اسلام: تسلسل اور تبدیلی

Story by  پروفیسراختر الواسیع | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 اسلام: تسلسل اور تبدیلی
اسلام: تسلسل اور تبدیلی

 

 

awazthevoice

پروفیسر اختر الواسع

ہندوستان اور انڈونیشیاء کے حوالے سے یہ اجتماع ایک قران السعدین ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ہم اس میں اسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ جب انڈونیشیاء اور ہندوستان مل کر اسلام کے حوالے سے کوئی بات کریں تو یہ اس لیے غیر معمولی اہمیت حاصل کر لیتی ہے کہ انڈونیشیاء دنیا میں مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے اور ہندوستان کو بھی یہ شرف اور سعادت حاصل ہے کہ وہ مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے۔ جہاں تک آج کے موضوع کا تعلق ہے دنیا بھر میں اسلام ایک تسلسل کے ساتھ بنیادی عقائد کے معاملے میں اپنے آغاز سے آج تک ایک ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت، نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی رسالت، قرآن کریم کے آخری کلام الہی ہونے اور آخرت کے بارے میں ساری دنیا کے مسلمان یکجا ہیں۔ اسی طرح نماز، زکوۃ، روزہ اور حج کے حوالے سے بھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ کچھ فروعی اختلافات کے ساتھ تمام مسلمان اسلام کے نظام عبادات کے بارے میں بھی ایک ہیں۔

انڈونیشیاء کے بارے میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ وہاں مذہب میں راسخ العقیدگی کے ساتھ اسلام سے قبل کے اپنے کلچر سے وابستگی اور تعلق کا جو بے پناہ اظہار ہمیں ملتا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ یہ بات میں کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ کئی دفعہ انڈونیشیاء جا کر میں نے جو کچھ دیکھا اس کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں۔ اسلام وہاں تاجروں اور صوفیاء کے ذریعے پہنچا اور اسی لیے وہاں ہمیں جو مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی دیکھنے کوملتی ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔

جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے، ہندوستان میں اسلام سب سے پہلے تاجروں کے ذریعے آیا اور جنوبی ہند کے کیرالہ میں پہلی مسجد نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ ہی میں تعمیر ہوگئی تھی۔ شمالی ہند میں اسلام فاتحین کے ذریعے پہنچا اور تقریبا آٹھ سو سال کی حکومت کے باجود مسلمان یہاں ہمیشہ اقلیت ہی میں رہے۔ اس کی وجہ اگر ایک طرف ہندو دھرم کی سناتن پر میر اتھی تو دوسری طرف قرآن کریم کا لا اکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دین کی بنیادی تعلیمات تھی۔ قرآن کریم اور اسلام کے حریت ، اخوت اور مساوات کے پیغام کو جس طبقے نے بڑی حسن و خوبی کے ساتھ عام کیا، مقبول بنایا اور مذہب اور مقامی تہذیبی و ثقافتی رسوم سے ایک ہم آہنگی کا رشتہ قائم کرنے کا کام کیا وہ ہمارے جلیل القدر صوفیائے کرام تھے۔ جنہوں نے جبر کی جگہ صبر اور حکم کی جگہ مشورے کا راستہ اختیار کیا۔ جن کی خانقاہیں اس دور استبداد میں سب کے لیے کھلی ہوئی تھیں۔ خانقاہ میں آنے والوں سے ان کا نام ، مذہب اور ذات نہیں پوچھی جاتی تھی بلکہ کھانے کو پوچھا جاتا تھا۔ ہر آنے والا اپنے ساتھ جو دکھ درد کی کہانی لے کر آتا تھا، صوفی کے کندھے پر سر رکھ کر اسے نہ صرف ان کے ساتھ بانٹتا تھا بلکہ اپنے آنسو بہا وہ اپنے غم کے بوجھ کو ہلکا بھی کر لیتا تھا۔ ہندوستان میں چونکہ ایک رنگارنگی تھی اور سب کے قبول و انجذاب کا عمل ہر وقت کارفرما تھا اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندوستان چشتی، قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ سلسلوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک ہوا کہ نقشبندیہ سلسلہ سینٹرل ایشیاء سے ہندوستان آیا، یہاں سے شام اور ترکی گیا اور وہاں سے ایک بار پھر لوٹ کر ہندوستان آیا۔ جہاں تک چشتیہ سلسلے کی بات ہے تو ایک ہندوستانی کی حیثیت سے مجھے اس پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ حضرت

خواجہ معین الدین چشتی کی وجہ سے اس عظیم صوفی سلسلے کی راجدھانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر حضرت نظام الدین اولیا آرام فرما ہیں جنہوں نے اپنے نامور مرید اور ہندوستان کے عاشق صادق حضرت امیر خسرو کے ساتھ مل کر ہمیں یہ سبق سکھایا کہ:

ہر قوم راست را ہے دینے وقبلہ گا ہے

من قبلہ راست کردیم برسمت کج کلا ہے

اور اسی طرح ہندوستان نے سیکولرزم کا وہ راستہ اپنایا جسے ہندو مذہبی روایت میں سرو دھرم سنبھاؤ کے نام سے پکارا گیا۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد اسلام کا۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے صرف حکومت نہیں کی بلکہ یہاں کے علماء نے دین اسلام ہو یا مقامی علوم و فنون، سب کے فروغ میں بھر پور حصہ لیا۔ علامہ محدث پٹنی ہوں یا حضرت نظام الدین اولیا، شیخ عبد الحق محدث دہلوی ہوں یا پھر شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان، ان کے قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف کے میدان میں خدمات سے کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ اس ملک کے رہنے والوں کی فراخ دلی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سکھوں کے صحیفے گرو گرنتھ صاحب میں جسے اس مذہب میں حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے اس میں اوروں کے ساتھ ایک مسلمان صوفی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کا کلام بھی شامل ہے۔ اسی طرح اکبر اعظم کے عہد میں مہا بھارت اور رامائن کے فارسی تراجم کیے گئے اور بعد ازاں دارا شکوہ نے بین المذاہب ہم آہنگی کی وہ داغ بیل ڈالی جس کے نتیجے میں مجمع البحرین اور سیر اکبر جیسی لازوال کتابیں سامنے آئیں۔ مجھے اس موقعے پر ایک اور علمی شخصیت کا تذکرہ کرنے کی اجازت دیجئے ، وہ ابوریحان البیرونی تھا جس نے کتاب الہند کے نام سے وہ پہلی کوشش کی کہ دنیا ہندوستان اور اس کی مذہبی و معاشرتی زندگی کو جان سکی ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی بعض رایوں اور اطلاعات سے ہم متفق نہ ہوں لیکن یہ بات اپنی جگہ سوفی صد صحیح ہے کہ پہلی شعوری کوشش ہندوستان کو سمجھنے کی جو مسلمانوں کے ذریعے ہوئی وہ البیرونی ہی کے ذریعے کی گئی۔ بعد ازاں فانی کی دبستان مذاہب اور ہندوستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے لیے کام کرنے والے سرسید احمد خاں نے تبیین الکلام کے نام سے انجیل مقدس کا ترجمہ کیا۔ بیچ میں تقریباً دو سو سال کا وقفہ ایسا ضرور رہا جب انگریزوں کے نو آبادیاتی اقتدار کے زمانے میں ہندوستان کا تقریباً ہر شہری غیر ملکی حکمرانوں سے آزادی پانے کے لیے جدو جہد کرتا رہا جو بلآخر ۱۵اگست ۱۹۴۷ء کو ملی۔ ہندوستان کو آزادی ملی لیکن افسوس یہ ہے کہ تقسیم وطن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ منافرت اور بڑے پیمانے پر ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر نقل آبادی کے افسوس ناک اور کرب آمیز واقعات کے ساتھ آئی لیکن یہ بات ہمیشہ زریں حروف سے لکھی جائے گی کہ باوجود ایک نئ مملکت مذہب اسلام کے نام پر وجود میں آنے کے باجود ہندوستان کی قیادت نے مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، راج گوپال آچاریہ، بابو راجیندر پرساد اور ڈاکٹر امبیڈکر کی سرکردگی میں یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک رہے گا۔ جس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ میں ایک نئے تجربے سے دو چار ہوئے جس میں وہ نہ حاکم تھے، نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر کے شریک تھے اور آج تک ہیں۔ اپنے وطن عزیز کی عظمت کی سر بلندی کے لیے انہوں نے کبھی کسی طرح کا تر ڈ نہیں دکھایا، اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں وہ

برابر کے شریک رہے۔ اس ملک میں تین صدر جمہوریہ، تین نائب صدر جمہور یہ اب تک منتخب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چار چیف جسٹس مسلمان رہ چکے ہیں۔ میزائل مین اے پی جے عبدالکلام اور اینٹار ٹکا میں نئے ٹیگ کی گنگوتری کو قائم کرنے والے ڈاکٹر سید ظہور قاسم اور ڈاکٹر صدیقی ہمارے ملک کے لیے آج بھی سرمایہ افتخار ہیں۔

آزاد ہندوستان میں ہمیں ہمارا دستور سارے حقوق عطا کرتا ہے جس میں مذہب کو ماننا بھی ہے اور اس کی تبلیغ بھی ۔ جس میں ہمیں اپنے شرعی قوانین پر عمل کرنے ، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی آزادی دی گئی ہے۔ اسی لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہندوستان میں صرف جدید تعلیم کے ہی ادارے نہیں ہیں بلکہ دینِ اسلام کی تعلیم کے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیاء اور افریقہ کے دوسرے ملکوں میں بھی مذہبی تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیا۔ آج بھی دارالعلوم دیوبند، جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعه سیفیہ سورت، جامعه دار السلام عمر آباد، جامعہ ناظمیہ لکھنو اور جامعہ منصبیہ میرٹھ جیسے نہ جانے کتنے ادارے اس ملک میں مذہب اسلام کی تعلیم اور ترویج میں اپنا محوری کردار ادا کر رہے ہیں۔ دینی تعلیم کے ان اداروں کے لیے بار بار یہ آواز میں اٹھتی رہی ہیں کہ انہیں ایک ایسا شمولیت پسند نظام تعلیم اختیار کرنا چاہیے جو کہ دین اور دنیا میں کسی تقسیم کوتعلیم کے باب میں روا نہیں رکھتا ہو اور ایسا کہنا اور کرنا غلط بھی نہیں ہوگا۔ سوال جدید و قدیم کی آویزش کا نہیں بلکہ آمیزش کا ہے۔ 1857 سے پہلے اس ملک میں ہمارے مدر سے ایک ایسا شمولیت پسند نظام تعلیم رکھتے تھے کہ جن کے فارغین نے محض تفسیر وحدیث، فقہ و کلام کی ترویج ہی نہیں کی بلکہ اس ملک کو قطب مینار کی بلندی، تاج محل کا حسن، لال قلعہ کی پختگی اور شاہجہانی مسجد کا تقدس بھی عطا کیا۔ ان سب کے معمار مدرسوں ہی کے فارغ تھے۔ اگر کل یہ ہوسکتا تھا تو آج کیوں نہیں؟ اس کے علاوہ ایک اور طرف خیر سے آج کل جو توجہ ہوئی ہے اور ہندوستان کا نظام تعلیم جو اپنی طرف لوگوں کو راغب کر رہا ہے اس میں اب مسلمان لڑکے اور لڑکیاں برابر حصہ لے رہے ہیں اور گزشتہ تین دہائیوں میں تعلیم اور وہ بھی جدید تعلیم کے حصول کا جو ذوق و شوق ہمیں اپنے ملک کے مسلم سماج میں دیکھنے کو ملا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے یہ بات قابل فخر بھی ہے اور قابل اطمینان بھی کہ یہاں کے لوگوں میں کسی طرح کا غزہ یا جھوٹا فخر و مباہات کا عام طور پر کوئی پہلو دیکھنے کو نہیں ملتا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کہ اس دنیا میں جو عالمی گاؤں بن چکی ہے اگر کوئی نمونہ اسلام کے حوالے سے اپنی جگہ بنائے گا تو وہ ہندوستان میں اسلام کے حوالے ہی سے اپنی جگہ بنائے گا۔اس لئے کہ اس ملک میں مسلمان پچھلے ایک ہزار سال سے ایک ایسے معاشرے میں رہے ہیں جو مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تکثیریت کا حامل رہا ہے۔ جو یہ مانتا ہے کہ اس دنیا میں مذہبی تکثیریت میرے اور آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ خداوند قدوس کی منشا اور رضا کا نتیجہ ہے ورنہ اگر وہ قادر مطلق جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ وہ بلاشبہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اگر چاہتا تو سب کو ایک سانچے میں ڈھال دیتا۔ اس لئے جس میں اللہ راضی اس میں ہم سب بھی راضی۔ مجھے یہاں یہ کہنے میں بھی کوئی تکلف نہیں کہ اگر اللہ رب العزت نے بحیثیت مسلمان مجھے ایک اقلیت میں پیدا کیا تو میں اس پر بھی راضی ہوں کیوں کہ یہ میرے رب کا فیصلہ ہے۔ میں اس

ملک کے ذرے ذرے سے محبت کرتا ہوں کیوں کہ ہمارے عقیدے کے مطابق یہ صرف ہمارا مادر وطن ہی نہیں بلکہ پدری وطن بھی ہے کیوں کہ جب حضرت آدم جنت سے دنیا میں بھیجے گئے تو وہ ہندوستان ہی میں آئے تھے اور یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں۔ اس لیے میرا ماضی، حال اور مستقبل سب اس ملک سے وابستہ ہیں ۔ جو کچھ ہندوستان کے مفاد میں ہے وہ مسلمان کے مفاد میں ہے۔ آج کی اس دنیا میں ایک دوسرے پر انحصار ناگزیر ہو گیا ہے۔ اب سفر ہو یا حضر، دنیا کا کوئی خطہ ہو آپ مختلف مذاہب، قومیتیوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں سے ملنے جلنے اور ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مسلم اقلیتی طبقات کے لیے غیر مسلم اکثریتی معاشروں اور ملکوں میں جو حقوق اور مراعات آپ چاہتے ہیں وہ مسلم اکثریتی معاشروں اور ملکوں میں غیر مسلم

اقلیتوں کو دینے میں پہل کریں اور اس معاملے میں ہم انڈونیشیاء سے بڑی حد تک بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سی برائیاں اور بیماریاں ایسی ہیں جو نہ ریجنس(Regions) کو اور نہ ریلیجنس(Religions) کو پہچانتی ہیں۔ جیسے ایچ آئی وی ایڈس کو رونا ، نشہ آور ادویات کی اسمگلنگ ، صنفی امتیازات ، حقوق اطفال کی محرومی، جہالت اور غربت ، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی ان سب کے خلاف ایکCommon Minimum Program بنا کر

متحدہ طور پر سر گرم عمل ہوں تو یہ خدا اور خلق خدا د دونوں کے یہاں قبولیت اور افادیت کا باعث ہوں گے اور یہ دنیا جو جنت سے بھیجے گئے آدم کا مسکن قرار دی گئی تھی اسے ہم ایک بار پھر جنت بنا سکیں گے اور ہندوستان اور انڈونیشیاء مل کر اس میدان میں آگے بڑھ کر ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔ کیا ایسا ہوگا؟ کیا ایسا کرنا مناسب اور ضروری بھی ہے؟ انہیں سوالوں کے مثبت جوابات پر عالم انسانیت کا مستقبل منحصر ہے۔

( مقرر خسرو فاؤنڈیشن کے چیئر مین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)