عالمی یومِ خاندان: جوائنٹ فیملی کے فائدے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 14-05-2022
عالمی یومِ خاندان: جوائنٹ فیملی کے فائدے
عالمی یومِ خاندان: جوائنٹ فیملی کے فائدے

 

 

پرویز احمد : دہلی

اس بات سے تو ہم سب اچھی طرح واقف ہیں کہ خاندان کچھ افراد سے مل کر بنتا ہے اور یہ افراد ایک ہی گھر میں مل جل کر مختلف رشتوں میں جڑ کر اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ عموماً یہ خاندان والدین کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔

ہر والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنا ایک آشیانہ بنائے جس میں ان کے بچے محفوظ اور آرام دہ زندگی بسر کریں، دنیا کی دھوپ چھاؤں اور ماحول کی سردی گرمی سے محفوظ رہیں۔ اس کی تمام تر بنیادیں گھر کے تمام افراد کے اتحاد و اتفاق سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہ اسی وقت تک مستحکم اور مضبوط رہتا ہے جب تک اس میں رہنے والے افراد خلوص اور اپنائیت کے ساتھ رہتے ہیں۔آج کے دور میں عالمی سطح پر سماج دو خاندانی نظام میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک اتحاد و اتفاق سے عاری خاندان جسے عرف عام میں الگ تھلگ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک یا دو افراد اپنے بچوں کے ساتھ باقی خاندان سے جدا ہوکر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جن کے لئے رشتے اور رشتے دار بے معنی ہوتے ہیں، خاندانی غم و خوشی سے دور جن کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔

عام طور پر انہیں آزاد زندگی سمجھا جاتا ہے جس کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دوسرا خاندان وہ ہے جس میں گھر کے بڑے بزرگ، بچے اور نوجوان سب مل جل کر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام و مرتبہ ہوتا ہے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں بھی۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں آج یعنی 15 مئی کو ’’عالمی یومِ خاندان‘‘ منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو مشترکہ خاندان کی اہمیت اور زندگی میں خاندان کی ضرورت سے آگاہ کیا جا سکے۔اقوام متحدہ نے 15 مئی 1994 کو خاندان کا بین الاقوامی سال قرار دیا۔ یہ سلسلہ 1995 سے مسلسل جاری ہے۔

اس دن کے لیے ایک خاص علامت کا انتخاب بھی کیا گیا ہے۔ اس میں ایک سبز دائرے کے بیچ میں ایک دل اور گھر بنا ہوا ہے۔ یہ علامت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ خاندان دنیا کے مرکز میں ہے اور خاندان کے اندر ہی محبت بستی ہے۔

جدید معاشرے میں خاندانوں کا ٹوٹنا یا خاندانوں سے الگ رہنا ہی اس کو منانے کی بنیادی وجہ ہے۔ مشترکہ خاندان ترقی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ عالمی یومِ خاندان کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو خاندان کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے کہ کس طرح سے وہ خاندان کے درمیان رہ کر آسانی سے کامیاب زندگی شروع کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دو برسوں سے زیادہ عرصے سے دنیا کورونا وباء کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی اپنے خاندان سے الگ ہو کر دوسرے شہر میں اکیلا رہا تو کوئی ہاسٹل میں تنہائی سے دو چار رہا۔ ایسے مشکل اور نازیبا حالات میں ہر کسی نے تنہائی، لاچاری اور بے بسی کے درد کو محسوس کیا۔

جب خاندان کے تمام افراد مل جل کر رہتے ہیں تو پھر بڑے سے بڑے مسائل سے بھی لڑنے کی طاقت، ہمت اور حوصلہ ملتا ہے۔ خاندان کے ساتھ رہنے سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔ ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے ایک خوشحال خاندان کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ خاندان میں رہنے سے تناؤ دور ہوتا ہے۔

جب آپ پورا دن کورونا وائرس سے متعلق ناسازگار خبریں سنتے تھے تو بے چینی، تناؤ بہت بڑھ جاتا تھا لیکن ایسے حالات میں گھر والوں کے ساتھ کچھ خوش کُن پل گزارنے سے تناؤ، پریشانی اور خوف سب کچھ دور ہو جاتا تھا۔ ہنستے کھیلتے خاندان کی تشکیل اسی وقت ہوتی ہے جب خاندان کے تمام افراد خوش ہوں۔ ایک شخص کے ذہنی تناؤ کی وجہ سے پورے خاندان کی خوشیاں کم ہونے لگتی ہیں۔

جب خاندان اکٹھے ہوتا ہے تو انتہائی سنگین بیماری سے بھی آسانی سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اگر خاندان کا کوئی فرد کسی بیماری میں مبتلا ہو اور اسے گھر والوں کا پورا تعاون، پیار، تحفظ اور مناسب دیکھ بھال ملے تو اس کی ہمت نہیں ٹوٹتی۔ گھر کے تمام افراد مل کر مریض کو اس بیماری سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے لوگ خاندان میں خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

جو لوگ اس وقت اپنےخاندانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں وہ بہت خوش قسمت ہیں۔ تنہا زندگی گزارنے والے بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم بھی شاید اپنے والدین اور اس خاندانی نظام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے مصروفیات اور مجبوریاں اتنی زیادہ بنا ڈالی ہیں کہ خاندان کے لئے وقت نکالنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ شاید ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ ہم کتنی بڑی نعمت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے کہ جسے ہم ڈھونڈھنے نکلیں تو برسوں لگ جائیں گے لیکن پھر بھی شاید کبھی حاسل نہ کرسکیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دورِ حاضر جدت کی نئی منزلوں اور بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس دور کے بچے اور نوجوان سب ایڈوانس ہو گئے ہیں، پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جا سکتا کہ آج بھی گھروں میں بچوں کا بہلانے، لوریاں سنانے، کلمے یاد کرانے اور انہیں اخلاق آموز کہانیاں سنانے کے لئے بوڑھی دادیوں کی اتنی ہی ضرورت ہےجتنی پہلے تھی۔

جنہیں ہم آج کل بے کار کی چیز سمجھ کر خود سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، زندگی کے راستے پر بچوں کا پہلا قدم اٹھوانے کے لیے بوڑھے دادا کی انگلی آج بھی انہیںجذبات کے ساتھ لبریز ہے جو اپنی محبت سے ننہے منے دلوں کو مسرت و خوشی بخشتے ہیں۔ انہیں زندگی کے راستے پر اعتماد سے قدم اٹھانا سکھاتے ہیں۔ دادا، دادی، پھوپھی، چچا یہ وہ رشتے ہیں جو خون کے رشتے ہونے ساتھ ساتھ مخلص اور اپنائیت اور محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔

آج کے نوجوان مشترکہ خاندانی نظام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی ذاتی زندگی ہے جوآج کے دور کے ہر انسان کو لاحق ہو گئی ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی وہ تنہا رہنے کو ترجیح دینے لگےہیں۔ لیکن اس تنہائی کی وجہ سے بہت سے مسئلوں نے سر اٹھا دیا ہے۔

اس سے جہاں ایک طرف ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے، وہیں رشتوں میں تلخی، دوری اور بے حسی بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ مشین کی طرح زندگی گزارتے ایسے لوگ آپسی خلوص و محبت سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ طرح طرح کے امراض نے انہیں جکڑ لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تبدیلی زندگی کا ناگزیر حصہ ہوتی ہیںلیکن خاندان کے ساتھ مل جل کر رہنے سے رشتوں میں اپنائیت کا احساس اور تعلق ہمیشہ قائم رہتا ہے۔