں ۔ اب اگر ان کی خامیاں نکلنے لگیں گے تو پھر انصاف نہیں ہوگا ۔ یہ اسی طرح ہے کہ ہم نے غالب کی شاعری کو پڑھنے کے بعد اس پر واہ واہ کرنے کے بجائے اس میں خامیوں کو تلاش کرنا شروع کردیا۔۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے کسی نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کسی جلسہ میں آپ کی پنتھیوں کو سنایا ہے۔ پھر کسی نے بتایا کہ پرینکا گاندھی نے میرے الفاظ کو ٹیوٹ کیا لیکن اس میں میرا نام نہیں لکھا ۔ ایسا ہر سطح پر ہوا ۔ اسی لیے میں نئی نسل سے کہتا ہوں کہ  اگر لکھنا ہو تو آزاد رہ کر لکھو۔

انہوں نے کہا کہ اب ایسے شاعروں کو بڑے بڑے ایوارڈ مل جاتے ہیں جو پاور کے ساتھ ہوتے ہیں مجھے تو کسی میونسپلٹی نے بھی ایوارڈ نہیں دیا۔

کمار وشواس نے محبت کی بات پر راجدھانی میں ایک سنسنی خیز قتل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنی محبت کے لیے فریج خریدنے والا جاہل  اگر ’’جشن ریختہ‘‘ کا حصہ بنا ہوتا تو ایسا کبھی  نہیں کرتا ۔ محبت کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے اس کا احساس ریختہ کے پلیٹ فارم سے ہوتا ہے 

اردو ۔ ہندی کا فرق  ۔۔۔

کمار وشواس نے اس محفل میں اپنے بزرگ دوست  اور سابق آئی پی ایس  شجاح خاور کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ  میں پلکھوا میں رہتا تھا اور شاہجاں پور میں ہر سال ایک بڑا کوی سمیلن ہوا کرتا تھا۔ ایک بار خاور صاحب کا فون آیا کہ تم کیسے جاو گے ؟ میں نے بتایا کہ بڑے بھائی میں بس پکڑوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ کمار تم گیارہ بجے ہائی وے پر آجانا،میں اپنی کار روک کر انتظار کروں گا ۔

کمار وشواس نے کہا کہ میں پہنچ گیا ۔ لال بتی لگی سفید کار بھی نمودار ہوگئی۔ شیشہ نیچے ہوا اور خاور صاحب نے کہا کہ آجاو میاں ۔۔۔ بیٹھ جاو ۔ میں کار میں سوار ہوگیا ایک پرسکون سفر کے لیے ۔ مگر کچھ دیر بعد ہاپوڑ میں شجاح خٓاور صاحب نے سڑک پر ہی کار رکوائی اور مجھ سے کہا کہ چلو ۔ کسی سے ملنا ہے۔

کمار وشواس کے مطابق  وہ پتلی پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک چھوٹی سی دوکان پر پہنچے ۔ جہاں ایک داڑھی والے مولانا کپڑے  کی کٹنگ کے لیے جھکے ہوئے تھے ۔جبکہ ایک نوجوان مشین پر کچھ سی رہا تھا۔  خاور صاحب وہیں بیٹھ گئے۔ سلام دعا کے بعد میرا تعارف بھی کرایا ۔ اس کے بعد اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا ۔ جس پر ان کا کلام لکھا تھا۔ وہ پڑھتے گئے اور ٹیلر ماسٹر اس میں ترمیم اور اصلاح کرتے گئے ۔

میں حیران رہ گیا ۔ رام پور کے نواب خاندان کا آئی پی ایس ،ایک ٹیلر ماسٹر سے اپنی شاعری کی اصلاح کرارہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے ان کے کئی شعر ٹھیک کئے اور پھر ہم سفر پر روانہ ہوگئے۔ میں سوچتا رہ گیا کہ اس انسان کی خاکساری اور علم کے حصول کا جنون کس انتہا پر ہے ۔

کمار وشواس نے کہا کہ اس کے بعد حصار کا ایک واقعہ بیان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک کوی سمبیلن  میں گیا تو ایک نوجوان کلام پڑھنے کا خواہش مند تھا ،میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا سنانا چاہتے ہو تو اس کا جواب تھا کہ ’’کوی بننے کے نسخے‘‘ ۔۔۔  جس نے مجھے بتایا کہ اردو اور ہندی کی شاعری میں کیا فرق ہے۔

سنجیو سراف کو سلام  ۔۔۔

 کمار وشواس نے جشن ریختہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سنجیو سراف نے اس کو ایک تحریک بنا دیا ،ریختہ کو دنیا میں ہندوستانی سرزمین سے اردو کی آواز بنا دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس شخص کو کسی سطح پر کوئی تسلیم کرنے والا نہیں ،وہ کسی ایوارڈ یا اعزاز کا آج تک حقدار نہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں سلام کرتا ہوں کہ سنجیو سراف نے اردو کے ساتھ اس کی تہذیب کو بھی ز۔دہ رکھنے کا انتظام کردیا ۔

انہوں نے اسٹیج کے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی اسٹیج کے سامنے سے ایک فوٹو گرافر گزرا تو وہ انتہائی ادب کے ساتھ سر جھکا کر نکلا ۔ تاکہ کسی کو خلل یا تکلیف نہ ہو۔ یہ ہے تہذیب جس کے زندہ نمونے ہم ریختہ کے پلیٹ فارم میں دیکھ سکتے ہیں ۔ میں ریختہ کو اس خدمت کے لیے سلام کرتا ہوں ۔